Rang-e-Zindagi

Afsana

Nabila Khan

رات کی تاریکی نے سارے ماحول کو پر اسرار بنا رکھا تھا. درختوں کے جھنڈ میں سرسراہٹ محسوس کرتے ہوئے بڑے بڑے کانپنے لگتے تھے ۔ وہ تو پھر ایک تیرہ سالہ بچہ تھا جو اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اپنی گدھا گاڑی کو سرپٹ دوڑائے جا رہا تھا۔ یہ نہیں تھا کہ اسے ڈر نہیں لگتا تھا۔ بلکہ اس کی سانسیں اس کے سینے میں تب تک اٹکی رہتی تھیں جب تک وہ منڈی سے گھر نہیں پہنچ جاتا تھا۔ چک 77 سے منڈی تک کا فاصلہ بیس منٹ کی مسافت کا تھا۔گرچہ منڈی چار پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھی مگر کچے اور ٹوٹے پھوٹے راستے پہ سفر کرنا بےحد صبر أزما کام تھا۔۔ منڈی تک جانے کے لیے گاؤں کے لوگ اکثر وبیشتر جنگل والے راستے کو ہی استعمال کرتے تھے کیونکہ انہیں لگتا تھا جنگل والا راستہ سڑک والے راستے سے کچھ کم پڑتا تھا اس لیے ان کی آمد و رفت اسی راستے سے ہوتی تھی۔۔۔ اس وقت رات کے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ اکتوبر کی سولہ تاریخ تھی ربیع الاول کا چاند ابھی اپنے مکمل ہونے کے سفر پہ گامزن تھا۔ ہلکی ہلکی چاندنی نے ماحول کو عجیب فسوں بخشا ہوا تھا ۔مگر یہ فسوں ‘”محمد محسن ” کے لیے سحر انگیز ہونے کی بجائے ڈر کا باعث بن رہا تھا۔مگر قرآنی آیات کا ورد کرتے ہوئے اس نے گدھے کی پیٹھ پہ چابک مارتے ہوئے مزید تیز دوڑنے پہ مجبور کیا ۔بے زبان جانور یہ وار نہ سہتے ہوئے زور سے ہنہناتے ہوئے سر پٹ دوڑنے لگا۔۔۔۔۔۔۔

اری او لڑکیوں جلدی جلدی اپنے ہاتھ چلاو تاکہ وقت پہ پہنچنے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔شاباش مجھے آج تمہاری لٹکی ہوئی صورتیں نہیں دیکھنی ۔ نگوڑ ماریوں کچھ کام دھندے پہ ٹھیک سے دھیان دو تو دو وقت کی روٹی کا آسرا بھی ملے۔ ریشماں بائی نے اپنے گروہ کے سارے لوگوں کو ایک ساتھ ہی پکارتے ہوئے جلدی کی تلقین کی ۔۔ اور ہاں نیلم تم میری بات غور سے سنو ! بڑے دنوں بعد کوئی اچھی اسامی ملی ہے۔ اسے ہاتھ سے جانے مت دینا۔ جتنا ہو سکے اسے خوش کرنا تاکہ جواباً وہ تم پہ نوٹوں کی بارش کرنے سے دریغ نہ کرے ۔ کیا سمجھی؟ ریشماں کی بات کے جواب میں نیلم نے ایک ادا سے اپنے خوبصورت سنہری بالوں کو اک ادا سے جھٹکتے ہوئے اسے یوں دیکھا جیسے کہ یہ اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہی رہا ہو۔ بائی جی ! تو جانتی ہے مجھے کہ میں کیسے لوگوں کو رجھانے کا فن جانتی ہوں ۔ تمہیں چنتا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج کی رات نوٹوں کی بارش ہوگی ، اور اس بارش میں ہم سب ہی بھیگیں گے۔ وہ دن دور نہیں جب ہمارے دلدر دور ہوں گے ۔۔۔ ہائے میری راج دلاری ! تیرے منہ میں گھی شکر ،نیلم کی بات نے “ریشماں” کی آنکھوں کی چمک میں کئی گنا اضافہ کر دیا اور اس نے اپنی ساری پلٹن کو جلدی جلدی ہاتھ چلانے کا حکم دیتے ہوئے باہر کی راہ لی۔۔۔
محمد محسن کے انتظار میں اماں کی آنکھیں دروازے پہ ہی ٹکی رہتی تھیں ۔ وہ سراپا دعا بن کر اپنے معصوم بچے کی سلامتی اور خیر سے گھر واپس آنے تک جلے پیر کی بلی بنی رہتی تھی ۔ جب تک وہ گھر نہ پہنچ جاتا تب تک ماں کی سانسیں اٹکی رہتی تھیں۔ اس وقت بھی وہ اپنے بوسیدہ گھر کے بوسیدہ بستر پہ لیٹی وقت کی سبک رفتاری کا اندازہ لگانے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی کہ دفعتاً لکڑی کے تختے اکھڑے دروازے پہ مخصوص دستک ہوئی اور ساتھ میں گدھے کو پچکارتے قابو کرنے کی آواز بھی سنائی دی ۔اماں نے ایک جھٹکے سے اپنی چارپائی سے اپنے نقاہت زدہ جسم کو اٹھایا اور جلدی سے دروازے کا کواڑ وا کر دیا ۔ اگلے ہی لمحے محمد محسن گھر کے اندر موجود تھا۔ اس نے ماں کو سلام کیا اور گدھا گاڑی کو صحن کے ایک طرف بنے کھولے میں باندھ دیا۔ ماں صدقے جاوے پتر! تو اتنی رات گئے گھر سے باہر نہ رہا کر ، میری جان تجھ میں ہی اٹکی رہتی ہے ۔ اماں (جس کا نام زرینہ بی بی تھا ) نے محسن کو گلے لگاتے ہوئے کہا ۔اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی نمی اور چمک دونوں ہی بچے سے چھپی نہ رہ سکی۔ اماں ! تو تو جانتی ہے گھر میں ابا کے بعد ساری ذمہ داری مجھ پہ ہے۔ اور ابا اکیلا اتنا کام کاج نہیں کر سکتا ہے ۔اس کے دونوں گردے خراب ہیں۔ اس کی دوائی کے پیسے ہی مشکل سے نکلتے ہیں۔ اوپر سے ہم چار بہن بھائی کھانے والے ۔ میرے علاؤہ سب ہی چھوٹے چھوٹے ہیں۔اگر میں ٹھیکیدار کے ساتھ کام نہیں کروں گا تو گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟یہ باتیں اماں تقریباً روز ہی کرتی تھی اس سے، اور وہ تقریباً روز ہی یہی سب دہراتا تھا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ ٹھیکیدار اس کی عمر سے زیادہ مشقت لینے کے باوجود اسے بہت کم دیہاڑی دیتا تھا جس سے بمشکل اس کے گھر کی دال روٹی چلتی تھی۔ مگر اس کی مجبوری یہ تھی کہ اسے منڈی سے سبزیاں ڈھونے کے علاؤہ کوئی دوسرا کام کرنا آتا بھی نہیں تھا۔ یہ بھی پچھلے دوسال سے جبکہ وہ گیارہ سال کا تھا تو ابا کی اچانک بگڑی حالت کے وجہ سے ٹھیکیدار نے اس پہ ترس کھاتے ہوئے اپنے ساتھ رکھ لیا ورنہ وہ تو تگڑے مردوں کو ہی کام پہ لگاتا۔
******


Feeling rustling in the bunch of trees, they used to tremble. He was a thirteen-year-old boy who was galloping his donkey cart in the pitch black. It wasn’t that he wasn’t afraid. Rather, his breath was stuck in his chest until he reached home from the market. The distance from Chak 77 to the market was twenty minutes. Although the market was located at a distance of four to five kilometers, but traveling on the rough and broken road was a very patient task. To go to the market, the people of the village often used the forest road because they felt that the forest road was a little shorter than the road road, so they used to travel through this road. At that time it was eleven o’clock at night. It was the sixteenth of October and the moon of Rabi’ul Awwal was on its way to completion. The light moonlight had given the atmosphere a strange feeling. But this For “Muhammad Mohsin”, instead of being fascinating, he was causing fear. But while reciting Quranic verses, he whipped the donkey’s back and forced it to run faster. Speechless animals could not bear this blow. He started running headlong, laughing loudly. Hey girls, move your hands quickly so that there is no problem in arriving on time. Well done, I don’t want to see your hanging faces today. If you pay attention to some tasks properly, you will get the support of bread for two times a day. Reshma Bai called all the people of her group together and urged them to hurry. And yes Neelam, listen to me carefully! After a long time, I got a good job. Don’t let it get out of hand. Make him happy as much as possible so that he doesn’t hesitate to shower you with notes in return. What do you understand? In response to Reshmaan’s words, Neelam flicked her beautiful golden hair with one stroke and looked at her as if it was the plaything of her left hand. Bye! So you know how I know the art of persuading people. You don’t have to choose. It will rain notes tonight, and we will all be drenched in that rain. The day is not far when our hearts will be away. Oh, my kingdom! Sugar in your mouth. The brightness of his eyes increased many times and he took the way out ordering his entire platoon to move quickly. Amma’s eyes were fixed on the door while waiting for Mohammad Mohsin. She remained a burnt-toe cat until she returned home with the safety and well-being of her innocent child. By the time he reached home, his mother was holding her breath. Even at that time, she was lying on the rotten bed of her dilapidated house, trying to estimate the speed of time, and suddenly there was a distinct knock on the wooden door and the sound of the donkey braying was also heard. Aman suddenly lifted his convalescent body from his cot and quickly closed the door. The next moment Muhammad Mohsin was inside the house. He saluted his mother and tied the donkey cart to the opening on one side of the courtyard. Mother Sadke Jave Patr! So by not letting me out of the house so late at night, my life is stuck in you. Amma (whose name was Zarina Bibi) said while hugging Mohsin. Both the moisture and brightness of tears in her eyes could not be hidden from the child. Mom! So you know that after father in the house, all the responsibility is on me. And father alone cannot do so much work. Both his kidneys are damaged. The money for his medicine is hard to come by. From above, we are four siblings. All my additions are small. If I don’t work with the contractor, how will the house burn? These things Amma used to say to him almost every day, and he used to repeat them almost every day. But the problem was that the contractor, despite taking more labor than his age, gave him very little daily wages, which barely supported his household. But his constraint was that he did not know how to do any other work apart from washing vegetables from the market. For the past two years, when he was eleven years old, due to the sudden deterioration of his father’s condition, the contractor took pity on him and kept him with him otherwise he would have kept stronger men.

*******

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *