Complete Novelette
Iqra Nasir
Novelette : Mai Ne Dekha
Writer: Iqra Nasir
Instagram: @iqra_nasir_official
Genre: This novel is based on the story of palestini women and tragedy ending.
status: complete
Description: یہ فرضی کہانی فلسطین پر جاری اسرائیل کی جارحیت پر لکھی ہوئی ہے۔ اس کہانی میں آپ ایک فلسطینی عورت کو اپنا زندگی کا حال سناتے دیکھیں گے
آرٹیکل
“میں نے دیکھا”
میں نے دیکھا کہ ہر طرف تباہی ہی تباہی پھیلی ہوئی تھی۔ ایک طویل سناٹا تھا جو سب کو جھنجھوڑ رہا تھا۔
غزہ کی پٹی میں میں موجود ہوں۔ اس غزہ کی پٹی میں جسے پردیسی ” دنیا کی کھلی جیل” قرار دیتے ہیں۔ آج کی تاریخ مجھے معلوم نہیں ہے۔ مجھے تو یہ تک یاد نہیں ہے کہ کتنے دن گزر گئے ہے دس اکتوبر کو گزرے۔
اس دس اکتوبر کو جہاں میرا کنبہ مجھ سے ایک بار پھر بچھڑا تھا۔ اس دس اکتوبر کو جب میں اس ظالم دنیا میں تنہا رہ گئی تھی۔ اس دا اکتوبر کو جب میں نے اپنے شہید دو سالہ بیٹے کی اور اپنے شہید شوہر کے جسم گھر کے ملبے سے نکلتے ہوئے دیکھے تھے۔
اس دن سورج اپنی تمام تر روشنی پھیلائے ہوئے بھی کچھ اندھیر سا تھا یا شاید مجھے لگا۔ میں کچھ کھانا لینے کے لیے گھر سے باہر نکلی تھی تاکہ اپنے بیمار شوہر اور بیٹے کا پیٹ بھر سکو۔ میں سامان کی غرض خریدنے بہت دور نکل آئی تھی کہ میں نے دھماکہ سنا، زور دار دھماکہ۔ میں آگے بڑھ نہ سکی۔ زمین بھی لرز رہی تھی اپنے اوپر بستے باشندوں کو مرتا دیکھ کر، ان کو سسکتا دیکھ کر، اپنوں کو اپنوں کے لیے روتا دیکھ کر۔ کون کہتا ہے زمین بے حس ہے۔ زمین ہر اس وقت لرزتی ہے جب اس کے اوپر ظلم ڈھایا جائے۔
میں کچھ پل کے لیے سوچ نہ پائی کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ میں ایک سوال کی طرح کھڑی رہی۔ ہر طرف آگ اور دھوئیں کا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ جب دھماکوں کی آواز آنا تھم گئی تو میرے حواس بحال ہوئے۔ حواس بحال ہونے کے فوراً بعد میری آنکھوں کے سامنے جو چہرہ لہرایا وہ میرے بیٹے کا تھا۔
میں پیچھے کی طرف مڑی اور بھاگتی چلی گئی۔ مجھے راستے اچھے سے معلوم تھے۔ میں جانتی تھی کہ میرے گھر کا راستہ یہی ہے مگر آس پاس پھیلی تباہی کو دیکھ کر میرے دل سے یہ ایک دعا نکلی کاش میں راستہ بھولی ہوئی ہوں۔ کاش یہ راستہ میرے گھر کی طرف نہ جاتا ہو۔ کاش یہ تباہی میرے آشیانے کو نقصان نہ پہنچا پائی یو۔
بھاگتے بھاگتے میرے قدم رک گئے اور ایک گھر کے ملبے کے سامنے ٹہر گئے۔ وہ جگہ، وہ جگہ، وہ وہی جگہ تھی جہاں میرا گھر ہوا کرتا تھا مگر اب وہاں اینٹوں اور پتھروں کاایک ڈھیر پڑا ہوا تھا۔ جیسے میں ایک ملبہ تھی اپنی ڈھا جانے والی محبت اور رشتوں کا مجھے چند پل کے لیے اپنا دماغ گھومتا محسوس ہوا۔
میں اس بات سے انکاری ہوگئی اس جگہ میرا گھر ہے۔ یہاں میرا گھر کیسے قائم ہو سکتا ہے۔ یہ تو کسی اور کا گھر ہوگا۔ میں اس جگہ سے چند قدم دور ہوئی اور اپنا گھر تلاش کرنے کی نیت سے دوسری جانب مڑنے لگی۔ اچانک مجھے ایک بچے کی سسکیوں کی آواز آئی۔
ان سسکیوں نے میرے دل اور قدموں دونوں میں زنجیر ڈال دی۔ میں جانتی تھی کہ یہ آوازیں کس کی تھی۔ یہ آوازیں میرے جسم کے ٹکڑے کی تھی۔ اب کوئی شک نہیں رہا تھا کہ یہی میرا تباہ حال گھر تھا۔
میں نے اپنے آپ کو اسی وقت اس ملبے کی جانب جاتا دیکھا۔ آس پاس کچھ اور لوگ بھی جمع ہوگئے تھے۔ انہوں نے نیلے رنگ کے سوٹس پر نیون کلر کی جیکٹ نما چیز پہنی ہوئی تھی۔ سسکیوں کی آواز ایک کونے سے آ رہی تھی۔ میں دیوانہ وار ملبہ دھکیلنے لگ گئی۔ میرے ہاتھوں پر بہت سے زخم بھی لگ رہے تھے مگر اس وقت مجھے کوئی ہوش نہیں تھا۔
وہ رونے کی آواز میرے دل کو ترپا رہی تھی۔ میرے آس پاس بہت سے مرد بھی میری مدد کے لیے پہنچ گئے تھے۔ ان لوگوں کی بدولت ملبہ میری جان پر سے اٹھ گیا اور میرا بچہ مجھے دکھائی دے دیا۔ میرا بچہ، میرا موسیٰ!
موسٰی کے نیلے رنگ کپڑے خون سے لت پت ہوئے ہوئے تھے۔ ایسا لگتا تھا وہ لال رنگ کا ہی لباس پہنے کوئے تھا اب وہ رو نہیں رہا تھا بلکہ سانسیں بھر رہا تھا۔ اپنی زندگی کی آخری سانسیں!
رفتہ رفتہ اسے سانس لینے میں دشواری ہوئی اور اس نے میری گود میں ہی دم توڑ دیا۔ موسیٰ کو ملبے میں سے نکلے ابھی بمشکل تین منٹ ہی گزرے ہونگے مگر میرے لیے یہ تین منٹ تین صدیوں کی طرح بیتے تھے۔ میرا بچہ مجھے رو رو کر اپنے پاس آنے کے لیے بلاتا رہا۔ اسے امید تھی کہ اس کی ماں اس کو روتا سن کر ضرور آئے گی اور اس کی ماں آ بھی گئی تھی پر افسوس وقت نے ان دونوں کو مزید مہلت نہیں دی۔
ایک وقت تھا کہ ایک موسیٰ نے ایک قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے شر سے بچایا تھا اور اب یہ وقت آن پہنچا تھا کہ ایک ملک اسرائیل ہزاروں معصوم موسیٰ کو شہادت کے اعزاز سے مشرف کر رہا تھا۔
اب میرے ادرگرد موجود لوگ گھر کے ملبے سے میرے شوہر کی لاش بھی نکال رہے تھے۔ میرا ذہن بلکل ماؤف تھا۔ میں بے حس و حرکت اپنی جان کو گود میں لیے بیٹھی سب کچھ دیکھ رہی۔ میرا گھر ٹوٹ گیا تھا۔ میری زندگی سے میرا خاندان ایک دفعہ پھر چھین لیا گیا تھا۔
********************************
میں نے دیکھا کہ نل میں سے کچھ بوندوں کو کوئی اپنی ہتھیلیوں میں بھر کر پی رہا تھا اور کسی کو پلا رہا تھا۔
میرے شوہر اور موسیٰ کی شہادت کو شاید کچھ دن ہی گزرے ہونگے جب میں نے یہ منظر دیکھا۔ میں نے ایک امدادی کیمپ میں پناہ لی ہوئی تھی۔ کچھ دیر کے لیے میں روزانہ باہر نکلتی تھی۔ اس تلاش میں کہ شاید اس سر زمین میں ابھی بھی کوئی ایسا ہو جس سے میرا خون کا رشتہ ہو۔
اجڑی ہوئی بستی کو دیکھتے دیکھتے میری نظر دو بچیوں پر پڑی۔ دونوں کی عمریں اتنی زیادہ نہیں ہوگی۔ مجھے لگا کہ ایک بچی جو دکھنے میں بڑی تھی اس کی عمر شاید چھ، سات سال ہے اور دوسری بچی کی عمر شاید پانچ سال کے لگ بھگ ہے ۔ ان دونوں کے لباس، چہرا اور جسم مٹی سے لت پت تھا۔ وہ دونوں ایک نل کے پاس کھڑی تھی جس میں سے بوند بوند پانی نکل رہا تھا۔ بڑی بچی اپنے ہاتھ کی ہتھیلی میں پانی جمع کرتی اور دوسری بچی کے منہ میں ڈال دیتی۔ اس کے بعد دوبارہ پانی کو جمع کرتی اور اپنے حلق کو تر کرتی۔
اسرائیل نے ہم پر دانہ پانی مکمل طور پر بند کیا ہوا تھا۔ ہر جگہ لوگ یونہی پانی اور کھانے کے لیے ترپتے دکھائی دیتے تھے۔ شاید دنیا کے باقی لوگ ان پانی کے قطروں کو حقیر جانے مگر ہم لوگ جانتے تھے کہ یہ قطرے کتنے انمول تھے۔ یہ ہمارے لیے آب حیات سے بڑھ کر تھے۔ یہ بہت معتبر قطرے تھے۔ یہ پانی کے قطرے اسرائیل جیسی ظالم قوم کے شکنجے سے نکل کر مظلوموں کو زندہ رکھنے کی خدمات سر انجام دے رہے تھے اور ہماری قوم میں ایثار کا ایسا جذبہ تھا کہ ایک بچی چاہتی تو خود پانی پی سکتی تھی، وہ اس خود غرض دنیا کی طرح خود غرض بن سکتی تھی لیکن وہ اپنی ساتھی بچی کو پانی پلا کر عظیم بن رہی تھی۔ وہ اپنے آپ کو معتبر بنا رہی تھی شاید یہ سب کچھ جانے بغیر!
********************************
میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھوں پر ان کا نام لکھا ہوا تھا۔
میں کیمپ میں لیٹی کچھ دیر کے لیے آرام کر رہی تھی جب میں نے دیکھا کہ ایک بچی مجھ سے کچھ دور بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے بال کچھ سلیقے سے بندھے ہوئے تھے مگر اس کے جسم کا لباس بھی جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا جس کو چھپانے کے لیے وہ ایک چھوٹے سے اسکارف کا سہارا لے رہی تھی۔ اس کے ہاتھ پر بلو کلر کی روشنائی سے ایک نام لکھا ہوا تھا۔
اتفاقاً اس بچی کی نگاہ بھی مجھ سے ملی۔ میں نے نجانے کس خیال کے تحت اس بچی کو آنکھوں کے اشاروں سے اپنے پاس بلایا۔ وہ خاموشی سے میرے پاس آگئی۔
” یہ تمہارے ہاتھ پر کس کا نام لکھا ہوا ہے؟” میں نے بچی سے پوچھا۔
“میرا نام” بچی نے آہستگی سے کہا۔
” کیوں؟” میں نے دوبارہ پوچھا۔
” تاکہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو میرے ماما بابا کو میری لاش ڈھونڈنے میں مشکل نہ ہو۔” میں لڑکی کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔ وہ بچی شکل و صورت معمولی تھی مگر اس نے جو بات کہیں تھی وہ ہرگز معمولی نہیں تھی۔ موت کی بات کرنا اس عمر میں آسان نہیں ہوتا مگر مجھے حیرت اتنی زیادہ نہیں ہوئی تھی کیونکہ یہاں پر ہر بچہ ہزاروں جنازے اٹھتا دیکھتا تھا۔
” تمہیں ڈر نہیں لگتا مرنے سے؟” میری نظروں کے سامنے موسیٰ کا چہرہ آگیا۔
” ڈر کیوں لگے گا۔ ماما کہتی ہے زندگی اللّٰہ کی امانت ہے۔ اللّٰہ نے ہمیں دی ہے اور اللّٰہ ہی واپس لے لیں گا۔ اگر ہم اللّٰہ کو رضا مند کرکے اس دنیا سے جائیں تو ہمارے لیے کوئی خوف نہیں ہے اور اگر ہم اس حالتِ جنگ میں مارے جائیں تو مرے گے نہیں بلکہ شہید ہو کر اس دنیا میں زندہ رہے گے۔ ہم سیدھا جنت میں جائیں گے جہاں اللّٰہ ہمیں پیٹ بھر کر کھانا دے گا، ہماری ہر ضرورت لا خیال رکھے گا۔ شہید ہونا ایک اعزاز ہوتا ہے” اس کی آخری بات میں مجھے فخر جھلکتا دکھائی دیا تھا۔
” تمہاری عمر کتنی ہے؟” پتہ نہیں کیوں اس بچی کو دیکھ کر ذہن میں سوال ہی سوال ابھر رہے تھے۔
” نو سال!” لڑکی نے اس دفعہ مختصر جواب دیا۔
” اگر اسرائیلی فوجی تمہیں پکڑ کر لے گئے تو؟ کیا تمہارا دل نہیں چاہتا اس جگہ سے چلے جانے کا؟” مجھے میرا سوالات بہت بیوقوفانہ لگا تھا لیکن میں نے بھی یہاں اپنا بچپن گزارا تھا میں جاننا چاہتی تھی کہ ہماری نسل اور اس نسل میں کیا اب کوئی فرق تھا۔
” تو کیا ہوگا؟ وہ زیادہ سے زیادہ ہمیں ماریں گے اور ہمیں پیٹے گے۔ ہمیں بس صبر کرنا ہے اور اگر وہ ہمیں ہمارے دین سے ہٹانے کی کوشش کریں گے تو ان کا منہ توڑ جواب دینا ہے۔ میرے بابا کہتے ہے قیامت والے دن لوگ صبر کرنے والوں کا اجر دیکھ کر تمنا کریں گے کہ کاش ہم بھی صابر ہوتے اور آپ نے جو دوسرا سوال کیا ہے کہ میرا اس جگہ سے جانے کا من کرتا ہے تو نہیں۔ اس جگہ پر پیدائش اللّٰہ کی طرف سے ہمارے لیے ایک اعزاز ہے۔ یہ انبیاء کی سر زمیں ہے۔ ان انبیاء کی جو اللّٰہ کے خاص لوگ تھے۔ اللّٰہ نے ان کو خاص اسی لیے بنایااتھا کیونکہ وہ لوگ حق کے خلاف کھڑے ہوئے تھے اور ان کو اس وجہ سے اپنوں اور غیروں کی نفرت برداشت کرنی پڑی تھی۔ ہر طرح کے ظلم ڈھائے گئے تھے ان پر۔ انبیاء کی سر زمیں پر پیدا ہونا ہمارا اعزاز ہے۔ شاید ہم پر یہ آزمائش اسی لیے کیونکہ اگر کبھی کسی نے ہم پر اس پاک سر زمین کے باشندے ہونے پر اللّٰہ سے اعتراض کیا کہ انہیں یہ اعزاز کیوں نہیں حاصل ہوا تو اللّٰہ ان لوگوں کو خود دکھا سکے کہ ہم لوگ ثابت قدم لوگ تھے۔ ہم نے یہ اعزاز نہ صرف پایا ہے بلکہ اسے سنبھالے رکھا ہے۔ ”
میری آنکھیں اس لڑکی کی باتیں سن کر نم ہو گئی۔ اگر دشمن کو ہمارے بچوں سے کسی قسم کے خطرے ک خدشہ تھا تو بالکل صحیح تھا۔ ایسے بچے سے خوف کھایا جانا چاہیے۔ اس بچی کے تدبر اور ایمان کی یہ حالت تھی کہ دل چاہتا تھا اسے ساری دنیا کے سامنے کھڑا کرکے یہ تقریر کروائی جائے۔
********************************
میں نے دیکھا ایک لڑکا کسی بات پر جھگڑ رہا تھا۔
میری آنکھ کیمپ سے باہر آتے شور سے کھلی تھی۔ رات بھر میں سو نہیں پائی تھی کیونکہ دل میں پچھتاوا پنپ رہا تھا کہ کاش میں اپنے شوہر اور بچے کو چھوڑ کر تنہا نہ جاتی۔ ابھی مجھے سوئے شاید تین گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ باہر ہوتے شور و گل نے مجھے جگا دیا۔
میں خاموشی سے اٹھی اور باہر کی جانب بڑھ گئی۔ باہر ایک لڑکا رو رہا تھا۔ لڑکے کی عمر کوئی دس بارہ سال تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ چیختے ہوئے ایک بات کہے جا رہا تھا۔ اس کے اردگرد موجود لوگ ویڈیو بنا رہے تھے۔وہ اپنے مقابل شخص سے کہہ رہا تھا۔
” آپ لوگ بول رہے ہیں کہ جنگ کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا مگر مجھے بتائیں کیا ٹھیک ہوگا۔ امن کا زمانہ ہمارا خاندان ہمارے پاس لے کر نہیں آئے گا۔ امن کا زمانہ ہمارے پہلے موجود گھروں کی رونقوں کو بحال نہیں کر پائے گا۔ ہمارا خاندان چھن گیا ہے۔ کیا کوئی ہمارا بچپن ہمیں واپس لا سکتا ہے۔ کیا کوئی ہماری ذہنی اذیت کو دور کر سکتا ہے۔ یہ جنگ اس قوم میں موجود بچوں کی زندگیوں کو کبھی نارمل نہیں ہونے دے گی۔ ہم ساری زندگی یوں ہی تباہ حال بنے رہے گے “
وہ بچہ ابھی بھی بولے جا رہا تھا۔ سب کی نظریں آبدیدہ تھی۔ ویڈیوز بناتے لوگوں نے اس لڑکے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دی۔ اب بس انٹرنیٹ ہی تھا جو اس ظالم دنیا تک ان کا پیغام بھیج سکتا تھا۔ آہستہ آہستہ لوگ ہٹتے چلے گئے۔ سب کو اس سے ہمدردی تھی مگر اس وقت وہ لوگ خود بھی ترس کھائے جانے کے قابل تھے۔ وہ لڑکا اب زمین پر بیٹھ کر رو رہا تھا۔ جانے کیوں مجھے اس میں اپنا موسیٰ دکھائی دے رہا تھا۔ حالانکہ اس کے نین نقش میرے موسیٰ سے بالکل مختلف تھے مگر اس لڑکے کا رونا میری ممتا کو للکار رہا تھا۔
میں اس لڑکے کے پاس گئی اور اسے سہارا دیا۔ اسے اٹھا کر سیدھا کیا اور اس کے گالوں سے آنسو صاف کیے۔ جب اس کی حالت کچھ سنبھل گئی تو میں نے پوچھا۔
” تمہارا کون گیا ہے اس دنیا سے؟”
” سب لوگ! میرا سارا خاندان” اس نے روتے ہوئے کہا۔
“میرے بھی سب چلے گئے تھے جب میں تمہاری عمر میں تھی۔” میں اس لڑکے کو بتانے لگ گئی لیکن شاید خود اس وقت میں کھو گئی تھی۔ ” میرے ماں باپ، دادا دادی اور بہن بھائی سب کو بہت سال پہلے اسرائیل نے مار ڈالا تھا۔ میں تب بھی یوں ہی بے گھر بیٹھی تھی۔ میرا گھر پہلے بھی جنگ نے توڑا تھا۔ پھر مجھے ایک عورت نے پناہ دی اور اس کے توسط مجھے زندگی کی اس دوڑ میں ایک شخص ملا جس نے مجھے اپنا نام دے کر نا صرف پناہ دی بلکہ اس کے ساتھ میں نے اپنا ایک نیا گھر بنایا۔ میرا بیٹا پیدا ہوا۔ میری زندگی بلکل متوازن ہوگئی تھی مگر ایک بار پھر اسرائیل نے میری زندگی تباہ کر ڈالی۔”
میرے آنسو بہنے لگے۔ میرے دل میں نقش میرے خاندان کی تصاویر اب آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چل رہی تھی۔
” کاش کوئی ان انسان کی کھال میں چھپے جانوروں کو بتا سکے کہ گھر دوبارہ بنانا آسان نہیں ہے۔ کاش یہ لوگ انسان نہ سہی تو جانور ہی ہوتے۔ کم از کم جانور میں بھی اتنی وفا ہوتی کہ اپنا احسان اتارتا ہے۔ ہم نے انہیں پناہ دی اور انہوں نے ہمارے پیروں زمین کھینچ لی۔”
میں نے بڑے دکھ سے کہا اور اس لڑکے کو چھوڑ کر اٹھ کر چلی گئی۔ آگے اب اسے اپنی زندگی کا موڑ خود مڑنا تھا۔ اگر میرے پاس رہنے کی کوئی جگہ ہوتی تو میں اسے پناہ دے دیتی لیکن ابھی میں خود پناہ مانگ رہی تھی۔
********************************
میں نے دیکھا کہ ایک عجب سی خوشی لوگوں کو محسوس ہو رہی ہے۔
میں دوپہر کا کھانا کھا کر کچھ دیر کے لیے کیمپ سے باہر بیٹھی تھی کہ اچانک میں نے محسوس کیا کہ لوگوں کے چہروں پر ایک عجب سی مسکراہٹ تھی۔ میں نے ایک ساتھ بیٹھی عورت سے اس بے وقت مسکراہٹ کی وجہ پوچھا تو اس عورت نے بتایا۔
