مسئلہ فلسطین اسرائیلی بربریت اور ہمارا موقف اورذمہ داریاں 




Complete Article

Sumaiya Binte Amir Khan

Article:  مسئلہ فلسطین اسرائیلی بربریت اور ہمارا موقف اورذمہ داریاں 

Writer:   Sumaiya Binte Amir Khan

status: complete

Instagram:  @_sumaiya_writes_

آرٹیکل

مسئلہ فلسطین اسرائیلی بربریت اور ہمارا موقف اورذمہ داریاں 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۱)
پاکی ہے اسے جوراتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجدِ حرام(خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بےشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔
رب العالمین نے سرزمین فلسطین کو خیر و برکت والی زمین قرار دیا۔ اسی طرح سورہ اعراف کی آیت 137 ارشاد خداوندی ہے کہ وَاَوۡرَثۡنَا الۡـقَوۡمَ الَّذِيۡنَ كَانُوۡا يُسۡتَضۡعَفُوۡنَ مَشَارِقَ الۡاَرۡضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِىۡ بٰرَكۡنَا فِيۡهَا‌ ؕ وَتَمَّتۡ كَلِمَتُ رَبِّكَ الۡحُسۡنٰى عَلٰى بَنِىۡۤ اِسۡرَاۤءِيۡلَۙ بِمَا صَبَرُوۡا‌ ؕ وَدَمَّرۡنَا مَا كَانَ يَصۡنَعُ فِرۡعَوۡنُ وَقَوۡمُهٗ وَمَا كَانُوۡا يَعۡرِشُوۡنَ ۔
اور ہم نے ان لوگوں کو جو بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے  اس سرزمین کے پورب پچھم کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی اور آپ کے رب کا نیک وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگیا  اور ہم نے فرعون کے اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے سب کو درہم برہم کردیا۔
اس کے علاوہ فلسطین کو اللہ تعالیٰ نے ارض مقدس قرار دیا سورہ المائدہ آیت 21 میں يٰقَوۡمِ ادۡخُلُوا الۡاَرۡضَ الۡمُقَدَّسَةَ الَّتِىۡ كَتَبَ اللّٰهُ لَـكُمۡ وَلَا تَرۡتَدُّوۡا عَلٰٓى اَدۡبَارِكُمۡ فَتَـنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِيۡنَ
اے میری قوم والو ! اس مقدس زمین  میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے نام لکھ دی ہے  اور اپنی پشت کے بل روگردانی نہ کرو  کہ پھر نقصان میں جا پڑو۔
اس طرح قرآن کی سورۃ الحشر میں فلسطین کو ارض محشر کہا گیا تو وہی سورہ الانبیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کو سرزمین فلسطین کا وارث قرار دیا۔ اس طرح  قرآن میں دیگر جگہ پر ارض فلسطین اور فلسطین کے تقدس کا تذکرہ بار بار آیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک اہم ملک ہے۔اور یہ مسلمانوں کے یہاں متبرک اور مقدس سرزمین گردانے جاتے ہے۔ اس ملک کا دار الحکومت بیت المقدس ہے۔ بیت المقدس کو اسرائیلی یروشلم کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت یحیی علیہ السلام، حضرت موسی علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام اور بہت سے دیگر پیغمبر اس سرزمین میں پیدا ہوۓ یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ اس مناسبت سے یہ خطہ زمین پیغمبروں کی سرزمین کہلایا۔ اور یہ شہر یہودیوں، مسیحیوں کے نزدیک مقدس ہے۔ فلسطین کی اہمیت اسلام اور مسلمانوں کے لیے اس حوالے سے بہت واضح رہی ہے کہ ابتداء اسلام میں یہ ان کا قبلہ اول رہا ہے۔ محل وقوع کے اعتبار سے فلسطین براعظم ایشیاء کے مغرب میں بحر متوسط کے جنوبی کنارے پر واقع ہے اس علاقے کو آج کل مشرق وسطی بھی کہا جاتا ہے یہ علاقہ لبنان اور مصر کے درمیان ہے جس کے بیشتر حصے پر اب اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی ہے۔ 1948ء سے پہلے تمام علاقہ فلسطین کہلاتا تھا جو خلافت عثمانیہ میں قائم رہا مگر بعد میں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1948ء میں یہاں کے بیشتر علاقے پر اسرائیلی ریاست قائم کی گئی۔ بیت المقدس پر1967ء میں اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔
ارض فلسطین انبیاء علیہم السلام کا مسکن رہی ہے۔ یہ وہ ارض مقدس ہے جسے انبیاء کرام کا مدفن  ہونے کا شرف حاصل ہے، جس کے ارد گرد برکت ہی برکت کا نزول ہے۔ وہ ارض مقدس جس کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔آپ ﷺ معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لاۓ گئے۔ آپﷺ علی کی اقتداء میں انبیاء علیہم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔ یہ شہیدوں کا شہر ہے۔ اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر و استبداد سے بچانے کیلئے 5000 سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا۔ اور شہادت کا باب آج تک بند نہیں ہوا، سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ امت محمد حقیقت میں اس مقدس سرزمین کی وارث ہے۔جس کے فاتح اول عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے۔ جس کے در و دیوار نے ایوبی کی تکبیر سنی تھی، وہاں آج خیر کا نور پھیلانے والوں اور شر کی تاریکی میں اضافہ کرنے والوں کے در میان آخری مگر عظیم معرکہ بپا ہونے کا میدان تیار ہوچکا ہے، جو آج طاغوتی قوتوں کے زیر نگیں اور قبضہ میں ہے۔ جن کی بدولت ارض فلسطین کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہے۔
مذہبی تاریخ کے لحاظ سے  یہ خدا کے قانون کا ظہور ہے۔ یعنی رب دو جہاں نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انسانوں کی طرف اپنے انبیاء اور رسولوں کو مبعوث کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تمام انسانوں کے لئے امام بنا کر بھیجا گیا۔ اور اس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تاریخ انسانی کے دوسرے دور کا آغاز ہوں اور نبوت و ہدایت کو ان کی اولاد کے لئے خاص کر دیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے دو بیٹے عطا فرمائے۔ حضرت اسمائیل علیہ السلام کو آپ نے مکہ کی سر زمیں پر آباد کیا جہاں انھوں نے خدا کا گھر تعمیر کیا۔ دوسرے بیٹے اسحاق علیہ السلام کو  کنعان یعنی  (قدیم زمانے میں سے سرزمین ارض کنعان کے نام سے پہچانی جاتی تھی کیونکہ کنعانیوں نے ۲۵۰۰ سال ق۔ م میں جزیرہ عرب سے ہجرت کر کے اس علاقہ میں سکونت اختیار کی تھی۔ کریتی قبائل نے ۱۲۰۰ سال ق۔ م میں ارض کنعان پر حملہ کیا اور غزہ اور یافا کے درمیان ساحلی علاقہ میں قیام کیا۔کنعانیوں اور کریتی قبائل کے ادغام سے اس پورے علاقہ کے لئے فلسطین کا نام استعمال ہونے لگا) ۔ فلسطین میں آباد کیا جہاں اسحاق علیہ السلام کی نسل بنی اسرائیل کو امامت و نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ اس طرح یہاں اللہ تعالی کا دوسرا گھر تعمیر کیا گیا۔ لیکن بنی اسرائیل نے جب اللہ رب العزت کے عہد کو فراموش کر دیا تو انھیں منصب امامت سے فراموش کر دیا گیا۔ بنی اسرائیل کے جرائم ان گنت تھے جو منصب امامت سے بر طرف کرنے کا اہم سبب بنے۔ جس میں سے ایک سنگین جرم حضرت عیسی علیہ السلام کو علیہ کو صلیب پر چڑھانے کی کوشش کی گئی۔ ج جس کا ذکر قرآن کی سورہ آل عمران آیت 54 میں بیان کیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے کہ :وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَاور کافروں نے مکر کیا اور ﷲ تعالیٰ نے بھی (مکر) خفیہ تدبیر کی اور ﷲ تعالی سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔
بنی اسرائیل کی قبیح چال اور سنگین جرم کی بدولت انھیں منصب امامت سے بر طرف کرنے کے ساتھ ہی ان پر دوسری سزا یہ نافذ کی گئ کہ قیامت تک کہ عیسی علیہ السلام کے تابعدار قیامت ان پر غالب رہے گے۔ سورہ آل عمران کی آیت 55 میں ارشاد باری تعالی ہے کہ :
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
 جب ﷲ نے فرمایا کہ اے عیسی! میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے  تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا۔ اور تمہیں کافروں سے پاک کردوں گا اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے ان کو کافروں پر قیامت تک فائق رکھوں گا پھر تم سب میرے پاس لوٹ کر آؤ گے تو جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے اس دن تم میں ان کا فیصلہ کردوں گا۔ 
دوسری طرف اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کی دوسری نسل بنی اسماعیل کو امامت کے منصب پر فائز کر دیا۔ محمدﷺ کی بعثت اسی کا اعلان تھا۔ محمدﷺ کی بعثت کا مقصد آپ ﷺ کو عرب کے ادیان پر غلبہ عطا کرنا اور آپ کا انکار کرنے والوں پر اللہ تعالی کا عذاب نافذ کر دیا جائے گا۔ جس طرح آپﷺ سے پہلے رسولوں کا انکار کرنے والی اقوام پر یہ عذاب نازل ہوتا رہا ایک تحویل قبلہ اور دوسرا‌ معراج کا واقعہ عہدہ رسالتﷺ میں یہ دو نشانیوں سے یہ بات پوری طرح سے واضح کر دی گئی تھی۔ مدینہ میں بیت المقدس کو قبلہ بنانا آزمائش کے لئے تھا کہ کون خدا کے حکموں کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے اور کون کسی تعصب میں مبتلا رہتا ہے۔ جبکہ قبلہ کی تحویل کا اہم مقصد یہود کے لئے بطور خاص پیغام بھی تھا کہ اب قیادت بنی اسماعیل کو سونپ دی گئی ہے جن کے جد امجد اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد محترم کے ساتھ مل کر خدا کے گھر کی تعمیر کی تھی  اور اب تا قیامت یہی اہل ایمان کا مر کز ہوگا واقعہ معراج کا مقصد زمین پر موجود دونوں مقدس مقامات کی تولیت اب بنی اسماعیل کو منتقل کی جارہی ہے۔ گویا اس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ یہودی مذہبی حوالے سے خدا کے گھر پر اب کوئی دعوی نہیں رکھتے۔ تاریخ کی اس مذہبی اہمیت کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو جب امامت کے منصب پر فائز کیا گیا تو انہوں نے دعا کی کہ امامت کا اعزاز ان کی ذریت کو بھی عطا ہو۔ اللہ تعالی نے اس دعا کے جواب میں فرمایا کہ اس کا عہد ظالموں کے لئے نہیں ہے۔ گویا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت سے جو لوگ اللہ کے عہد سے بھٹک جاۓ گے اور منصب امامت کے قطعاً حقدار نہیں ہوں گے۔ اسی اصول کی نسبت یہودیوں سے یہ کہا گیا کہ اگر اب بھی وہ اس عہد کو پورا کرے گے  یعنی حضرت عیسی علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لیں آئے گے تو انہیں سرفرازی مل سکتی ہے۔ اسی طرح بنی اسماعیل کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ وہ اپنا عہد پورا کریں۔ جب انھیں یہ ذمہ داری سونپی گئ کہ بیت اللہ کو حق و توحید کامرکز بناۓ رکھیں اور دنیا میں شہادت حق کی ذمہ داری ادا کرتے رہیں تو ساتھ ہی فرمادیا کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انھیں دنیا میں حکمرانی سے نوازے گا۔ سورہ النور آیت 55 میں ارشاد باری تعالی ہے کہ : وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ۔ 
اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لئے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے مضبوط و مستحکم فرما دے گا اور وہ ضرور ان کے پچھلے خوف کو ان کے لئے امن و حفاظت کی حالت سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے، اور جس نے اس کے بعد ناشکری کو اختیار کیا تو وہی لوگ فاسق ہوں گے۔
اللہ تعالٰی نے اپنا یہ عہد پورا کر دیا۔ طویل عرصے تک بنی اسماعیل اس منصب پر فائز رہے پھر یہ بھی راہ حق سے بنی اسرائیل کی طرح بھٹک گئے۔ انہوں نے اگر چہ بیت اللہ کو توحید کا مرکز تو بنائے رکھا لیکن شہادت حق کی ذمہ دار بھول گئے۔ جس کے نتیجے میں مسکنت اور ذلت ان کا مقدر بن گی گویا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آج بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل دونوں ایک طرح کے انجام کا شکار ہیں۔
اسرائیل کے یہود اس وقت عالم خوف میں زندہ ہے اور ان کا وجود صرف مسیحیوں کی پشت پناہی پر قائم ہے۔ گویاقرآن کریم کی پیشن گوئی کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کے ماننے والوں کے رحم و کرم پر ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف ان کی جارحیت خوف کا اظہار ہے۔ دوسری طرف عرب سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بے بس ہے، تاریخ کی مذہبی تعبیر کے مطابق، بنی اسماعیل یعنی عرب اگر آج خدا کے دین کی شہادت کے لئے تیار ہو اور ﷲ کے ساتھ اپنا عہد نبھائیں تو تکوینی طور پر دنیا میں ان کا اقتدار قائم ہو جائے گا۔
مادی تاریخ کے لحاظ سے یہ غیروں کی عیاری ومکاری اور اپنوں کی نادانی اور بے حسی کے اشتراک سے جنم لینے والا المیہ ہے یعنی راستے دو ہی ہے۔ ایک تو یہ کہ اس وقت دنیا جس بین الا قوامی سیاسی حد بندی پر جس طرح قائم ہے اسے مان لیا جائے جیسے ساری دنیا تسلیم کئے ہوئے ہے۔دوسرا‌ یہ کہ اتنی طاقت تو حاصل کرلی جائے کہ اس نظام کو ہی بدل ڈالا جائے۔ دوسرا راستہ تو ممکن نہیں اس لئے کیوں نا پہلا ہی راستہ اپنایا جائے۔  عالمی طور پر اسرائیل کو ایک خود مختار ملک کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ اس کی سرحدیں 1948 میں طے کر دی گئی تھی۔ اس لحاظ سے یروشلم ایک آزاد شہر ہے۔ اس بندوبست کے لحاظ سے اسرائیل کا ان علاقوں پر کوئی حق نہیں جن پر اس نے 1967 اور 1973 کی جنگوں اور اس کے بعد قبضہ کیا ہے۔ اسی طرح یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یروشلم پر بھی اس کا قبضہ غیر قانونی ہے۔ اس لحاظ سے سارے عالم اسلام کو چاہیے کہ اس نقطے کو مد نظر رکھتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حل کا مطالبہ کرے۔ یہ وہ اہم اصولی مقدمہ ہے جس کی بدولت پر امن سیاسی جد وجہد کی جاسکتی ہے۔ ممکن ہے شاید اس طریقہ کار کے حل میں دیر ہو لیکن اس کے علاوہ جو حل پیش کئے جارہے ہیں وہ دراصل معصوم بچوں کو بھیڑیے کے کچھار میں پھینکنا ہے۔ اور آج ہم یہی کام کر رہے ہیں اور ہماری یہ بے تدبیری کہیے یا کم عقلی جس کی بدولت ہر تھوڑے عرصے کے بعد اسرائیل کو یہ جواز فراہم کرتی ہے کہ وہ فلسطین کو ایک قربان گاہ میں تبدیل کر دے جہاں فلسطینی اور ان کے ننھے منے معصوم سے بچے بچیاں، ان کی عور تیں بھینٹ چڑھائی جائے اور ان کا خون مٹی کا رزق بن جائے۔
غرض یہ کہ فلسطینی عوام اپنوں کی نادانی اور اغیار کی مکاری کا تخت مشق بن چکے۔ اس پر مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ فلسطین کو آج شام اور عراق کی طرح، عرب و عجم کے درمیان جاری تاریخی کشمکش کا نیا میدان بنایا جارہا ہے اور مسلمانوں میں موجود آپسی اتحاد کو نیست و نابود کرنے کے سازش کی جارہی ہے۔ لیکن فلسطینیوں کے حصے میں صرف لاشیں ہیں۔ ان سب حالات کو دیکھتے ہوئےدل سے یہ صدا نکلتی ہے کہاں ہے وہ جو خود کو ملت ابراہیمی کی کڑی کہتا ہے، کہاں ہے وہ خدا کے بندے جن پر ایک مسلم ہونے کی حیثیت سے فلسطینی مسلمانوں کی ذمہ‌داریاں عائد ہوتی ہیں۔ بطور حیثیت ہم تمام مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے مسلم بھائیوں کی مدد کریں، جس جگہ کا قرآن و حدیث میں تذکرہ ایسی ارض مقدس کی حفاظت کرے، اپنے قبلہ اول کی حفاظت کریں، وہ اپنے خلیفہ ثانی اور صلاح الدین ایوبی کی فتح  کی ہوئی مسجد کی حفاظت کریں۔ مسئلہ فلسطین کے لئے امت مسلمہ کے ہر فرد کو جگانے کی اشد ضرورت ہے۔ چونکہ حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب مسلمان ایک جسم واحد کی طرح ہیں۔ اگر اس کی آنکھ دکھے تو اس کا سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے اور اسی طرح اگر اس کے سر میں تکلیف ہو تو بھی سارا جسم تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔ ( صحیح مسلم ) گویا حقیقی مسلمان وہ ہوتا ہے جو سارے عالم کے مسلمانوں کے بارے میں فکر مند رہتا ہے۔
پوری امت مسلمہ گویا ایک جسم و جان کی طرح ہے۔ غرض یہ کہ کسی ایک عضو میں اگر تکلیف ہو تو اس کے سارے اعضاء تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ آج اس بات کی ازحد ضرورت ہے کہ ملت  کا ہر فرد اس بات کو سمجھے اور فلسطینی مسلمانوں کی حمایت میں آواز بلند کرے۔
امت مسلمہ یہ یاد رکھیں کہ فلسطین کا  مسئلہ یہ محض قومی یا وطنی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ساری امت کا مسئلہ ہے‌۔  مسلمان اپنے مسلکی اختلافات کو بھول کر یکجا ہو ہوجائےاور نعرہ تکبیر کی صداؤں سے ارض فلسطین کو گونجا دیں۔


تم نہ اٹھو گے تو اب کون یہاں اٹھے گا
انقلاب آۓ گا تو تم سے ہی  بس آئے گا


اس کے علاوہ انت مسلمہ کو چاہیئے کہ مساجد میں قنوت اور دعاؤں کا اہتمام کریں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اس کو اجاگر کرنے کی منصوبہ بند مہم چلائیں۔لائبریریوں میں اور خاص طور پر مساجد کی لائبریریوں میں فلسطین سے متعلق لٹریچر فراہم کریں۔ مائیں بہنیں اپنے بچوں میں مسجد اقصیٰ کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں، اس کے لیے اسلامی سیر ت، اسلامی تاریخ، ترانوں اور دیگر چیزوں کو ذریعہ بناۓ۔






Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *