Complete Article
Hasnat Mahmood
Article : Masjide Aqsa ki Tarikh
Writer: Hasnat Mahmood
Instagram: @hasnatmahmood24
status: complete
از قلم حسنات محمود (گل حسنہ)
اٹک کامرہ
آرٹیکل
“مسجد اقصیٰ کی تاریخ”
ایک قدیم اور مقدس عمارت کی جو صدیوں سے مختلف قوموں کا قبلہ اول چلی آ رہی ہے جس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔یہ عمارت مسجد اقصیٰ اور حرم شریف بھی کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کو یعنی سرمئی گنبد والی مسجد بھی کہا جاتا ہے ۔
مسجد اقصیٰ خانہ کعبہ کے بعد روئے زمین پر دوسری قدیم ترین مسجد ہے۔ دنیا کی سب سے پہلی مسجد خانہ کعبہ ہے جو روح زمین پر حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کی تھی۔
سورہ آل عمران کی آیت نمبر 96میں ارشاد ہے۔
“بےشک پہلا گھر جو انسانوں کے لیے عبادت کی غرض سے تعمیر کیا گیا وہ وہی ہے جو مکہ میں ہے”۔
مسجد اقصیٰ کو حضرت آدم علیہ السلام نے کعبے کی تعمیر کے 40 سال بعد تعمیر فرمایا۔ اس کی مسافت خانہ کعبہ سے 1234کلومیٹر ہے۔
بعض مورخین کا یہ بھی خیال ہے کہ مسجد اقصیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے تک مسلسل آباد رہی اور جب حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں طوفان آیا تو اس کی وجہ سے مسجد اقصیٰ مکمل طور پر منہدم ہو گئی اور صرف چار دیواری ہی باقی رہی۔
جہاں تک اس شہر یعنی فلسطین کا تعلق ہے تو حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد سے تین ہزار سال پہلے اس شہر کو کنہان کے لوگوں نے آباد کیا اور یہاں آ کر رہنے لگے تھے اور اس شہر کا نام فلسطین بھی کنہان کے لوگوں سے شروع ہوا اور یہی وہ لوگ ہیں جو صدیوں سے فلسطین میں رہتے آ رہے ہیں۔
بعض مورخین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ انہی لوگوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آنے سے پہلے مسجد اقصیٰ کی تعمیر نو کی تھی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ خانہ کعبہ اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی تھی۔
حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد بعد میں یہودی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد آگے جا کر مسلمان کہلائے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں جو کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے تھے۔حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کی اولاد مصر آ کر آباد ہوئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے چند سالوں بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مصر بھیجا جس کا مقصد حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کی اولاد کو بچانے اور بنی اسرائیل کی ہدایت تھا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ فلسطین کا سفر کیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے دور میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر کو دوبارہ شروع کروایا گیا جو کہ کھنڈرات کی صورت اختیار کر چکی تھی۔ تعمیر مسجد کا کام حضرت داؤد علیہ السلام کی زندگی میں مکمل نہ ہو سکا جو کہ بعد میں ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے مکمل کیا۔
قبل مسیح (587) میں عراق کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم پر حملہ کیا اور مسجد اقصیٰ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جس کے بعد مسجد کی دوبارہ تعمیر کی گئی۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے تک مسجد اقصیٰ کی صرف چار دیواری ہی باقی رہ گئی تھی۔ اس کے علاوہ مکمل مسجد منہدم ہو گئی تھی۔ اور بنی اسرائیل کے لیے یہ وقت بہت سخت تھا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور تمام مسلمان جب تک مکہ میں تھے مسجد اقصیٰ کی طرف ہی منہ کر کے نماز پڑھتے تھے اور یہ مدت بارہ سالوں پر محیط ہے اور جب مدینہ ہجرت کی تب بھی ایک سال پانچ ماہ تک مسلمان
مسجد اقصیٰ کی طرف ہی منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم جاری ہوا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وفات کے بعد مسلمان مختلف ممالک کو فتح کرتے ہوئے یروشلم تک پہنچے جہاں عیسائیوں کی حکومت تھی جن کے ساتھ حضرت عمر رضہ معاہدہ کر کے یروشلم کو اسلامی حکومت میں لے آئے ۔
اس معاہدے کی تکمیل کے بعد اہل قدس نے شہر کے دروازے کھول دیے اور حضرت عمر رضہ عنہ نے بیت المقدس کا قصد کیا۔حضرت عمر رضہ کے دور میں بھی مسجد کی تعمیر ہوئی اور یہ مسجد اقصیٰ وہی مسجد ہے جس میں اذان کے لیے حضرت بلال رضہ کو حکم دیا گیا تھا۔
عبدالملک بن مروان نے اپنے دور میں حضرت عمر رضہ کی بنائی ہوئی مسجد کے اوپر ہی ایک بڑی مسجد تعمیر کروائی جس کی وجہ سے حضرت عمر رضہ کی بنائی ہوئی مسجد مکمل طور پر اس مسجد کے اندر آگئی۔ ابھی بھی یہی تعمیر قائم ہے۔
بعد میں مختلف اسلامی بادشاہوں نے اس کی تعمیر کا کام جاری رکھا۔
عیسائیوں کی فوج جنہیں صلیبی افواج کہا جاتا ہے انہوں نے یروشلم پر حملہ کیا اور پانچ ہفتوں کی مسلسل جنگ کے بعد یروشلم پر قابض ہو گئے۔
اس دوران انہوں نے کافی خون خرابہ کیا اور70 ہزار مسلمان عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا۔ مسلمان ہمیشہ اسی کوشش میں لگے رہے کہ کس طرح یروشلم کو صلیبیوں کے جابرانہ تسلط سے آزاد کروایا جائے اور پھر سے اپنی تحویل میں دوبارہ واپس لایا جائے اسی فکر کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمان بادشاہ نور الدین رحمت اللہ علیہ نے مسجد اقصیٰ کے لیے ایک منبر بھی بنوایا تھا تاکہ یروشلم کی آزادی کے موقع پر اسے مسجد اقصیٰ میں نصب کیا جائے لیکن نور الدین بادشاہ اپنے اس نیک ارادے کی تکمیل سے پہلے ہی وفات پا گئے۔ ان کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی مسلمانوں کے بادشاہ ہوئے اور صلیبی افواج کے خلاف مسلمانوں کی قیادت سنبھالی ۔1187عیسویں میں صلیبی افواج کو شکست دی اور یروشلم کو ایک بار پھر آزاد کروا لیا گیا اور پھر وہ خوبصورت منبر بھی مسجد اقصیٰ میں نصب کروایا۔ بدقسمتی سے 1969 عیسوی میں یہ منبر ایک یہودی کے ہاتھوں نظرآتش ہو گیا۔ سلطان نے اس یہودی کو سخت سزا سنائی۔
سلطان نے اپنے دور میں مسجد کی تبدیلیوں کو ختم کیا اور مسجد اقصی اپنی اصل حالت میں واپس لائی گئی۔ ایک ہفتے تک مسجد کو پانی اور عرق غلاب سے غسل دیا گیا۔
یہودی ہمیشہ اسی کوشش میں رہے کہ اس کو گرجا گھر میں تبدیل کر دیا جائے اور ان کی یہ کوشش آج تک جاری ہے۔
سلطان کی وفات کے بعد 1918 میں سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ جبکہ برطانوی حکومت نے یروشلم کو اسلامی حکومت سے چھین کر اپنے قبضے میں لے لیا اور مکمل فلسطین کو اپنے زیر قبضہ لینا شروع کر دیا۔
برطانوی قبضے کے بعد یہودی دنیا بھر سے یروشلم میں آ کر رہائش پذیر ہونا شروع ہو گئے۔ کیونکہ دنیا بھر میں انہیں ظلم و اذیت کا سامنا تھا۔ یہاں انہوں نے اپنے لیے جگہ خریدنا شروع کر دی۔ جبکہ فلسطین کے مسلمان جن کا اس سرزمین سے بڑا گہرا اور پرانا تعلق تھا۔ انہوں نے اپنی سرزمین کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
یہاں سے ایک بار پھر جنگ کا آغاز ہو گیا۔ یہودیوں کی فوج مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ اور طاقتور تھی۔ اس لیے فلسطین کی زیادہ تر زمین پر یہودیوں نے قبضہ کر لیا ۔1948 میں یہودیوں نے آزاد اسرائیلی ریاست کا اعلان کر دیا۔ 1967 میں مزید لڑائیاں شروع ہوئیں اور یہودیوں نے ایک بار پھر مسجد اقصیٰ پر قبضہ کر لیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ مسجد پر صرف انہی کا حق ہے اس کے لیے وہ چاہتے تھے کہ مسجد کو منہدم کر کے وہاں پر اپنا عبادت خانہ یعنی ہیکل سلیمانی تعمیر کریں۔ ان کا ماننا یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہاں سب سے پہلے یہودی عبادت خانہ تعمیر کیا تھا۔ اس لیے حقدار صرف یہودی ہیں۔
موجودہ عہد میں یہ اپنی عبادت دیوار براق کے پاس کھڑے ہو کر کرتے ہیں۔
ان کی یہ بات غلط ہے کیونکہ یہ مسجد اقصیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے دور سے ہی موجود ہے۔ جو کہ حضرت آدم علیہ السلام نے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تعمیر کی تھی۔ جبکہ یہودی قوم کا آغاز حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے ہوتا ہے۔
یہ تاریخی لحاظ سے بھی غلط ہے کیونکہ فلسطین پر عربوں کا حق ثابت کرنے کے لیے درج ذیل نکات تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ نکات بہترین حکمران اسلام سعودی عرب کے فرمان رواں شاہ فیصل مرحوم نے ایک بین الاقوامی سیمینار میں بیان کیے تھے۔
کہ یہودی فلسطین کی اصل باشندے نہیں ہیں۔ یہ باہر سے آ کر یروشلم پر قابض ہوئے تھے۔ فلسطین میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے سے لے کر ابھی تک کبھی خالص یہودی حکومت قائم نہیں ہوئی اور نہ ہی حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہودی عبارت خانہ یروشلم میں تعمیر کروایا تھا۔بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور آپ کے والد حضرت داؤد علیہ السلام نے مل کر مسجد اقصیٰ کی تعمیر کی تھی۔ جو آدم علیہ السلام کے دور میں وہاں تعمیر ہو چکی تھی جس کو بعد میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی بنیادوں پر تعمیر کیا تھا۔
اس مسجد کو پانچ سے چھ دفعہ منہدم کیا گیا۔ لیکن اس مسجد کی جتنی دفعہ بھی تعمیر ہوئی پرانی بنیادوں پر ہوئی۔
آج فلسطین میں سینکڑوں تاریخی عمارات موجود ہیں جو عرب کی طرز تعمیر کا مکمل نمونہ ہیں۔
تاریخ لحاظ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ سر زمین فلسطین پرصرف اور صرف مسلمانوں کا حق ہے آج بھی مسلمانوں اور یہودیوں یعنی اسرائیل کے درمیان جنگ جاری ہے۔ یہودی یروشلم کو اپنا دارالحکومت مانتے ہیں اور مسجد اقصیٰ کا صرف پر صرف اپنا حق تسلیم کرتے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کے لیے یہ جگہ مکہ اور مدینہ کے بعد مقدس جگہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلمان آج بھی اس جگہ کو آزاد کروانے کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر رہے ہیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک یہودیوں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹا نہ دیا جائے اور انبیاء کی سرزمین کو مسلمان فتح نہ کر لیں۔اور انشاء اللّہ یہ وقت زیادہ دور نہیں ۔انشاءاللہ