” اللّٰہ نے ہماری سن لی ہے۔ ہمارے لیے مسلم ممالک نے آواز اٹھانا شروع کردی ہے۔ ایک شخص نے بتایا ہے کہ ترکیہ میں ہمارے لیے ایک بہت بڑا پروٹیسٹ ہوا ہے۔ مسلمان بہت سی ویڈیوز ہماری حمایت میں بنا رہے ہیں اور امریکہ جو اسرائیل کو اسلحہ فراہم کر رہی ہے اس کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ اللّٰہ کا شکر ہے ہماری آوازیں ان تک پہنچ رہی ہے اللّٰہ کا شکر ہے۔”
میں نے بھی اللّٰہ کا شکر ادا کیا۔ شکر ہے خدا نے غیر ملکی مسلمانوں کے اندر یہ جذبہ تو ڈالا کہ وہ لوگ اس وقت انٹرنیٹ پر ہمارے لیے اسرائیلیوں کے خلاف جنگ لڑ سکے۔ ہم ابھی اس قابل نہیں ہے کہ انفرادی طور پر اپنا پیغام دنیا تک پہنچائے لیکن اللّٰہ نے ہمارے لیے وسیلہ بنایا ہوا تھا۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں جنگ انشاء اللہ ہم جیتے گے۔
********************************
میں نے وہ دیکھا جو دنیا میں موجود لوگ کو بیان کروں تو لوگ سمجھ نہیں پائیں گے۔
پچھلی رات میری طبیعت اتنی شدید خراب ہوئی کہ مجھے کچھ لوگ ہسپتال لے گئے۔ ہسپتال کے ایک بستر پر میں لیٹی اپنے آس پاس موجود لوگوں کی حالت کو دیکھ رہی تھی۔ بہت سے لوگ زخمی تھے اور درد کا شکار تھا۔ ہر طرف نوحہ کنی کا عالم تھا۔ میں بھی اپنے جسم میں اٹھتی درد کی ٹیسوں سے کراہ رہی تھی۔ آس پاس مجھے پس منظر سے بم دھماکوں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھی۔ اب مجھے یہ آوازیں خوف زدہ نہیں کرتی تھی بلکہ اب یہ آوازیں مجھے بیک گراؤنڈ میوزک لگتی تھی۔ ایک خوفناک میوزک جو انسانوں کو اندر ہی اندر اپنی آواز سے کھوکھلا کردیں۔
میں کسی ڈاکٹر کا اپنے پاس آنے کا انتظار کر رہی تھی تب اچانک ہسپتال میں موجود ہر ایک شخص کو محسوس ہوا کہ کوئی جہاز ہسپتال کے اوپر سے گزر رہا ہے۔ سب نے کلمہ طیبہ پڑھنا شروع کر دیا۔ میں بھی کلمہ پڑھنے لگی۔
آخر کار سب کے دل میں اٹھتے خدشات درست ثابت ہوئے۔ اس جہاز نے ہمارے ہسپتال پر بمباری کردی۔ ایسا لگا عمارت پر زلزلے شکار ہوگئی ہے۔ عمارت نیچے کی طرف جانے لگی۔ عمارت کو میں نے اکثر گرتے دیکھا ہے۔ وہ کچھ اس طرح گرتی ہیں کہ سامنے والوں کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید عمارت اپنے لیے کوئی مضبوط سہارا تلاش کرتے ہوئے گر رہی ہے۔ لیکن کوئی بھی نہیں آتا ایک گرتی ہوئی عمارت کو بچانے کے چکر میں خود کو ضائع کرنے کے لیے۔ میرے اوپر عمارت کی اوپری چھت گرگئی تھی۔ ایک دم درد کی شدت میں اضافہ ہوا۔ درد کی شدت نا قابل بیان ہوگئی اور پھر یکدم ایک سکون سا محسوس ہوا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب روح جسم سے الگ ہوتی ہے۔ ایک عجب سا سکون محسوس ہو رہا تھا۔
ایک بے نام خاموش سامعین کے گروہ میں سے ایک شخص اپنی زندگی کے تلخ تجربات اس دنیا کو بیان کرکے اب اپنے آخری سفر کے منازل طے کر رہا تھا۔ شاید دنیا دیکھ کر محسوس کر پائے جو اس نے محسوس کیا۔
********************************
(ختم شد)