Urdu Afsana

Shiza Hussain

pehli raat

Pehli Raat By Shiza Hussain

تبصرہ از ڈاکٹر ریاض توحیدی (کشمیر,انڈیا)

اک کرب ہے زندگی اور اس کرب کی کرب انگیز کیفیت شزا حسین کے افسانے “پہلی رات” کی درد انگیز کہانی میں نظر آتی ہے۔یہ کرب انگیز کہانی دارالضعیف ( Old age home)میں شروع ہوکر اسی میں ختم ہوجاتی ہے یعنی زمان ومکان کی بات کریں تو پوری کہانی جیسے ایک مکان(اولڈ ایج ہوم)میں شروع ہوئی اور ایک ہی زمان یعنی ایک ہی رات میں عمر رسیدہ جمیل خان کی کردار نگاری میں کئی زمانوں ‘بچپن’پڑھائی’والد کی موت’ماں کا پیار’بیوی جگنو کی رفاقت اور پھر جدائی کا غم’بیٹے انعام الحسن کی پرورش’اس کا سہارا بن کر اپنی زندگی تیاگ دینا’انعام الحسن کاڈاکٹر بن کر پھر اسے ہی بے سہارا بناکر اولڈ ایج ہوم میں لاوارث کی طرح چھوڑ دینا وغیرہ کا موضوعاتی احاطہ کرتی ہے۔پلاٹ سازی میں فن اور اسلوب کا کمال نظر آتا ہے کہ کئی واقعات کو ایک لڑی کی طرح پلاٹ میں پرویا گیا ہے۔ کہیں پر بھی جھول نظر نہیں آتا ہے بلکہ کردار کے کرب کو اس طرح سے تخلیقی سانچے میں ڈالا گیا ہے کہ پوری کہانی عصری مشاہدے کے باوجود فن و تخیل اور مشاہدے و تجربے کا تخلیقی بیانیہ بن گئی ہے۔ بڑی ہنرمندی اور شگفتہ اسلوب میں کہانی کو کبھی زمانہ حال اور کبھی تصوراتی فلیش بیک سے انجام تک پہنچایا گیا ہے جو کہ اس افسانے کی ایک اہم خوبی قرار دی جاسکتی ہے۔ کہانی کی عصری مطابقت اس امر میں پوشیدہ ہے کہ شفیق والد جمیل احمد اوراورمادیت پرست اولاد انعام الحسن جیسے کرداروں کی کہانیاں اب جگہ جگہ خصوصا شہروں میں ہر روز بنتی جارہی ہے۔ کتنے ہی جمیل احمد جیسے والد اپنی اولاد کی پرورش اور پڑھائی کے لئےاپنا خون پسینہ ایک کردیتے ہیں لیکن جونہی اولاد اچھے عہدے پر فائز ہوجاتے ہیں تو اپنے ہی والد یا والدین کو گھر کا کچرا سمجھ کرگھر سے بے گھر کرکےاولڈ ایج ہوم یا دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ افسانہ قاری کو اپنی گرفت میں جکڑ کر رکھتا ہے اور بغیر کسی واعظ ونصیحت یا احتجاج کے بڑی فن کاری سے درد کا حصہ بناتا ہے۔ جو لوگ افسانے کی فضول قسم کی تعریف یعنی جھوٹی بات کو دوہراتے رہتے ہیں انہیں پہلی رات جیسے افسانے پڑھنے چاہئے جو کڑوی سچائی کو فن کا حصہ بناتے ہیں۔۔۔ افسانہ بے حد پسند آیا۔۔۔


تبصرہ از سر ارشد عبدالحمید
(انڈیا)
کیا خوبصورت اور پر تاثیر افسانہ ہے۔ بظاہر ایک مایوس باپ کی کہانی ہے جو بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کے لیے زندگی کی ہر تکلیف سے استقامت کے ساتھ گزر جاتا ہے لیکن بیٹا جس عہد میں جی رہا ہے اس میں کسی اور کی گنجائش کہاں ؟ بیٹے کے لیے وہ ایک چھوٹا سا فیصلہ تھا لیکن باپ کی تو پوری زندگی لٹ چکی تھی اور اب وہ نہ جذباتی طور پر زندہ تھا نہ جسمانی سطح پر۔
یہ ایک چھوٹی سی کہانی ہے ۔ ۔ ہم نے کئی بار پڑھی , سنی اور دیکھی بھی ہے ۔ ۔ ۔ لیکن جب یہی کہانی شزا حسین سناتی ہیں تو لگتا ہے ہم پہلی بار اس تجربے سے دو چار ہو رہے ہیں۔ کہانی اور افسانے کا یہی فرق ہے جو کسی فکشن نگار کو بڑا فنکار بناتا ہے۔ مجھی یقین نہیں آتا کہ بطور فکشن نگار یہ شزا حسین کے سفر کا آغاز ہے۔ اس بے یقینی کی متعدد وجوہ ہیں۔ ایک تو پامال کو باکمال بنا دینا بجائے خود بڑی خوبی کی بات ہے۔ دوسرے باپ کے جذباتی المیے اور تنہائی کا بیان ایک تو محض مترشح کر دینا ۔ ۔ ۔ یہ بھی خوبی کی بات ہے ۔ ۔ ۔ کمال یہ ہے کہ جمیل احمد کا کرب , قاری کا کرب بن گیا ہے۔ اس سے زیادہ فن کی معراج اور کیا ہو سکتی ہے؟
اصل میں شزا حسین کا یہ افسانہ فن اور تکنیک کے جملہ عناصر کے احسن پہلؤوں کو یکجا کر دینے کی بہترین مثال ہے۔ اس مثال میں نمایاں ترین وصف کہانی سنانے کا انداز ہے۔ اس خوبی کے ساتھ کہانی سنائی گئی ہے کہ ایک جانب جملوں کی تخلیقی ساخت نے سماں باندھا ہے تو دوسری جانب واقعات کا انتخاب narration کی جگہ creation کے طور پر کیا گیا ہے۔ story telling میں اس قدر انہماک اور ارتکاز ہے کہ کہانی بال برابر بھی ادھر سے ادھر نہیں ہوتی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کہانی میں انعام الحسن کا رویہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے لیکن انعام الحسن کا ذکر مشکل سے دو بار ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ایک اس کے بچپن میں جب وہ باپ سے پوچھتا ہے کہ سہارا کسے کہتے ہیں ؟ ۔ ۔ ۔ اور دوسری بار جب کوئی اپنے معاون سے کہتا ہے کہ بیٹے کو فون کرو ۔ ۔ ۔ اس کا باپ زندگی کی بازی ہار چکا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
کوئی دوسرا افسانہ نگار ہوتا تو بیٹے کے رویے پر ایک دفتر لکھ جاتا ۔ ۔ ۔ کہ باپ بیٹے کے confrontation کی پوری پوری گنجائش کہانی کے ڈھانچے میں موجود تھی ۔ ۔ ۔ لیکن شزا حسین کی چشمِ قلم تو مچھلی کے وجود پر مرتکز تھی ۔ ۔ ۔ ادھر ادھر کی ہانکنا اس ارجن کا شیوہ ہی نہ تھا ۔ ۔ ۔ لہٰذا افسانہ پوری طرح جمیل احمد کے المیے پر مرتکز رہا اور یہ طریقہ تیر بہ ہدف ثابت ہوا۔
کہانی کی تکنیک فلیش بیک کی ہے لیکن یہ فلیش بیک محض بیانیہ نہیں ہے ۔ ۔ ۔ یہ تخلیقی عوامل کے ساتھ اس طرح وارد ہوتا ہے کہ فلیش بیک کی ٹمٹماہٹ کبھی جگنو سے واضح ہوتی ہے , کبھی ستارا اور کبھی چاند سے ۔ ۔ ۔ ۔ قدم قدم پر احساس کی تجسیم کر دینا اس تکنیک کی بڑی خوبی ہے اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ذکر تمام تر جمیل احمد کی محرومی اور تنہائی کا ہے لیکن بیانیہ اس قدر پر ہجوم ہے کہ میر تقی میر کا دیوان یاد آ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ محرومی اور تنہائی کے اس بیان میں واقعات کو جذباتی وقوعوں میں بدلنے کا اسلوب کمال کی تاثیر کا حامل ہے۔ یہاں تک کہ افسانے کا اختتام ہوتا ہے تو یہ فلیش بیک کی تکنیک تجرید میں بدل جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ” جمیل احمد نے چلتے چلتے پپیچھے مڑ کر دیکھا۔ ۔ ۔ پلنگ پر بے حس و حرکت اس کا بے قیمت وجود پڑا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ “
اب ان تمام امور کو دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ یہ کسی کی افسانہ نگاری کا آغاز ہے۔
اردو دنیا کو ایک با کمال تخلیقی افسانہ نگار کی آمد بہت بہت مبارک۔


Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *