متین نیازی
ہائے اردو یہ سیاست تری جاگیر کے ساتھ
کوئی غالبؔ کا طرفدار کوئی میرؔ کے ساتھ
زندگی ایک سفر خوف کی زنجیر کے ساتھ
موت اک خواب گراں حشر کی تعبیر کے ساتھ
ہر ادا حسن کی محفوظ ہے تاثیر کے ساتھ
بولتی چلتی تھرکتی ہوئی تصویر کے ساتھ
ضبط کی حد سے گزر کر بھی دعا کرتا ہوں
شکوہ بر لب ہوں مگر جذبۂ تعمیر کے ساتھ
جانی پہچانی ہوئی شکل بھی مبہم سی لگے
زندگی کا یہ فسوں اپنی ہی تصویر کے ساتھ
اب تو ٹھوکر بھی لگے تو نہیں اٹھتی جھنکار
پہلے آواز تھی ہر جنبش زنجیر کے ساتھ
دیدۂ صید سے آگاہ نہ دل سے واقف
اجنبی کون ہے ترکش میں ترے تیر کے ساتھ
اپنی قسمت کے جو مالک ہیں یہ ان سے پوچھو
ربط تدبیر کو ہوتا ہے جو تقدیر کے ساتھ
فیض موسم ہی سہی سحر تغیر ہی سہی
برق گرتی ہے مگر آہ کی تاثیر کے ساتھ
اپنی تصویر سے اک عشق سا ہوتا ہے متینؔ
یہ جنوں اور فزوں ہوتا تشہیر کے ساتھ