Complete Article

Maleeha Jabee’n

Article:  Aag aur khoon

Writer:     Maleeha Jabee’n

Instagram: @taalib_e_mushaf

یہ کہانی ہے ایک گھرانے کی کہ جسے کھلے آسمان تلے بے سائباں کر دیا گیا۔ یہ کہانی ہے اس عمر کی کہ جسکا خمیر ہی ایثار سے اٹھایا گیا تھا، یہ کہانی ہے اس ہالہ کی جو صبرو استقامت سے گندھی تھی۔

status: complete

” آگ اور خون”
از قلم ملیحہ جبیں

کون ہوں میں؟ کدھر ہوں؟ کیوں ہوں ؟ نوجوان کو آنکھیں کھولتا دیکھ کر ایک میل نرس نے آگے بڑھ کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر جھکتے ہوئے پوچھا. ٹھیک ہو نا تم؟

نوجوان ہکا بکا منھ کھولے صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ خون کی دھار بہہ کر گال پہ آرہی تھی۔ خون کے آنسو بھی ہوتے ہیں حقیقت میں ؟ یا پھر محاورہ ہی ہے؟ اگر حقیقت میں خون کے آنسو ہوتے ہیں تو وہ خون کے آنسو ہی روہا تھا۔جگہ کم ہونے کی وجہ سے سمٹ کر بیٹھے نوجوان نے اجنبی اور حیران نظروں سے نرس کو دیکھا- کیا یہ سوال پوچھے جانے کے لائق تھا؟
اور پھرخود سے دریافت کرنے لگا تھا کیوں کہ وہ تو یہ سمجھنے سےبھی قاصر تھا کہ وہ کون ہے-
دھندلی بصارت سے اس نےاپنے آس پاس دیکھنےکی کوشش کی؛ ساتھ ہی فرش پہ لڑھکے، سرخ ہوتی پٹیوں میں مقید دو چھوٹے چھوٹے بچوں پر نگاہ گئی- قریباً تین سال کا بچہ پھٹی سی آواز کے ساتھ بلکتے ہوئے ماں کو پکار رہا تھا، یوں جیسے اس کے حلق میں کوئی چیز پھنسی ہو۔ وہ، جس کی ماں کی گود میں قلقاریاں مارنے کی عمر تھی بنا کسی جرم کے بےدردی کے ساتھ اس کے منھ سے فیڈر کھینچ کر میزائل ٹھونسا تھا۔ یکدم اس نوجوان کے تاثرات چوکنا ہوئے تھے جیسے…. جیسے اسکاذہن ڈیٹا کو پروسیس کرنے لگا تھا۔اذیت کا تاریک سایہ اس کے چہرے پہ لہرایا تھا۔
جیسے وہ خود کو پہچان گیا ہو، اس ننھے بچے میں اپنا عکس دیکھ لیا ہو۔ خود شناسی کا سفر اتنا ہی کٹھن ہوتا ہے جیسے دو دھاری تلوار پہ آبلے زدہ، ننگے پاؤں چلنا پڑے اور زخمی روح چھلنی ہو رہی ہو۔
میں…. میں عم… عمر…. ہاں میں عمر…..
خالی الذہنی میں سرد تاثرات کے ساتھ وہ بڑبڑایا، یوں کہ خود بھی بمشکل سن پایا۔ایک منزل آسان ہوئی تھی وہ اپنا نام بوجھ چکا تھا۔
وہ گھر سے نکلا تھا اس دن….. کیا دن تھا وہ؟ ذہن پر باربار پردہ گرتا، سب کچھ گڈمڈ ہو رہا تھا، بلیک اینڈ وائٹ جو، اب سرخی میں بدل چکا تھا۔
**********************
صلاح الدین، عَزۃ بیٹا مجھے جانا ہے کام کے سلسلے میں؛ دونوں وعدہ کروکہ امی کو تنگ نہیں کروگے۔ موبائل اور چابی کو میز پر سے اٹھاتے ہوئے عمر ان دونوں سے مخاطب ہوا۔پھولے گالوں والی گلابی، کانچ سی عَزۃ نے فوراً سر کو اوپر نیچے ہلاتے ہوئے فرمانبرداری کا ثبوت دیا۔
نہیں ابوجی! میں کسی کو تنگ نہیں کرتا جان بوجھ کر، لوگ خود ہی مجھ سے تنگ ہوجاتے ہیں۔ اور ہاں آپ امی حضور سےبھی وعدہ لیں کہ یہ مجھے تنگ نہیں کریں گی۔ماں کو چڑانے کا موقع ضائع کیے بغیر لا پروائی سے بال اچھالتے ہوئے بولا تھا گویا اس کی طرف گنگا الٹی ہی بہتی تھی۔
صلاح الدین —–
تہہ کیے کپڑوں کو الماری میں رکھنے کی غرض سے اندر آتی ہالہ نے غصے سے صلاح الدین کا نام دانتوں تلے چبایا۔
ابو جان سنبھا لیں اپنی زوجہ کو یہ ہر وقت اپنی توپوں سے آپکے اکلوتے اور معصوم بیٹے، یعنی مجھے، یعنی کہ صلاح الدین بن عمر کو، اللّٰہ اللّٰہ بھو ننے کے لیے تیار رہتی ہیں۔ وہ چند فٹ کا چھلاوا اچھل کے باپ کی پشت کے ساتھ چمٹ کر خود کو توپوں سے بچانے کی سعی کرتے ہوئے بولا۔ اس بات سے بے نیاز کہ توپیں کہاں کسی کا اکلوتا پن دیکھتی ہیں۔ انکو خوبصورتی سے غرض ہوتی ہے نا معصومیت سے۔ان کو تو بس سرخی پسند ہوتی ہے، کسی ممتا کے خوابوں کی سرخی؛ توکسی باپ کی عمر بھر کی کمائی کی سرخی۔
***********************
تب تک نہ پیچھے ہٹنا جب تک فلسطین کو آزاد  فضانہ میسرہو۔خدا آپکو سرخرو کرے!
دروازے پہ کھڑی ہالہ نے عمر کوالوداع کیا تھا۔اس دلیر عورت نے اپنے بچوں کا سائباں اللّٰہ کے دین پر قربان ہونے کو روانہ کر دیا تھا۔
وہ ایک ڈاکٹر ہوتے ہوئے کیسے گھر میں بیٹھ سکتا تھا جبکہ اس کے مظلوم. بہن بھائی زخمی حالت میں پڑے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے۔
************************

مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، بہن بھائی کیوں نہیں؟
عَزۃ آج عجیب وغریب سوال لیے کھڑی تھی۔ ہالہ نے برتن دھوتے ہوئے نگاہ اٹھا کر بے بسی سے اپنی لاڈلی کو دیکھا جو اپنے قد سے بڑا سوال کر رہی تھی۔
کیوں کہ ایک بھائی ہی دوسرے  کا بازوہوتا ہے، جو مشکل وقت میں اس کے ساتھ کھڑا ہو، ایسا بھائی جس کے لیے ہر عورت کی عصمت اپنی بہنوں کی سی ہوتی ہے، جو ہر مشکل مرحلے میں بہن کی ڈھال ہوتا ہے۔ہالہ نے اپنے تئیں اسکی عمر کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی۔
تو پھر لڑکیوں کی بات کیوں نہیں؟ وہ بھی تو بہت بہادر ہوتی ہیں نا۔ مشکل وقت میں ساتھ ہوتی ہیں پھران کا نام کیوں نہیں؟ وہ ماں کا امتحان لینے پہ تلی تھی۔
شایداس لیےکہ عورتیں، مستورات (چھپی ہوئی)ہیں۔ ہالہ لاجواب ہو رہی تھی اس کے سامنے۔
عورتوں کا کوئی کردار نہیں؟ منھ لٹکا کر کاؤنٹر ٹاپ پر بیٹھتے ہوئی بولی۔
ہوتا ہے کیوں نہیں ہوتا؟ اسٹیج پر نظر آنے والے کرداروں کے پیچھے ہدایت کار، ڈرامہ نگار اور کئی معاون ہوتے ہیں جنکی کوششیں ہوتی ہیں لیکن اسٹیج پر صرف اداکار نظر آتا ہے۔
ان سب کے بغیرادا کار کچھ بھی نہیں۔بیج کو تناور درخت بننے سے پہلے عرصہ گمنام رہنا پڑتا ہے بچے!
وہ دھیرے دھیرے اس کی الجھنیں سلجھا رہی تھی۔
ہر دور میں عورت کا نمایاں کردار رہا ہے، تم نے ٹھیک کہا عورت بہت بہادر ہوتی ہے، اس کی ہمت کو چیلنج نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ وہ دو عورتیں ہی تھیں جنھوں نے مل کر وقت کے فرعون کی بنیادیں ہلادی تھیں۔آسیہ علیہ السلام اور حضرت یوخابذ(حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ، اسے اردو میں یوکابد لکھتے ہیں)۔
پتا نہیں وہ مطمئن ہوئی تھی یا نہیں لیکن خاموش ضرور ہو گئی تھی۔
***********************

