Urdu Article
Abrar Ahmad
مزاحِ رسولﷺ
خوش طبعی اور مزاح زندہ دلی ہی نہیں بلکہ زندگی کی علامت ہے اور جب کہ یہ ہر قسم کے فحش و عریانیت، بد کلامی و عبث گوئی سے پاک ہو تو انسانی طبیعت کے لیے نشاط و فرحت، لطف اندوزی و تازگی کا سامان ہے۔ اس تازہ دمی سے جہاں انسان خود حیاتِ نو پاتا ہے وہاں مخاطبین اور متعلقین میں بھی بشاشت کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ گنجلک و پیچیدہ کام جو افتادہ طبیعیات کے لیے گراں بار ہو اس کے ساتھ بڑے آسانی سے پورے ہو جاتے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ اس کے ذریعہ انسان افادہ و استفادہ حاصل کر سکتا ہے اور لوگوں سے قریب ہونے نیز ذوق و مجاز کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
اسلام نے اپنے فطری دین کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے انسانی طبیعت و ذوق کا بھی پورا خیال رکھا انبیاء کرام علیہم السلام کی ذاتِ اقدس نے بھی اپنے متعلقین کو استفادے کی غرض سے جگہ جگہ خوش طبعی سے کام لیا سائل کو ہر طرح سے بے تکلف ہونے کا پتہ دیا تاکہ رعب و داب کی وجہ سے کوئی گوشہِ دین پسِ پردہ نہ رہ جائے نیز ان کی دل لگی و دل جوئی بھی باقی نہ رہے۔ جس سے یہ بھی نمایا ہوتا ہے کہ مزاح و خوش طبعی در حقیقت تفریح طبع ہی نہیں بلکہ تہذیب روحانی کا بھی نام ہے۔
آپﷺ کی زندگی کا ہر پہلو صدق و صفا کا پیکر تھا چنانچہ دل لگی میں بھی اولاً اسی کا خیال رکھا گیا۔ ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں ۔قالوا: يا رسولَ اللَّهِ ! إنَّكَ تداعِبُنا ؟ ! قالَ: إنِّي لا أقولُ إلَّا حقًّا۔ الترمذي ۔
ایک صحابیؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ ہم سے خوش طبعی فرماتے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ہاں اس خوش طبعی میں بھی) میں سچی بات کہتا ہوں۔
اس حدیث سے آپﷺ کی راست گوئی کا جہاں پتہ چلتا ہے وہیں آپ کا طریقہ مزاح میں کمال احتیاط اور حدِ اعتدال کا سبق ملتا ہے اسی وجہ سے آپ کےصحابہ کرامؓ آپ سے دریافت کرنے لگے کیونکہ عموماً لوگ اس وقت جھوٹ و افترا کا سہارا لیتے ہیں، جس کی وجہ سے دل آزاری اور
الزام تراشی کا دروازہ کھل سکتا ہے جو کہ مذموم ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا جو بڑوں کا احترام اور بچوں پر شفقت نہ کریں وہ ہم میں سے نہیں ( یعنی ہمارے طریقہ پر نہیں) ہے، چنانچہ آپ نے اس باب میں بھی ایسے نمونے قائم کردیے جیسے نمونے عبادات و عادات میں موجود ہے، اور اس میں شفقت و محبت کا پہلو کے ساتھ حکمت و دانائی کے سبق حاصل ہوتے ہیں، نیز اپنے متعلقین سے دل جوئی کا بہترین طریقہ بھی معلوم ہوتا ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ دس سال تک آپ کی خدمت کرتے رہیں اور آپﷺ موقع بموقع آپ کا اور آپ کے گھرانے کا خیال رکھتے ان کے مکان پر تشریف لے جاتے حضرت انس بن مالکؓ کے ایک کم عمر بھائی تھے، جن کا نام کبشہ بتایا جاتا ہے، دل بہلانے کے لیے ایک پرندہ جو چڑیا نما تھا اپنے پاس رکھے رہتے بڑی انسیت تھی کہ اچانک کسی وجہ سے وہ پرندہ ہلاک ہو گیا آپ ﷺکو اس کی اطلاع ملی دیکھا تو رنجیدہ خاطر ہوکر گم سم بیٹھے ہوئے ہیں، پتہ چلا ان کی دلعزیز چڑیا نہیں رہی آپﷺ نے بڑے ہی پیار بھرے انداز میں مخاطب ہوتے اور فرمایا۔
يا أبا عمير، ما فعل النُّغير؟
او ابو عمیر! نغیر کہاں گیا ؟ یہ کتنا پیارا اور دل خوش کن انداز تھا جس سے ایک بچہ کی دل بستگی کی جارہی تھی، علماء فرماتے ہیں یہ ایک بلبل نما پرندہ تھا۔ یہاں ایک مختصر جملے سے جہاں آپ کی شفقت و مروت کی شانِ عالی کا پتہ چلتا ہے وہیں اس سے ہزاروں گوہر نایاب حاصل ہوئے اور اس بات کا بھی ثبوت ہوا کہ آپ کی دل بستگی کی باتیں بھی حکمت و دانش مندی سے پر ہوا کرتی تھی، چنانچہ محدثین و فقہاء نے اس حدیث سے سیکڑوں مسائل نکالے اور ان ہی میں سے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ شریعت میں مزاح کرنا بھی جائز ہے، ایک روایت میں ہے کہ آپ بیٹھے ہوئے ہیں ایک بوڑھی صحابیہؓ آپ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتی ہے اور سوال کرتی ہے کہ اے اللہ کے رسول آپ میرے لیے جنت کی دعا فرمائیں آپ نے جواباً فرمایا بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائے گی اس عورت نے سنتے ہی رونا شروع کردیا اور وہاں سے جانے لگی آپ نے فوراً بلا بھیجا اور فرمایا تو نے قرآن مجید میں یہ آیت نہیں پڑھیں إِنَّا أَنشَأْنَاهُنَّ إِنشَاءً فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا۔ ہم جنتی عورتوں کو پیدا کریں گے جیسا کہ پیدا کیا جاتا ہے،پس ہم ان کو کنواری بنا دیں گے۔ الواقعہ
چنانچہ پتہ چلا آپﷺ اس بڑھیا سے خوش طبعی کررہے تھے اور ساتھ میں قرآن کی آیت کی طرف رجوع بھی کروارہے تھے اور یہ آپ کی ذات ہی سےممکن تھا کہ اس قدر عمدہ بات بھی ہو اور اس میں مزاح بھی ہو اور ایک بلیغ نکتہ کی طرف نشانہ دہی بھی۔
اسی طرح آپﷺ اپنے صحابہ کرامؓ کی تعریف و توصیف بھی بیان کیا کرتے تھے، ایک روایت میں ہے کہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا یا ذالاذنین! اے دو کانوں والے! یہ آپ کی غایت محبت و الفت کی علامت تھی جبکہ ہر انسان دو کانوں والا ہوا کرتا ہے البتہ آپ اس میں حضرت انسؓ سے مزاح کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنیت و فہم و فراست کی تعریف بھی فرما رہے ہیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک صحابیؓ نے آپ سے سواری کا جانور مانگا آپ ﷺ نے فرمایا میں تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا، ان صحابیؓ نے تعجب و حیرانی سے پوچھا حضور میں بچہ کا کیا کروں گا؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اونٹ کو اونٹنی ہی تو جنتی ہے، یہاں آپ ﷺ نے مزاحیہ طور پر ولد الناقہ یعنی اونٹنی کا بچہ فرمایا جو کہ حقیقت بیانی بھی تھی مگر جب دیکھا کہ سائل پریشان ہو رہا ہے تو آپ نے وضاحت کردی کیونکہ آپ کا ارادہ محض دل لگی اور خوش طبعی کا تھا۔
تیری صورت، تیری سیرت، تیرا نقشہ، تیرا جلوہ
تبسم گفتگو، بندہ نوازی، خندہ پیشانی۔
جس طرح آپ ﷺ اپنے صحابہ کرامؓ سے گاہے گاہے دل بستگی فرماتے تھے، آپ کے اصحاب بھی آپ کی دل لگی کا موقع ملتا تو اپنی ظریفانہ طبیعیات کا مظاہرہ کرتے چنانچہ ایک صحابی حضرت عوف بن مالک اشجعیؓ بیان کرتے ہیں میں غزوہ تبوک کے موقع پر آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اس وقت آپ چمڑے کے خیمہ میں تشریف فرما تھے، میں نے آپ کو سلام کیا آپ نے جواب دیا اور فرمایا اندر آجاؤ ! میں نے (مزاح کے طور پر) عرض کیا یا رسول اللہ! پورا کا پورا اندر آجاؤں! آپ نے فرمایا ہاں پورے کے پورے اندر آجاؤ یہ یہ بات انہوں نے اس لیے بھی کہی تھی کہ خیمہ قدرے چھوٹا تھا اور یہ طریقہ آپ ﷺ کی خوشی بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
ان روایات و احادیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ مزاح ایک جنس ہے جس کی ایک قسم تو ممدوح ہے کہ انسان اپنی زندگی میں غموں اور تکلیفوں کے باوجود اپنے آپ کو کیسے خوش رکھیں اور اپنے متعلقین سے کس طرح گھل مل کر رہے ان کی دل بستگی اور دل لگی کرتا رہے اور اپنے اور اپنوں کے درمیان کے ماحول کو خوش گوار بنانے کی کوشش کرے جس کی نظیر ہم آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں روشن و تابناک ملتی ہے جو ہمارے لئے بہترین اسوہ ہے۔
دوسری قسم وہ ہے جو آج ہر جگہ دیکھی جارہی کہ یاتو لوگ اس قدر ترش رویہ اختیار کرتے ہیں کہ کسی سے دو میٹھے بول گورا نہیں ان کے قریبی بھی کوئی بات بتاتے ہوئے ڈرے سہمے ہوئے معلوم ہوتے ہیں، ان کے طیش سے ہر کوئی پناہ مانگتا ہوا نظر آتا ہے اور اگر ایسا نہیں تو مزاح کو ہر مجلس کی جان بنا دیا جاتا ہے جہاں کہیں کوئی بات ہو لوگ جھوٹ و افترا اور الزام و دشنام طرازی کا ایسا مظاہرہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کو کسی کی عزت و آبرو کا کوئی خیال نہیں دل آزاری و دل شکنی کی کوئ پرواہ نہیں اور بےشمار گناہوں کے ارتکاب کر گزرتے ہیں، ہمیں اگر ایک بہترین معاشرے کی تعمیر کی فکر ہے تو ہمیں ہر ہر قدم پر سیرت النبی کی پیروی کو اپنانا ہوگا تاکہ آپسی رنجشوں کو ختم کر کے خوبصورت اور عمدہ ماحول قائم کر سکے۔
ابرار اکبر سورتی
جامعہ القراءات کفلیتہ سورت گجرات