عظیم الدین ساحل کلم نوری
اردو کا نمک جو کھاتے ہیں
اردو پہ گزارا کرتے ہیں
اس بات کا دکھ ہے لوگ وہی
اردو سے کنارا کرتے ہیں
مت دیکھ حقارت سے ان کو
اندازہ نہیں ہے تجھ کو ابھی
شبنم کے یہ ننھے قطرے بھی
شعلے کو شرارا کرتے ہیں
اپنوں سے گلہ ہم کیا کرتے
ہے ریت پرانی دنیا کی
جھڑتے ہیں شجر سے پتے جب
پنچھی بھی کنارا کرتے ہیں
ممکن ہی نہیں ہے آ جائیں
قانون کے پنجوں میں مجرم
منظر میں نہیں رہتے ہیں
تمہیں وہ صرف اشارا کرتے ہیں