Complete Article

Mariyam Raheem

Article: Wo Na aye The

Writer: Mariyam Raheem

Instagram: @haya_jihaaan

status: complete

آرٹیکل

وہ نہ آئے تھے۔

از قلم مریم رحیم

” یہ منظر ہے ایک کمرے کا جہاں کافی سارے لوگ موجود تھے۔“
لڑکے، لڑکیاں، بڑی عمر کے مرد، اور عورت۔ 
اور چار پانچ سال کے بچے۔
اس کمرے میں چاروں طرف آہ و بکا کی آوازیں گونج رہیں تھیں“
تم ان میں سے کچھ پہ نظر دوراؤ تو وہی کونے پر عمر بیٹھا نظر آئے گا۔ 
وہ سر جھکائے گھٹنے پر سر رکھے رو رہا تھا۔ اور کافی زاروقطار رو رہا تھا۔ 
اس نے دونوں ہاتھ اپنے گرد پھیلا رکھے تھے۔ 
اس کی سسکیاں ان سب لوگوں کی سسکیوں کے ساتھ مل کر گونج رہی تھی۔
اسے کافی چوٹیں آئیں تھیں۔ جس سے خون رس رس کر زمین کی جانب گر رہا تھا۔
اس کے ساتھ تقریباً ساٹھ کی عمرکے آدمی بیٹھے اسے دلاسا دیے جا رہے تھے۔ 
بیٹا تم اپنے ماں باپ کے لیے دعا کیوں نہیں کرتے؟ 
تم ان کے لیے دعا کرو کے اللہ تعالی انہیں اپنی طرف آونچا مقام دیں۔
عمر نے سر اٹھا کر لال آنکھوں سے دیکھا۔ 
مجھے ان کا غم نہیں ہے۔ مجھے پتہ ہے وہ شہید ہوئے ہیں۔ اور شہیدوں کا مقام کیا ہوتا ہے آپ کو تو بخوبی معلوم ہوگا۔۔
احمد صاحب نے اثبات میں سر ہلایا۔
تو پھر تم رو رہے ہو بیٹے؟ 
میں کیوں رو رہا ہوں؟ ایک بار اس نے سامنے کی جانب دیکھ کر یاد کرنے کی کوشش کی کے وہ کس لیے اور کس کے لیے رو رہا ہے پھر کچھ سوچ کے اس نے واپس احمد کو دیکھا۔
میں۔۔ مسلمانوں کے لیے رو رہا ہوں۔ 
تمہارے رونے سے کیا ہوگا بیٹے؟ کیا وہ آ جائیں گے۔ انہوں نے نفی میں سر ہلایا۔ 
نہیں۔ نہیں آئیں گے وہ۔
عمر کو سمجھ نہ آیا کے وہ جواب میں کیا کہے۔
احمد کو اس پر ترس سا آیا۔
تم بس اللہ پر ایمان رکھو۔۔
تم اس پر پختہ یقین اور ایمان دونوں چیز رکھو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد ضرور کریں گے۔ احمد نے مسکرا کر کہا۔ ایک مکمل طور پر تسلی تھمائی تھی۔ ایک امید تھمائی تھی۔
وہ پھر سے رونے لگ گیا تھا۔
دیکھو بیٹے۔ ایسے غمگین مت ہو۔ اللہ ہے نہ ہمارے ساتھ! 
عمر نے سر اٹھا کر دیکھا۔
اور۔۔۔اور کوئی نہیں ہے ہمارے ساتھ؟ مسلمان بھی نہیں؟ 
اس نے آنسوں بھری آنکھوں سے احمد کو دیکھا۔
آپ کو پتہ ہے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا؟ احمد نے خاموشی اختیار کی اسے جواب معلوم تھا لیکن وہ چاہتا تھا کے عمر بولے۔ 
انہوں نے فرمایا تھا کے تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ 
ہم سب بھائی بھائی ہیں۔
اس نے اپنے سینے پر دستک دی۔
کیا وہ اپنے بھائیوں کے لیے بھی نہیں آسکتے ؟
کیا انہیں یہ حدیث بھول گئی ہے؟ 
وہ اب پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہوا تھا۔
احمد نے اسے اپنے سینے سے لگا دیا۔ 
صبر۔ صبر بیٹے۔ اللہ ہے نہ وہ سب سے بڑا کارساز ہے۔ وہی ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا۔ وہی ہے جو ہمیں موت بھی دے گا۔ 
اور وہی ہے۔  ہمیں کھلانے پلانے والا۔ 
اگر وہ اللہ چاہے گا تو سب ٹھیک ہوگا۔
بس میرے بیٹے تم صرف اسی رب سے مدد مانگو۔
یہ مسلمان کبھی نہ آئے تھے اور نہ وہ آنے والے تھے۔
عمر کچھ دیر پہلے کے اپنے ساتھ ہوئے بیتے لمحوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ 
کیسے وہ مسکرا رہا تھا اس کے ماں باپ مسکرا رہے تھے۔ وہ تینوں خوش تھے۔ 
پر۔۔۔۔ اچانک سے یہ حادثہ ہوا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا تھا۔
_____________________________
کیا آپ لوگ جاننا چاہیں گے کے کیا ہوا تھا؟


