Complete Article
Ramsha Safdar
Article : The Story of a Palestinian Journalist
Writer: Ramsha Safdar
Instagram: @kaghaz_aur_kalam
Genre:
جھلسے ہوئے چہرے والی فلسطینی جرنلسٹ کی کہانی
status: complete
آرٹیکل
“جھلسے ہوئے چہرے والی فلسطینی جرنلسٹ کی کہانی”
” قبول ہے ۔” تیسری دفعہ کہتے ہوئے اس نے ایک نظر اٹھا کر زینب کو دیکھا تھا جس کے ہاتھ حنا سے خالی اور چوڑیوں سے عاری تھے۔ سر پر سفید عجاب اوڑھے وہ مسجد اقصیٰ کے صحن میں بیٹھی تھی ۔ اس کا چہرہ تیزاب سے جھلسا ہوا تھا۔ اس کا ذہن تیرہ سال پیچھے چلا گیا جب وہ پانچ سال کی تھی۔
” بابا ۔۔۔۔“ ایک دم دھماکوں کی گونجنے کی آواز اور فضا میں سلگتے ہوئے شعلوں کو دیکھ کر وہ اپنے بابا کے سینے سے لگ چکی تھی۔ اس کے لیے یہ آوازیں نئی نہ تھی۔ اس کے دنیا میں آنے کا استقبال بھی ایسی ہی آوازوں سے ہوا تھا۔ زینب تمیمی ایک ایسے معاشرے میں جنم لے کر آئی کہ جہاں فلسطین کے مظلوم عوام کے گھروں کو بڑے بڑے بلڈوزروں کی مدد سے کسی بھی وقت مسمار کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ رات کو جب فلسطینی گھروں میں نیند کی آغوش میں ہوتے تو ان کے گھروں کو صیہونی درندوں کے بلڈوزر مسمار کرنے پہنچ جاتے اور ان واقعات میں متعدد معصوم بچے اور معذور بزرگوں کی موت ملبے تلے دب کر واقع ہوجاتی۔مگر ہر دفعہ یہ آوازیں اسے اک نئی اذیت اور خوف میں مبتلا کر دیتی تھیں۔ ایسے ہی آوازوں کے شور میں ایک سال پہلے اس کی ماں کو خون میں لتھڑا ہوا ایک ملبے کے کے نیچے سے مردہ نکالا گیا تھا۔ جب بھی دھماکوں کی آوازیں گونجتی تو وہ اپنے بابا کے سینے سے لپٹ جاتی تھی کیونکہ اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ ایسے ہی شور میں اپنے بابا کو نہ کھو دے ۔ اس کے بعد ایک دن اس کے بابا غائب ہوگئے اور پھر ان کا کوئی پتہ ہی نہ چلا۔ اپنی ماں کے مرنے کے بعد وہ ہمسایوں کے گھر رہتی جو اس کی ماں کی منہ بولی بہن تھی اور اسے اپنے ہی بچوں کی طرح پالا تھا۔ وہ انہیں عمة (خالہ) کہتی تھی۔ ان کا بیٹا صلاح الدین اس سے تین سال بڑا تھا اور اس کا بہت خیال رکھتا تھا۔ مدرسے جاتے ہوئے راستے میں اس کی ڈھال بنا رہتا۔ جب وہ پندرہ سال کی تھی تو اس نے فلسطین کی آواز کو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچانا شروع کردیا۔ ایک دن وہ غزہ میں ہونے والے اسرائیل کے مظالم کو دکھا رہی تھی تو ایک اسرائیلی فوجی نے اس کے ساتھ دست درازی کرنے کی کوشش کی تو زینب تمیمی نے اس کے منہ پر تھپڑ جھڑ دیا۔ اس جرأت کی سزا میں اس کا پھول جیسا چہرا جھلسا دیا گیا تھا اور اسے آٹھ ماہ کے لیے قید کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔ جب اسے گرفتار کیا جارہا تھا تو اس کے چہرے کی مسکراہٹ برقرار تھی۔ ایک ہفتہ پہلے ہی اس کی قید سے رہائی ہوئی تھی۔ اس سترہ سالہ زینب تمیمی نے رہائی کے بعد یاسر عرفات کے مقبرے پر حاضری کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاندار مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ وہ مرتے دم تک آزادی کی جدوجہد جاری رکھے گی۔ فلسطینی لڑکی کی جرأت اور دلیری پر صہیونی میڈیا بھی اس کی تعریف پر مجبور ہو گیا۔ آج اسے جھلسا ہوا چہرہ بدصورت نہیں لگ رہا تھا۔ وہ صلاح الدین کے لیے مرہ جمیلہ تھی اور اس کے لیے اس جھلسے ہوئے چہرے سے زیادہ دنیا میں کوئی خوبصورت چہرہ نہ تھا۔ وہ جھلسے ہوئے چہرے والی لڑکی ایک فلسطینی جرنلسٹ تھی جس نے آٹھ ماہ قید میں رہ کر بھی بزدلی نہ دکھائی۔ ایک بہادر لڑکی جو ایک خوبصورت اور وجہیہ مرد کے ساتھ نکاح میں بندھ چکی تھی۔
نکاح کے بعد صلاح الدین نے اس سے کہا ” تمہیں پتہ ہے زینب ، میری ماں نے میرا نام صلاح الدین اس لیے رکھا تھا کہ میرا بیٹا صلاح الدین ایوبی کی طرح قدس کو فتح کرے گا۔ بلکہ ہر فلسطینی اسی خواب کے ساتھ ہر صبح اپنی آنکھ کھولتا ہے ۔ میں اس وقت خود کو دنیا کا خوش نصیب ترین مرد سمجھ رہا ہوں۔ اس لیے کیونکہ میں زینب تمیمی جیسی بہادر لڑکی کا شوہر ہوں۔ زینب ۔۔۔۔۔ تم جانتی ہو میں ایک مجاہد ہوں اور القدس کے لیے جہاد کرنے کے لیے ہر لمحہ تیار ہوں۔
حماس اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے اور ہم کسی بھی وقت حملہ کرسکتے ہیں مگر اس کے بدلے میں جو کچھ بھی ہوگا تم ان حالات سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا ۔ پچھلے کئی سالوں سے ہونے والے ظلم پر ہم چپ کرکے نہیں بیٹھ سکتے۔ تم فلسطین کے لوگوں کی آواز بننا۔ اگر میں شہید ہو جاؤں تو تم کبھی کمزور نہ پڑنا۔ میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے تم جیسا ہمسفر ملا ہے ۔“ زینب نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔ ” صلاح الدین! اللّٰہ تمہیں فتح یاب کرے ۔ میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ “
حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد اسرائیل نے فلسطین پر شدید بمباری کی۔ ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ فاسفورس بموں کا استعمال کیا گیا۔ غزہ میں خوراک اور ضرورت اشیاء کی سپلائی روک دی گئی۔ ہسپتالوں اور سکولوں پر حملے کیے گئے۔ میڈیا اسرائیل کو مظلوم دکھاتا رہا۔ صلاح الدین اپنے القدس کی دفاع میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوگیا۔ زینب کا بچہ اپنے دنیا میں آنے سے پہلے اپنے باپ سے محروم ہوگیا۔ ان حالات میں اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ یاد آئے جو انھوں نے اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات پر کہے تھے۔
” آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہے مگر ہم زبان سے وہی کہیں گے جس پر ہمارا رب راضی ہوگا۔ “
وہ زبان پہ شکوہ کا ایک لفظ لائے فلسطین کے لوگوں کی آواز بنی رہی.
*****************
غزہ پر بمباری ہورہی تھی۔ وہ رپورٹنگ کر رہی تھی۔ اچانک شیلنگ سے وہ نیچے گری تھی۔ اس نے ایک ہسپتال کی بجائے ایک گری ہوئی عمارت کے ملبے کی اوٹ میں ایک بچے کو جنم دیا تھا۔ بچے کے رونے کی آوازیں فضا میں گونج رہی تھی جسے جنم دیتے ہوئے اس کی ماں اس دنیا سے جاچکی تھی۔ وہ بچہ رو رہا تھا۔ اس کے رونے کی آواز میں مسلمان ممالک کے ضمیر کو جگانے کی پکار شامل تھی جو ایک جسد واحد تو تھے مگر اتنے بے حس ہوچکے تھے کہ انہیں اپنے ہی جسم کے ایک حصے کی تکلیف محسوس نہیں ہورہی تھی۔
٭٭٭
ختم شد