Complete Afsana
Sumera Akbar
Afsana: Surkh Ice-cream
Writer: Sumera Akbar
Instagram: @smillyy.20
status: complete
افسانہ
” سُرخ آئس کریم “
ازقم: سمیرا اکبر
اگست کا مہینہ اور گرمی اپنے جوبن پر تھی۔ آئس کریم والی گاڑی پکی سڑک پر تیز رفتار سے چل رہی تھی، اور اب وہ شہر کی پکی سڑک سے اترتی ایک خستہ حال سڑک پر چلتی ہوئی ایک قصبے میں داخل ہو رہی تھی، اپنے مخصوص سائرن کے ساتھ ۔جیسے جیسے گاڑی آگے بڑھ رہی تھی چھوٹے بڑے محتلف طرز کے بنے گھروں سے لوگ تیزی سے باہر آ رہے تھے۔اِن میں بچے، بوڑھے،جوان ،مرد عورتیں سب ہی شامل تھے۔سب لوگ اپنی تمام تر مصروفیات کو پسِ پشت ڈال کر اس سائرن والی گاڑی کے تعاقب میں تھے ۔شدید گرمی ،کام کا بوجھ،بجلی کی بندش اور اس سب میں آئس کریم کسی نعمت سے کم نہیں لگتی تھی ، اس کے لئے اتنا خوار ہونا تو بنتا تھا۔
لیکن تم دیکھو گے گاڑی کے رکنے اور کھلنے پر لوگوں کے چہرے ہشاش بشاش ہونے کے بجائے ماتم کناں ہیں۔ویران آنکھیں ،پیاروں کو کھو دینے کا خوف، نہ ختم ہونے والی اذیت
وہ ازیت جو کئی دہائیوں سے موجود ہے
لیکن یہ کیفیت گاڑی کے رکنے سے نہیں بلک گاڑی کے سائرن کے بجنے کے ساتھ ہی موجود تھی..
لوگ دیکھ رہے اور ،ڈھونڈ رہے ہیں ،پہچان رہے ہیں رنج و عالم کا سماں ہے
لیکن ایک کیفیت جو سب کی ایک جیسی ہے وہ ہے ایمان کی پختگی کی الله کی رضا میں راضی رہنےکی گاڑی کا شٹر کھلا اور اس میں بہتات سے تھا سرخ رنگ کا مائع
اور لاشوں کے ڈھیر
مجمعے میں سے ایک ضعیف خاتون آگے بڑھئں،لمبا عبایا جیسا لباس زیب تن کئے،سر اور منہ کو براؤن رنگ کے سکارف سے ڈھکے
لاشوں کو ٹٹولتی یکلخت وہ رکیں،ایک نوجوان لاش کے پاس جس کے منہ کا آدھا حصہ مسخ شدہ تھا اور سر، منہ اور جسم کے مختلف حصوں سے خون تیزی سے نکلتا ہوا۔
معمر خاتون نے اپنا جھریوں زدہ ہاتھ آگے بڑھا کر اپنے واحد سہارے کو چوما عقیدت سے محبت سے
اور بلند کی صدا اے الله میں تیری رضا میں راضی ہوں ،میرے بیٹے کی شھادت قبول فرما۔
وہ معمر خاتون روتی جاتی اور دہراتی جاتی ۔
یکے بعد دیگرے تمہیں نعشیں نظر آئیں گی،جن میں کچھ بوڑھے جسم، زیادہ تر بچے اور نوجوان موجود ہوں گے۔
لوگ آگے بڑھتے ،اپنے پیاروں کو پہچانتے بوسہ دیتے،خون کے آنسو روتے،ماں باپ اپنے بچوں ،بہنیں اپنے بھائیوں ،بیویاں اپنے شوہروں کی لاشیں دیکھتی ماتم ہی ماتم۔
کچھ دیر بعد تم دیکھو گے ایک منظرتین قطاروں کا
ہرقطار میں پندرہ لوگ
سُرخ،سفید،سبزاورکالے رنگ کے امتزاج کے کپڑے میں لپٹےہوئے، چھوٹے بڑے لاشے
نماز اے جنازہ کی صدا بلند کرتا آدمی،اُس کا ساتھ دیتے قصبے کے لوگ ،پھر ان لاشوں کو اٹھاتے قبرستان کی طرف لے جاتے،اپنی آوازوں سے کلمہ حق بلند کرتے ، لبیک یا رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی صدا بلند کرتے ہو جاتے ۔
گھروں سے ابھی بھی افسوس، تسلّی ،رونے اور ایک دوسرے کی ہمت بندھانے جیسے فقروں کی آوازیں آ رہیں تھیں اور سرخ آئس کریم والی گاڑی واپس اپنے راستے پر چل پڑی تھی، خستہ حال سڑک سے گزرتی، شہر کی پکی سڑک کی طرف گامزن ،قصبے کے لوگوں سے دور جاتی لیکن اب اسکا سائرن بند تھے اور وہ خاموشی سے جا لیکن اب اسکا سائرن بند تھا اور وہ خاموشی سے جا رہی تھی کیونکہ موت کا پیغام و سامان وہ اپنے واسیوں کے سپرد کر آئی تھی ۔
How would you normalize those children who receive dead bodies of their love one instead of ice cream from the ice cram truck!