شہود عالم آفاقی
آداب زندگی سے بہت دور ہو گیا
شہرت ذرا ملی تو وہ مغرور ہو گیا
اب رقص خاک و خوں پہ کوئی بولتا نہیں
جیسے یہ میرے ملک کا دستور ہو گیا
دشمن سے سرحدوں کو بچانا تھا جس کا کام
اپنوں کو قتل کرنے پہ مامور ہو گیا
گمنام تھا لباس شرافت کی وجہ سے
دستار مکر باندھی تو مشہور ہو گیا
سورج بھی اعتماد کے قابل نہیں رہا
آیا جو وقت شام تو بے نور ہو گیا
نالہ جو بہہ رہا تھا مرے گاؤں میں شہودؔ
دریا سے مل گیا ہے تو مغرور ہو گیا