Complete Article
Rafial eman
Article : Palestine: Azeez ka khoon
Writer: Rafial eman
Instagram: @khayal_e_alif
status: complete
آرٹیکل
“فلسطین عزیز کا خون”
میری تحریر کا مقصد ایک آگاہی کا سبق دینا ہے۔ اپنے قلم کی طاقت سے یہ بتانا کہ فلسطین کو ہماری ضرورت ہے۔ یہ فلسطین محض صرف ان چند مسلمانوں کا نہیں ہے جو مسجدِ اقصیٰ کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں بلکہ اس دنیا کے ہر اس مسلم ریاست میں رہنے والے مسلمان کا ہے جس کے دل میں خوفِ خدا ہے ،جو حق و باطل میں فرق پہچانتا ہے، جسے اس بات کا علم ہے کہ عزرائیل کس طرح معصوم جانوں کو اپنی درندگی کا نشان بنا رہا ہے۔
میں جہاں پر بھی گیا ارضِ وطن
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے
تیری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لیے
تیری الفت تیری یادوں کی کسک ساتھ گئی
تیرے نارنج شگوفوں کی مہک ساتھ گئی
سارے ان دیکھے رفیقو کا جلو ساتھ رہا
کتنے ہاتھوں میں ہما گوش میرا ہاتھ رہا
دور پردیس کی بے مسرگز گاہوں میں
اجنبی ناموں کی بے نام و نشان راہوں میں
جس زمین پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا وہاں ہے ارضِ فلسطین کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطین برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطین آباد
یہ فلسطین ہے۔جہاں ننھے بچوں کو سرعام قتل کیا جا رہا ہے ۔یہ وہ فلسطین ہیں جہاں حق کے لیے آواز اٹھانے پر ان کے سر دھڑ سے الگ کر دیے جاتے ہیں ۔یہ وہ فلسین ہیں جہاں اپنے مذہب کی پیروی کرنے پر بم دھماکے سے جان لے لی جاتی ہے ۔ہاں یہ فلسطین ہے!
آج جمعہ کا مبارک دن تھا۔ وہ دن جس میں سب رب تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ میں نمازی نماز ادا کر رہے تھے ۔سجدے میں گئے وہ سر۔۔۔۔۔ خدا گواہ ہے کہ کس قدر نیک دل تھے۔
“اللہ اکبر”
سجود سے اٹھتے وقت آواز بلند ہوئی ۔بے شک اللہ بہت بڑا ہے ۔سلام پھرتے وہ ہاتھ اٹھائے دعا گو تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسوں تھے۔وہ رب تعالٰی سے مانگ رہے تھے، وہ سکون مانگ رہے تھے ،وہ امن چاہتے تھے۔
قران مجید میں تو اللہ فرماتا ہے: اے میرے بندے تو مایوس نہ ہو۔
” مایوسی کفر ہے۔”
ابھی تو ان کے دعائیں اختتام پر بھی نہیں پہنچی تھی کہ ایک آواز آئی ۔جسے یکدم سناٹا ہو گیا تھا ،لیکن پھر ایک شور برپا ہوا۔ ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ بم دھماکے سے کوئی نہیں بچا تھا۔ سب دم توڑ چکے تھے ۔وہ آگ جو وہاں لگی تھی وہ محض صرف شمع کے شعلے نہ تھے بلکہ یہ بھڑکتے شعلے ظاہر کر رہے تھے کہ اس آگ کو لگانے والے خود بھی ایک دن اس میں جل کر راکھ ہو جائیں گے۔ ان کا وجود مٹ کر رہ جائے گا۔
آگ بھج چکی تھی۔ امبرین ہسپتال کے بستر کے ساتھ لگی اپنے بات کی لاش کو دیکھ رہی تھی۔ خون میں لت پت پڑی اس کے باپ کی لاش، وہ منظر تکلیف دہ تھا۔ پیچھے کھڑی اس کی ماں وہ مسلسل رو رہی تھی۔
“ماما،بابا کیوں نہیں اٹھ رہے۔”
“انہیں اٹھائیں نا ۔”
وہ زور زور سے اپنے باپ کی لاش کو ہلاتی امید پر تھی کہ وہ ابھی اٹھ کر اپنی بیٹی کو پکارے گا۔
” بابا اٹھیں نا۔۔۔۔ دیکھیں ہم آپ سے ملنے آئے ہیں۔”
“امبرین بیٹا چپ ہو جاؤ ۔بابا چلے گئے ہیں ۔”
امبرین بہت چھوٹی تھی یہ سب سمجھنے کے لیے ۔بس اس وقت اس کے سامنے اس کے باپ کی لاش تھی، خون میں لت پت ۔
“بابا چلے گئے۔ اللہ میاں نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔”
امبرین کی انکھ سے آنسو گرا تھا۔ وہ زور زور سے رونے لگی۔
” مجھے بھی بابا کے پاس جانا ہے۔ ماما اللہ میاں کو بولیں نا مجھے بھی بلا لیں۔ مجھے بھی بابا کے پاس جانا ہے۔”
” کل میں بھی مسجد جاؤں گی، پھر ایسے ہی اللہ میاں کے پاس چلی جاؤں گی، جیسے آج بابا گئے ہیں۔”
اس کی ماں کا دل تو جیسے بند سا ہو گیا ۔
“نہیں امبرین بیٹا ایسے نہیں کہتے۔ آپ کہیں نہیں جاؤ گی۔ ماما ہیں آپ کیساتھ ۔”
وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لپٹی زارو قطار رو رہی تھی۔
یہ معصوم جانیں جنہیں اپنے بچپن میں اپنے ماں باپ کے سایہ شفقت میں ہونا چاہیے تھا، انہیں اس عمر میں اپنے والدین کی خون میں لت پت لاشوں کو دیکھنا پڑ رہا ہے۔ یہ معصوم بچے جنہیں اس وقت کھلونوں سے کھیلنا چاہیے تھا وہ ڈر سہم کر چار دیواری میں قید ہیں ۔نہ حق قتل ہو رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو جان جس قدر بوجھ برداشت کر سکتی ہے اس پر اتنا ہی بوجھ ڈالا جاتا ہے۔
اللہ تو یہ بھی فرماتا ہے کہ میں اپنے پسندیدہ بندوں کو آزماتا ہوں۔
اس وقت فلسطین پر آزمائش کا وقت ہے۔ فلسطین کس قدر اپنے رب کی پسندیدہ قوم ہو گی کہ اللہ نے یہ آزمائش ان پر ڈالی ہے۔ یہ آزمائش جلد ختم ہو جائے گی،بس ہمیں اس وقت اپنے مسلم بہن بھائیوں کا ساتھ دینا ہے اور ہر وہ چیز پر ہمارے دشمن وطن کا ا جائے اسے دوری اختیار کرنی ہے۔
از رافیعل ایمان