Complete Afsana

Mariyam Raheem

Afsana: Mera Falasteen

Writer: Mariyam Raheem

Instagram: @haya_jihaaan

 Genre: falasteen k halat par likhi Gai ek choti si tehreer

status: complete

افسانہ
” میرا فلسطین”
سورج آج سوا نیزے پر تھا اس کی سنہری کرنیں اس عمارت کے چاروں اور گر رہی تھیں۔ 
یہ ایک اسکول کی عمارت تھی۔ سیاہ اور سنہری رنگ کا امتزاج۔ اس کی کھڑکیاں چوٹھی سی تھیں جس میں کانچ پیوست کیا گیا تھا۔ 
اس عمارت میں سے کئی بچے اپنے اپنے ماں باپ کی انگلیوں کو تھامے ان کے ساتھ چلتے آج اسکول میں ہوئی روادات کے بارے میں بتا رہے تھے۔ 
ان سب بچوں میں سے ایک وہ گول مٹول سی لڑکی بھی تھی۔ اس کے گال پھولے پھولے اور لال لال سے تھے۔ اس کی آنکھیں سورج کے کرنوں جیسی تھی۔ سنہری انکھیں۔ جن میں زمانے بھر کی چمک دکھ رہی تھی۔ اس کا نام عمرانہ تھا۔ اس نے اپنی بڑی بہن کی انگلی تھام رکھی تھی۔ وہ مسکرا بھی رہی تھی۔ اور مسکراتے مسکراتے وہ آج کے بارے میں اپنی بہن کو بتا رہی تھی۔ 
تمہیں پتہ ہے۔ آج میری ٹیچر نے مجھے پیار کیا۔ 
اچھا؟ مگر کیوں اس کی بہن نے حیرانی سے پوچھا۔ 
کیوں کہ آج میرا ٹیسٹ تھا۔ اور وہ میں نے فل نمبرز سے پاس کر لیا ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے مجھے پیار کیا۔ تم عمرانہ۔ تم واقعی بہت پیاری اور ہونہار بچی ہو۔ تو لوگ تمہیں پیار کیوں نا کریں گے؟ اس کی بہن نے پیار سے اس کے گال کھینچے تو عمرانہ کھلکھال کر مسکرادی۔ 
اور تب ہی ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ 
ایسا دھماکہ جیسا کسی نے کبھی دیکھا نہ تھا۔ 
اب منظر کچھ اس طرح کا تھا کے ہر سو خون ہی خون تھا۔ جیسے ندیاں سی بہہ گئی ہوں۔ 
ہر طرف الشیں ہی الشیں پڑھیں تھیں۔ 
کسی کے بیٹے کی۔ 
کسی کی بیٹی کی۔ 
کسی کی بہن کی۔ 
کسی کے بھائی کی۔ 
کسی کے باپ کی۔ 
کسی کی ماں کی۔ 
ان سب الشوں میں سے ایک ایسا وجود بھی تھا جو خون خون تھا۔ 
عمرانہ۔۔۔ اٹھو۔۔ آنکھیں کھولو۔ 
میری جان خدا کے لیے۔ 
کوئی ہے جو میری مدد کرے گا؟ اس لڑکی نے سب کو چیخ کر مخاطب کرنا چاہا۔ پر کوئی اس کی جانبنہ تو متوجہ ہوا اور نہ ہی کسی نے اس کی جانب دیکھا۔ 
اس کی انکھ کے قریب کافی گہری چوٹ آئی تھی جس میں سے خون رس رس کر زمین پر گر رہا تھا۔ لیکن اسے پرواہ نہ تھی۔ 
اسے اگر کسی کی پرواہ تھی بھی تو اپنی چھوٹی بہن کی تھی جو اس وقت بے حوش تھی۔ 
اور تب ہی ایمبولینس کی سائلنسر بجاتی کئی گاڑیاں آئیں۔ 
کسی وارڈ بوائے نے اٹھا کر اس کے وجود کو اسریٹچر پر لٹایا۔ 
اس کی بہن بھاگتی لوگوں کو دھکہ دیتی اس کی جانب بڑھی تھیں۔ 
وارڈ بوائے نے اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ 
میں۔۔۔۔میں اس کی بڑی بہن ہوں۔۔ خضرا۔۔ 
وارڈ بوائے نے سر ہال دیا اور اسے گاڑی میں بیٹھنے کو کہا۔ 
اب منظر کچھ اس طرح کا ہے کہ۔۔ یہ ایک ہسپتال ہے جہاں بہت سے لوگ آہ و بکا کر رہے تھے کچھ درد سے کراہ رہے تھے کچھ دعاؤں کے لیے ہاتھ اٹھائے دعا گو تھے۔ 
ان میں سے ایک وجود عمرانہ کا تھا جو نیم بے ہوش تھی۔ 
کیا سے کیا ہو گیا تھا۔ 
وہ ہنستی مسکراتی کھیلتی بچی اب کیسی حاالت میں تھی کہ۔۔۔۔ 
اس کا پورا وجود پٹیوں کی زد میں تھا۔ 
اس کی بہن خضرا کو بھی چھوٹیں آئیں تھیں۔ اس کی آنکھ کے قریب ایک چوٹ تھی جس پر پٹی بندھی تھی۔ عمرانہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک باغیچے میں کھڑی ہے ایک ایسا باغیچہ جسے دیکھنے میں لگ رہا تھا کہ وہ جنت ہے۔۔
ہر جانب پانی کے چشمے بہہ رہے تھے پیڑوں پر کئی طرز کے پھل لگے تھے۔ 
ہر جانب ایک بھینی بھینی سی خوشبو رچی تھی۔ اور ان سب میں دو وجود ایسے تھے جو اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔ اس نے دیکھا اس کے ماں باپ اسے مسکرا کر اپنے پاس آنے کو کہہ رہے ہیں۔ اور اپنے ہونٹوں سے کچھ لفظ ادا بھی کر رہے تھے لیکن ان کی آواز مدہم تھی اس وجہ سے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔۔ 
وہ بھاگم بھاگ بھاگتی مسکراتے ہوئے ان کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس کے باپ نے اسے جھک کر اٹھا لیا تھا اور وہ اس کے گال پر چوم رہے تھے۔ 
اس کی ماں بھی خوش تھیں۔ وہ اب بھی بڑبڑا رہی تھی۔ 
عمرانہ کو اپنے سارے درد بھول بھال گئے تھے۔ جب وہ چھوٹی تھی تب بھی کچھ اسی طرح کا حادثہ پیش ہوا تھا۔ کچھ ایسا حادثہ جس نے اس کے ماں باپ کو اس سے دور کردیا تھا۔ 
اس نے کافی دشواری سے آنکھیں کھولیں۔ 
اسے دکت ہوئی تھی۔ 
لیکن اس نے جدو جہد کرکے کھول دی تھیں۔ 
اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو اس کی پہلی نظر اس کے پاس بیٹھی خضرا پر پڑھی۔ 
اس نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ 
خضرا نے اسے بھری ہوئی آنکھوں سے دیکھا 
آپ کو پتہ ہے میں نے خواب میں کیا دیکھا؟ 
اسے بولنے میں کافی دشواری کا سامنہ ہو رہا تھا۔۔ 
میں نے دیکھا کے امی ابو مسکرا رہے تھے اور کچھ کہہ بھی رہے تھے لیکن۔ 
میں سمجھنے سے قاصر تھی۔وہ سانس اٹک اٹک کر لے رہی تھی۔۔ 
کیوں کے ان کی آواز مدہم تھی۔ اور وہ۔۔۔ 
اس نے ایک لمبی سانس کھینچی۔ 
وہ دونوں مجھے اپنے پاس بال رہے ہیں۔ 
اس کی بہن روئے جا رہی تھی وہ سمجھ گئی تھی کے وہ اب یعنی اس چھوٹی سی بہن اب جا رہی ہے ہمیشہ کے لیے۔۔ عمرانہ نے دیکھا اس کی بہن رو رہی ہے اسے محسوس ہوا کہ اس کا دل بند ہو رہاہے۔ 
تم رو مت۔ میں اللہ کے پاس جاکر شکایت لگاؤں گی ان لوگوں کی۔ 
میں ان سے کہوں گی ان گندے لوگوں نے مجھ سے اور تم سے۔۔ اور پورے فلسطین کے بچوں کے ہمارے ماں باپ چھین لیے ہیں۔ 
ہمیں ہماری زمین پر رہنا دشوار کر دیا ہے میں اللہ سے رو کر شکایت لگاؤں گی دیکھنا پھر کیسے اللہ اپنی لاٹھی مارتا ہے۔ اس نے پھر ایک لمبی سانس کھینچ کر اپنی آنکھیں موند لیں تھیں کبھی نہ کھولنے کے لیے۔ 
اس کی بہن خضرا اپنے آنسو بہاتے کلمہ شہادت پڑھ رہی تھی 
أشهدُ أنْ لا إلهَ إلاَّ اللهُ وأشهدُ أنَّ محمّداً رسولُ الله






Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *