احمد طارق
درکار تھا قرار بلانا پڑا اسے
آواز دی تو لوٹ کے آنا پڑا اسے
میں کون ہوں کہاں سے ہوں اور کس کا پیار ہوں
بھولا ہوا تھا مجھ کو بتانا پڑا اسے
جاتے ہوئے سبھی سے ملایا تھا اس نے ہاتھ
اور سب میں میں بھی تھا سو ملانا پڑا اسے
میری سبھی دعاؤں کا محور وہی تو تھا
نا چاہتے ہوئے بھی بھلانا پڑا اسے
احمدؔ اسے بتاتا رہا ہجر موت ہے
مانا نہیں تو مر کے دکھانا پڑا اسے