اعتراف

جاوید اختر سچ تو یہ ہے قصور اپنا ہے چاند کو چھونے کی تمنا کی آسماں کو زمین پر مانگا پھول چاہا کہ پتھروں پہ کھلیں کانٹوں میں کی تلاش خوشبو کی آگ سے مانگتے رہے ٹھنڈک خواب جو دیکھا چاہا سچ ہو جائے اس کی ہم کو سزا تو ملنی تھی

ہم لوگ نا تھے ایسے

ہم لوگ نہ تھے ایسےہیں جیسے نظر آتےاے وقت گواہی دےہم لوگ نہ تھے ایسےیہ شہر نہ تھا ایسایہ روگ نہ تھے ایسےدیوار نے تھے رستےزندان نہ تھی بستیآزار نہ تھے رشتےخلجان نہ تھی ہستییوں موت نہ تھی سستی!یہ آج جو صورت ہےحالات نہ تھے ایسےیوں غیر نہ تھے موسمدن رات نہ تھے ایسےتفریق نہ …

محبت ہمسفر میری

کٹھن ہے زندگی کتنی سفر دشوار کتنا ہے کبھی پاؤں نہیں چلتے کبھی رستہ نہیں ملتا ہمارا ساتھ دے پائے کوئی ایسا نہیں ملتا فقط ایسے گزاروں تو یہ روز و شب نہیں کٹتے !مگر پھر بھی میرے مالک مجھے شکوہ نہیں تجھ سے میں جاں پہ کھیل سکتی ہوں میں ہر دکھ جھیل سکتی …

کیوں؟

داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں جون ایلیا