Nanhi Kaliyan, Mazdoor Bachche

Article

Gul Husna (Hasnaat Mehmood)

کبھی کلیاں مرجھاتے دیکھی ہیں۔۔۔یہ مزدور بچے بھی ننھی ننھی کلیوں کی طرح ہی تو ہیں ۔جن سے غربت نے ان کی تازگی چھین لی ہے۔اداس لہو رنگ آنکھیں لئے کوئ اینٹیں ڈھو رہا ہے۔ کوئ گاڑیاں صاف کر رہا ہے تو کوئ فیکٹری میں محنت مزدوری کر رہے ہوتے ہیں۔ننھی آنکھوں میں ڈھیروں چھوٹے چھوٹے سپنے لئے یہ بچے زندگی کی دھول میں کہیں گم ہو جاتے ہیں۔کبھی غور کیا۔۔۔۔۔قرطاس پہ بکھرے رنگوں سے بھی زیادہ گہری تو ان کی آنکھیں ہوتی ہیں۔وقت کی ستم ظریفی تو دیکھئے حساب کتاب کرنے بیٹھا بھی تو کس سے۔۔۔۔جو لفظ حق سے بھی ناآشنا ہیں۔جنھیں سکول جانا تھا۔ کھلونوں اور تتلیوں سے کھیلنا تھا۔۔وہ چند پیسوں کے لئے ننگے پاؤں اور پھٹے پرانے بوسیدہ کپڑوں میں کہیں اپنے سپنوں میں گم سڑکوں پر ہاتھ پھیلائے کھڑے ہوتے ہیں۔سکول جاتے بچوں کو نم آنکھوں اور حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ معصوم آنکھیں بہت سے سوال کرتی ہیں۔کیا ان کے سوال ہمیشہ سوال ہی رہے گے۔کیا زندگی کبھی ان پر مہربان نہیں ہو گی۔کیا یہ ہمیشہ غربت کی دھوپ میں سلگتے رہے گے۔۔؟ان معصوموں کو تو سہی سے بولنا بھی نہیں آتا ۔۔
کیا خواب دیکھنا گناہ ہے۔ہاں اگر ہے تو امیروں کے بچے کیو ں دیکھتے ہیں۔سکول کیوں جاتے ہیں۔کیوں انھیں بن کہے ہر چیر میسر ہے۔خوشیاں ان کے دروازے پر دستک دیتی ہیں۔غموں سے ان کو کوئ سروکار ہی نہیں۔۔کیا یہ انصاف ہے۔کہ ایک طرف تو نجانے کتنے دنوں سے بھوکے پیٹ سوئے بچوں پر کسی کو رحم تک نہیں آتا۔دوسری طرف رزق کی فراوانی ہے۔اس کو پاؤ ں میں روندا جا رہا ہے۔۔ان غریب بچوں سے کام میں ذرا سی کوتاہی کیا ہو جائے ۔انھیں چھڑی سی مارا جاتا ہے۔انھیں بھوکا رکھا جاتا ہے۔یہ میں کسی اور دنیا کی بات نہیں کر رہی۔اپنے ہی معاشرے کا المیہ ہے۔اس کا قصور وار کون ہے۔؟ اس عارضی دنیا میں جو حکمران بن کے بیٹھے ہیں۔انھیں تو یہی دنیا اپنا ابدی ٹھکانہ نظر آتی ہے۔اپنے آپ کو خدا سمجھتے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو ہر برائی کا آغاز انھیں سے ہوتا ہے ۔نجانے کب انھیں خوف خدا آئے گا۔اور یہ اپنے فرائض پوری دیانت داری سے پورے کریں گے۔اور اپنی رعایا کو ان کا حق دیں گے۔عوام سے ڈھیروں جھوٹے وعدے کر کے ان پر حکمرانی کرتے ہیں اور پھر انھیں جو کچھ میسر ہوتا ہے اس سے بھی ان کو محروم کر دیتے ہیں۔باقی سب چھوڑ یں۔ ان کو تو معصوم بچوں پر بھی رحم نہیں آتا جو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ پھیلائے سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔اور یہ انھیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔حضرت عمر رضہ اللہ تعالیٰ کے دور خلافت پر نظر ڈالئے ۔ان کے دور میں کوئ ایک بندہ بھی بھوکے پیٹ نہیں سویا کرتا تھا۔ان کا قول ہے کہ “اگر دریا فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو اس کیلئے بھی میں جوابدہ ہوں” ہمارے حکمرانوں سے تو یہ امید رکھنا بھی بہت بڑی بات ہوگی کہ ان کی وجہ سے کسی ایک گھر کے افراد بھوکے پیٹ نہ سوئیں۔یہاں تو لاکھوں کی تعداد میں پورے پورے گھر بھوکے پیٹ سوتے ہیں۔جن میں معصوم ننھی جانیں بھی شامل ہیں۔اس کا حساب کتاب کسے ہو گا۔جو ایک ایک نوالے کے لئے ترستے ہیں۔یہ ہڈیوں کے ڈھانچے کسی کو نظر نہیں آ تے۔ایک اسلامی مملکت ہونے کے باوجود اس میں اسلامی مملکت کی صفات نظر نہیں آتیں۔وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ۔ہر عمل کا حساب دینا ہوگا۔اپنا بویا کاٹنا بھی پڑتا ہے۔ معصوم بچوں کی آہ تو بہت جلدی لگتی ہے۔ان پر شفقت اور رحم کریں۔بعض سودے گھاٹے کے ہی اچھے لگتے ہیں ۔جن سے آخرت سنور جاتی ہے۔ہر کام فائیدہ کے لئے نہیں کیا جاتا ۔
ننھی کلیاں کمانے لگی ہیں
دیکھو مرجھانے لگی ہیں
ہمارے معاشرے نےبچوں کو محنت مزدوری پر مجبور کیا ہے ۔ان پر یہ بہت بڑا ظلم ہے۔یہ ننھی ننھی کلیاں وقت سے پہلے ہی اپنی تازگی کھو رہی ہیں ۔ان پر رحم کیجئے۔ان کو ان کے حق سے محروم مت کیجئے۔

ختم۔ شد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *