Eid Khushiyan Bantne Ka Naam Hai




Article

Zobia Shahid

عید خوشیاں بانٹنے کا نام ہے

زندگی بےسکون سی ہے، دل میں کوئی خوشی نہیں ہے۔
 اکثر سنی ہونگی آپ نے بھی یہ باتیں اپنے گھروں میں۔ خاص کر گھر کے بڑوں سے۔ کیونکہ ہماری جنریشن تو اپنا دل بہلا ہی لیتی ہے اپنی سہیلی (موبائل فون)سے۔ مگر کیا یاد کریں، آپ کے بچپن میں عیدیں ایسی ہوا کرتی تھیں؟ 
کہاں گئی وہ ساری رونق، وہ ساری خوشیاں؟ 
ہماری آنے والی نسل کیا سیکھے گی، کہ کیا ہے عید؟ 
دن بھر سوتے رہنے کا نام؟ تیار ہونا، تصویریں لینا، اپلوڈ کرنا اور پھر کمنٹس پڑھ پڑھ کر خوش ہونا۔ اور ہوگئی عید۔۔۔ یا پھر بے دلی سے دعوتیں کرنا(رسمی طور پر) یا پھر اپنے پیاروں کو یاد کرکے دن بھر آنسو بہانا(نا خود خوش ہونا، نا اپنے اردگرد لوگوں کو ہونے دینا)۔
میرا جہاں تک خیال ہے، عید تو اللہ نے مسلمانوں کو خوشخبری کے طور پہ عطا کی تھی۔ مگر افسوس اب ہم اس نعمت کا زوال دیکھ رہے ہیں۔۔۔
ہم عید کا اصل مطلب اور اصل مقصد بھول بیٹھے ہیں۔۔۔
کیا پہلے لوگ دنیا سے وصال نہیں پایا کرتے تھے؟ ہم میں سے کتنوں کے دادا، دادی یا نانا نانی شاید ہی ہمارے بچپن میں موجود ہوں۔ لیکن تب تو عید میں خوشیاں ہوا کرتی تھیں۔۔۔
مہمانوں کو  دل سے خوش آمد کیا جاتا تھا۔ عید کی سوغات شیر خرمے سے سب کا منہ میٹھا کروایا جاتا تھا۔ مگر اب؟ گھر آئے مہمان کو بھی مضر صحت کولڈ ڈرنک پلائی، اوکے چلو اللہ حافظ۔۔ 
کہاں گئی وہ عید کارڈ بانٹنے والی خوشی؟ ہم نے یہ بھی بھولا دی۔
عید کے دن مہندی بھی نہیں لگائی؟ اوہ آئی ڈونٹ لائیک(اوکے فائن۔ جس میں آپ کی خوشی)، کام ہی تو کرنا ہے کیا فائدہ مہندی لگا کر(نہیں ایک کام کریں آپ دوبارہ دلہن بن جائیں تاکہ کوئی کام نہ کرنا پڑے)، ٹائم نہیں ملا یار (سیریسلی؟ اپنے لیے ٹائم نہیں ملا؟ تو پھر تو آپ پہ اللہ ہی رحم کرے)
ہمارے کسی قریب کی فوتگی ہوئی ہے نا اچھا نہیں لگتا مہندی لگانا(سہی ہے بھئی۔ آپ کے مہندی لگانے سے اللہ نہ کرے ان پر عذاب نازل ہوجائے گا)۔
عید کا دن کیسے گزرا؟ سوتے رہے (عید تو سونے کے لیے ہی ہوتی ہے نا۔ ٹھیک ہے)، دعوتوں میں گزر گئی(دل سے گئے یا بےدلی سے؟)، ہمارے کسی رشتے دار کا انتقال ہوا تھا نا ان کے گھر بیٹھنے گئے تھے(کاش اتنی اہمیت ان کے زندہ ہونے پہ ہی انھیں دے دی ہوتی۔ کاش ان کے ساتھ عید ہی منا لی ہوتی۔ اب کیا خوشی ملے گی انھیں آپ کے وہاں ہونے سے؟جنت میں رہنے والوں کو دنیا کی رونوقوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔اور عید دنیا والوں کے لیے ہوتی ہے مردوں کے لیے نہیں۔مگرخیر یہ بھی ایک رسم ہے جو ہم نبھا رہے ہیں)۔



دنیا میں اب ہر چیز رسمی طور پر ہورہی۔ دعوتیں، مبارکبادیں، تعزیتیں، تحفے تحائف۔۔۔یہاں تک کہ عید منانا بھی ایک رسم ہوگئی ہے۔
اگر اسی طرح چلتا رہا تو ہر بچے بچے کے منہ سے یہ سننے ملے گا 
Eids are boring.
یہ تہوار ہے پیارے لوگوں، اسے تہوار کی طرح منائیں۔ غم اپنی جگہ ہیں۔ وہ تو زندگی بھر ساتھ رہتے۔ مگر یہ دن اللہ نے ہمیں خوشی منانے کے لیے دیا ہے۔ خوشیاں منائیں، خوشیاں بانٹیں۔ 
غموں کو یاد کرینگے تو غم اور بڑھیں گے۔ 
خوشیاں جتنی مناؤگے، جتنی بانٹوگے اتنی ہی بڑھیں گی۔ زندگی اتنی ہی پرسکون ہوگی۔ 
سوچیں ذرا، آج کل چھوٹے چھوٹے بچے بھی ڈپریشن کا شکار کیوں ہوئے بیٹھے ہیں(ہماری تو خیر ہے) 
نہیں! اس کا ذمہ دار موبائل فون شاید اتنا نہیں جتنا کہ آپ ہیں۔ آپ خوش ہونگے تو بچے ہونا سیکھیں گے نا۔ مگر ہم خوشیاں منانا ہی بھول گئے ہیں۔ بس غموں کو دل سے ایسے لگائے بیٹھے ہیں جیسے یہ دنیا نہیں، جنت ہو(ارے دنیا تو ہے ہی قید خانہ)۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم دکھوں کو خود پر حاوی کرکے خوشی کے دنوں کو اہم نہ جانیں۔ عام دنوں میں نہ سہی کم از کم عید کا دن تو خوشی سے منائیں۔ شیطان کو مات دیں۔ وہ تو چاہتا ہی نہیں کہ ہم اللہ کی نعمتوں کی قدر کریں۔
عید مسلمانوں کے لیے ایک تحفہ ہے۔ اسے خوشی خوشی منائیں! 
اللہ کی نعمت کو بڑھاوا دیں یا پھر شیطانی دغابازیوں کو،
فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے! ❤️




Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *