Complete Afsana
Bint e Nazir
Afsana: Dil Mein Utarne wali Awaz
Writer: Bint e Nazir
Instagram: @biint_e_naziir
Status: complete
status: complete
افسانہ
“دل میں اترنے والی آواز “
وہ اپنے باپ کی لاش سے لپٹی تڑپ رہی تھی ،فریاد کر رہی تھی مگر وہاں سن ہی کون رہا تھا یہ تو ایک معمول بن چکا تھا .سب کے عزیز جان شہید کر دیے جا رہے تھے ، ان کا سب کچھ چھن چکا تھا ، گھر، رشتے ، اولاد سب کچھ اگر کچھ بچ گیا تھا تو ان کا ایمان ! . الله پر ان کا پختہ یقین اب بھی ہنوز قائم تھا ، اتنی اذیت ، اتنی تکلیف ، اتنی بے بسی پر بھی یقین تھا تو فقط الله پر جسکے حوالے انکی جانیں تھیں .
“بابا ……..بابا جان ! “فاطمہ تڑپ کر اپنے بابا کے بے جان جسم کو دیکھ رہی تھی .
“بابا یہ ہماری کیوں نہیں سنتے کیوں سب مسلمان خاموش ہیں ؟”ماضی کی یادوں نے اس پر غلبہ حاصل کیا جب وہ اپنے بابا سے پوچھ رہی تھی کہ کوئی ان کی مدد کو کیوں نہیں آتا ؟
“بیٹا یہ آج کے مسلمان ہیں جو محض کان میں پڑنے والی آواز سے مسلمان ہوے ہیں ، جب وہ آواز انکے دل میں اترے گی نہ تو وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے ضرور اٹھائیں گے “
ماضی کی باتیں پس منظر میں جا بسی ,رہ گیا تھا تو یہ تکلیف دہ حال ، وہ اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی جہاں صرف جسم موجود تھا روح تو امر ہو چکی تھی . بے دردی سے اپنے آنسو صاف کرتے اس نے آسمان کو دیکھا اور شکر ادا کیا کہ اس کے بابا اب اس جہنم سے نکل کر الله تعالیٰ کے پاس چلے گۓ ہیں .
“الله تعالیٰ پلیز میرا بابا کا خیال رکھنا ،ان لوگوں کے دل میں آپکی آواز نہیں اتری ،انہوں نے ہماری مدد نہیں کی ، درد دیا ہے ہم سب کو .” ہکچیوں میں کہتی وہ اپنے الله سے فریاد کر رہی تھی کیونکہ فریاد تو صرف الله ہی سنتا ہے ،لوگ تو بس تماشا دیکھتے ہیں.
پھر سے دھماکے کی آواز نے ساری آوازوں کو خاموش کروا دیا اور اسی دھماکہ کی زد میں فاطمہ بھی جانبحق ہو گئی . زندگی کی آخری سانسوں کی زد میں اس نے خود کو کہتے سنا تھا
“میں اوپر…الله تعالیٰ سے ….جا کر سب کی شکایت کروں گی ..انہیں سب کچھ بتاؤں گی “اور اسکے ساتھ ہی اسکی سانسوں کی ڈور کٹ گئی .
کیا ابھی تک ہم دل میں اترنے والی آواز سے مسلمان نہیں ہوے ؟ کیونکہ ظلم کو دیکھ کر چپ رہنااور اس کے خلاف آواز نہ اٹھانا ایمان کا سب سے نچلا درجہ ہے !
**************************************************
اس کا اہم ترین عنصر 1967 میں ہوا جب اسرائیل نے مغربی کنارے، بین النہرین کو یونائیڈ ایریا کے ذریعے قبضہ کر لیا۔ یہ انصاف کے خلاف تھا کیونکہ اسرائیل نے اس سرزمین کا قبضہ کیا جو اس کے قبائل اور فلسطینی عوام کے لئے انصاف کے ضامنوں کی طرف سے مخصوص کیا گیا تھا۔
ایسی حرکت نے فلسطینیوں کو انکم پر اور زمینی حقوق پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، اور انہیں اپنی واجبات سے محروم کر دیا۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی عوام کی زندگیوں میں زیادہ معاشی دباو، جگہ سے نکال دینا، اور معاشرتی اور سیاسی انصاف کے نظام میں نہ کامیابی کی کمی کا شکار ہونا ہے۔
یہ تمام امور اسرائیل کے قبائل کے قبضے کی بنیاد پر ہوتے ہیں جو انصاف کی نظریہ کے خلاف تھے، اور یہ فلسطینی عوام کو جبراً آکرامنہ سرکار کے انتظامات کے تحت رہنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اور صرف مجبور ہی نہیں ان پر ظلم و زیادتی کرتے ، اس لیے ہمیں اس کے خلاف اپنی آواز اٹھانی ہے تاکہ فلسطینی عوام کو انصاف دلایا جا سکے۔
******************************