یہ صبح کا منظر ہے آسمان سورج سے مکمل طور پر ناراض تھا۔ کالے بادل امنڈ آئے تھے۔ 
اور آسمانوں پر  طرح طرح کے پرندوں کا جھرمٹ تھا۔ 
وہ سب اپنے اپنے گھونسلوں میں جانے کی تیاری میں مگن تھے۔
یہ غزوہ کا ایک علاقہ تھا۔ 
عمر آج بہت خوش تھا۔ 
اس کی آج جاب لگ گئی تھی۔ اور اب وہ یہ خوشخبری اپنے ماں باپ کو سنانے کے لیے بے حد بے چین تھا۔ اس کا بس نہ چل رہا تھا کے وہ ان پرندوں کی طرح اڑ کے ان کی جانب پہنچ جائے۔ 

وہ گھر میں داخل ہوا تو سامنے ہی وہ دونوں اس کی جنت اور اس کی رحمت موجود تھے۔

وہ بھاگ کر ان کی جانب بیٹھا تھا۔
ارے کیا ہوا؟ 
حیدر صاحب نے حیرانی سے کہا۔
میری۔۔ میری جاب لگ گئی ہے۔ 
اس نے ان دونوں کو مسکرا کر دیکھا۔
اللہ تمہیں کامیاب کرے میرے بچے۔ سارہ بیگم نے پیار سے دیکھ کر کہا۔ اور حیدر صاحب نے اسے گلے لگا دیا تھا۔
آمین۔۔ ہم آواز ہو کر ان تینوں نے کہا۔
اور تب ہی۔۔۔ 
تب ہی کچھ بہت زور کا دھماکا ہوا تھا۔ایسا دھماکہ جیسا کبھی نہ ہوا اور نہ کسی نے ہوتے دیکھا۔ 
لیکن آج۔۔۔ آج دیکھ لیا گیا تھا۔
اب یہ گھر پہلے کی طرح ہنستا مسکراتا ہوا نہ رہا تھا۔
وہ ہر جانب سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا تھا۔ 
عمر اس کے ابو حیدر صاحب اور اس کی امی۔ زمین کے نیچے بری طرح سے پھنس گئے تھے۔
ان تینوں نفس میں سے بس ایک عمر ہی زندہ باقی رہ گیا تھا۔ 
اس کے ماں باپ دونوں اللہ کو پیارے ہو چکے تھے۔ وہ دونوں شہیدوں کی فہرست میں شامل ہو چکے تھے۔
کئی بچوں کے والدین تھے کئی والدین کے بچے تھے، کئی عورتیں تھیں جن کے شوہر شہید ہوئے تھے اور کئی شوہر ایسے تھے جن کی بیوی شہید ہوئیں تھیں۔

ہر طرف ہر جانب سیاہ مائل ہی تھا۔ 

عمر اب کچھ دیر بعد اس کمرے میں موجود تھا جہاں کئی ایسے لوگ تھے جنہوں نے اپنے سارے عزیز رشتے دار کھو دیے تھے۔ 
ان سب کو کافی چوٹیں آئیں تھیں۔۔
وہ اب زارو زار روئے جا رہا تھا۔ 
اسے اپنے نقصان پر رونا نہیں آرہا تھا۔
اسے مسلمانوں کے آنکھوں دیکھا اندھا ہو جانے اور کانوں سنا بہرا ہو جانے پر رونا آرہا تھا۔ 

جو مسلمان اپنے بلانے والے کی پانچ صداؤں کو فراموش کیے بیٹھے تھے وہ کیونکر ان کی ایک پکار سے پہنچ جاتے۔ کیونکہ وہ کبھی نہ آئے تھے اور نہ آنے والے تھے۔ 






Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *