Maham Ansari
قیامت کے دن ہر شے کا حساب ہوگا۔ یہ تو ہم نہ جانے کب سے سنتے آ رہے ہیں۔ مگر کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہم سے، یعنی لکھاریوں سے ان کے قلم کا بھی حساب ہوگا؟
جب ہم نے لکھنا شروع کیا تھا، تب یہ بات میرے ذہن میں نہیں تھی۔ یہ خیال نہیں گزرا تھا کہ میرے قلم سے متعلق بھی ہم سے سوال ہو سکتا ہے۔ لیکن پھر ایک وقت آیا جب میرا ذہن سوال کرنے لگا کہ کیا فکشن یعنی گھڑی ہوئی کہانیاں لکھنا جائز ہے؟ کہیں یہ گناہ تو نہیں ہے؟ کیونکہ میری زندگی میں ایسے لوگ ہیں، اور شاید آپ کی زندگی میں بھی ہوں، جو ناولوں کو پسند نہیں کرتے۔ کیوں؟ کیونکہ ان کے نذدیک ناول کچھ نہیں ماسوائے ایک جھوٹ کے جو لکھاری بولتا ہے۔ اور ان کا یہ نقطہ نظر، میرے دل میں سوال جگانے لگا، کہ کیا واقعی؟ لیکن میرا ذہن اس بات کو ماننے پر راضی نہیں تھا کہ یہ بات صحیح ہے۔
یہ تو سچ ہے کہ ہماری گھڑی ہوئی کہانیاں سچ نہیں ہوتیں۔ ان میں سچ کے ذرات پائے جا سکتے ہیں، ٹکڑے، مگر مکمل کہانی سچ نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ سچ پر مبنی کہانیوں میں بھی کچھ نہ کچھ تو ایسا ضرور ہوتا ہے جو لکھاری کے اپنے تصور کا نتیجہ ہو۔
لیکن وہ بات جو میرے ذہن کو الجھاتی تھی وہ یہ کہ ہم لکھاری کہانیاں گھڑتے ہیں، یہ بات تو سارے عالم کو معلوم ہے۔ تو کیا یہ جھوٹ ہوا؟ دھوکہ ہوا؟
ایک عرصہ تک میرا ذہن اسی بری طرح الجھے ریشم کو سلجھانے کی کوشش میں لگا رہا۔ کہانیاں لکھنا میرا شوق کبھی نہیں تھا۔ کہانیاں لکھنا میرا جنون تھا۔ یا شاید میرے جسم کا وہ حصہ جسے کسی کے نقطہ نظر کی وجہ سے کاٹ پھینکنا میرے لیے ناممکن سا تھا۔ لیکن پھر بھی، وہ وقت بھی آیا جب ہم نے کوشش کی کہ اسے اکھاڑ پھینکیں، لیکن جوں ہی مصمم ارادہ کیا، یوں لگا جیسے میرے دل میں ایک خلاء بن گیا ہو۔ ایسا خلاء جسے دنیا کی کوئی شے کبھی پوری نہیں کر سکتی۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ ایک شے ہمیں اتنی تکلیف دے گی کہ ہم ایک لمحہ بھی اس ارادے پر قایم نہ رہ سکیں گے۔
اب حال یہ تھا کہ نا ہم آگے جا پا رہے تھے، نا پیچھے ہٹ سکتے تھے۔ اسی ادھیڑ بن میں سالوں پہلے شروع کیا گیا ناول پورا کرنا مشکل ہونے لگا۔
لیکن پھر ہمیں خیال آیا کہ کیوں نا ہم دیوبند کی ویب سائٹ پر اپنے اس مسءلے کا حل تلاشیں اور تب ہمارے سامنے آیا وہ سوال جو پہلے سے ہی ویب سائٹ پر موجود تھا۔
سوال کچھ ایسے ہی تھا کہ کہانیاں لکھنا کیسا ہے؟ اور کیا اسلام میں اس کی اجازت ہے؟
یہ سوال دیکھتے ہی میرا دل عجیب انداز میں دھڑکنے لگا۔ ہمیں لگا کہ شاید یہی وہ لمحہ ہے جب ہمیں سچ کو قبول کرنا ہوگا۔ ہم خائف تھے، اور بہت خائف تھے کہ کہیں یہ واقعی غلط نہ ہو۔ کہیں اگر فکشن لکھنا اسلام میں منع ہوا تو؟ لیکن ہمیں جواب جاننا تھا اور ہم اس جواب سے بھاگ نہیں سکتے تھے سو ہم نے جواب پڑھنا شروع کیا اور جوں جوں ہم جواب پڑھتے گئے، میرے دل میں سکون اترتا گیا۔
لفظ بہ لفظ تو بیان کرنا مشکل ہے مگر جواب کچھ یوں تھا کہ، کہانیاں لکھنا غلط ہے مگر وہ کہانیاں جن میں فحش باتیں لکھی جائیں۔ اور کہانیاں لکھنا اور پڑھنا لغو کاموں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ کام جن سے کسی کا کوئی فائدہ نہ ہوتا ہو۔ وہ کام جو وقت کا ضیاع ہیں۔ لیکن وہ کہانیاں جو کسی اچھے مقصد سے لکھی جائیں، جن سے پڑھنے والے کو کوئی سیکھ ملتی ہو، جو پڑھنے والے کی زندگی کو کسی بھی طرح سے بہتر بنانے کے کام آ سکیں انہیں لکھنے کی اجازت ہے۔ بلکہ ایسی کہانیاں لکھنا تو ایک اچھا کام ہے۔
اس جواب کے شروع میں میرا دل جس طرح ناامید ہوا تھا، آخر میں اتنا ہی سکون تھا جو ہم محسوس کر رہے تھے۔
جب ہم نے کہانیاں لکھنا شروع کیا تھا، اس وقت تو کہانیاں لکھنے کہ ایک ہی وجہ تھی شاید، کہانیاں پڑھ پڑھ کر ذہن میں بنتی کہانیوں کو کاغذ پر اتارنا۔ لیکن جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی، اور مزید لکھاریوں کو جاننا ہوا، تو میرا کہانیاں لکھنے کا مقصد محض انٹرٹینمنٹ یعنی مزا نہیں رہ گیا۔ بلکہ میرا قلم وہ کہانیاں لکھنے لگا جن میں کوئی سبق ہوتا، محض رومانس نہیں۔
بچپن سے جتنے اردو ناول پڑھے تھے، ننھا ذہن تمام میں چھپے مقصد کو تو نہیں سمجھ سکا تھا لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ ان تمام کہانیوں سے ہم نے محض انجوائمنٹ ہی حاصل کی تھی۔
یہ جواب پڑھنے کے بعد اب ہم مزید سبق آموز کہانیاں لکھنا چاہتے تھے لیکن بات یہ تھی کہ قلم سے اب رشتہ جیسے ٹوٹ سا گیا تھا۔ قلم سے علیحدگی اب بھی ناقابل قبول تھی مگر وہ پہلا سا تعلق، وہ پہلے سی ہمہ وقت لکھنے کی لگن کہیں کھو سی گئی تھی۔
میرا یہ آرٹیکل لکھنے کا مقصد ہے ان لکھاریوں سے ہمکلام ہونا جن کا ذہن بھی میرے جیسے سوالات کرتا ہے۔ یا ان لکھاریوں کو سوچنے پر مجبور کرنا جو بےمقصد لکھے جا رہے ہیں۔
بطور پبلشر ہمیں روز نت نئی کہانیاں موصول ہوتی ہیں۔ کسی کا مقصد کچھ ہوتا ہے، کسی کا کچھ۔ لیکن بطور ایک لکھاری اگر آپ کا مقصد صرف اپنے قاریوں کو انٹرٹین کرنا ہے تو آپ کو اپنے مقصد پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ قلم میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ اگر آپ کا قلم کسی کو بہتر بننے میں مدد نہیں دے سکتا، تو ضرور اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی کے صحیح راہ سے بھٹک جانے کا بھی ذریعہ نہ بنے۔
آخر اپنے قلم کے ذمہ دار آپ ہیں اور آپ نے ہی اپنے لکھے کا جواب دینا ہے۔