بیڈ پہ الٹا لیٹے، تکیے پہ کہنیاں جمائے، وہ موبائل میں گھسا تھا جب بسیم خویلد نام کی ریکوئسٹ آئی تھی۔ جھٹ سے اکسیپٹ کرتے ہوئے وہ سیدھا ہوا۔
السلام علیکم!
ساتھ ہی مسیج چمکا۔ وہ چھوٹا سا گُڈا صلاح الدین سے انسپائرڈ لگتا تھا، اسی لیے اس کے ذرا سی لفٹ کروانے پہ وہ پٹری سے اترتا ہوا اب سب کچھ اس کے گوش گزار کر رہاتھا۔
اپنی جیت، میڈلز، کامیابی، یہاں تک کہ ہار، انسلٹ، مطلب کہ زندگی کےسب نشیب و فراز۔
یہ سب باتیں تم. نے اللّٰه کو بتائیں؟
اسکی باتوں کے جواب میں اس سر پھرے عجوبے نے عجیب سوال داغا۔
کیا مطلب؟ اللّٰه تو سب جانتا ہے نا….. میرے بابا کہتے ہیں کہ انسان کے ہر لمحے میں اللّٰه کا ساتھ ہوتا ہے، پھر چاہے وہ خوشی کا لمحہ ہو یا غم کا؛ جیت کا یا ہار کا۔ بسیم نے اپنے تئیں اسے  منطق سمجھائی۔
ٹھیک کہتے ہیں لیکن کسی ایسے  کو اپنی زندگی کے راز بتانا جسے آپ پہلی مرتبہ ملے ہوں اور اسے زبردستی اپنی ذاتی زندگی میں گھسانا تو یہی بتاتا ہے کہ تمہیں کسی سننے والے کی ضرورت تھی۔
ہم سب ہی ایسا کرتے ہیں، ہمیں کوئی چاہیئے ہوتا ہے جو ہمیں زیادہ نہ جانتا ہو لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں جانے، ہماری مرضی کے مطابق۔
ہم چاہتے ہیں کہ وہ صرف ہمیں سنے بنا جج کیے، بنا کوئسچن کیے۔کیوں کہ ہمارا مقصد اگلے کی رائے جاننا نہیں…. بلکہ اپنا بوجھ ہلکا کرنا ہوتا ہے،ان رازوں کا جو اپنوں کو نہیں بتائے ہوتے۔
وہ ایک بچے کے جسم میں بڈھی دانا روح کی طرح تھا۔ہر بات کے پیچھے چھپے محرک کو ڈھونڈ نکالنے والا۔ پرت در پرت چھپا موتی،جیسے کوئی پراسرار راز، لوگ اُسے اتنا ہی دیکھ پاتے تھے جتنا وہ دکھاتاتھا۔اللّٰه کو بتانا سب کچھ جو اچھا لگتا ہے وہ بھی، جس سے نفرت ہے وہ بھی، خوبیاں بھی، خامیاں بھی، اللّٰہ پاک اپنے بندوں کو جج نہیں کرتے۔
ہاں……. اس کے بعد مجھ سے بھی شئیر کر لینا جو دل چاہے، آفٹرآل ہم دوست ہیں اب۔کہتے ہوئے بسیم کو ایزی کرنے کو آخر میں بےتکلفانہ انداز بولا:
میں بتاؤں میرا نام صلاح الدین کیوں رکھا؟ لمبی بات ہے میں وائس مسج ریکارڈ کرتا ہوں تم تب تک مجھے بتاؤ کے کیا بننا ہے تم نے بڑے ہو کر ۔
بنا کسی کو شرمندگی محسوس کروائے، سمجھانا کیا ہوتا ہے وہ چھٹانک بھر کا لڑکا اچھے سے جانتا تھا۔
*********************

ہروقت فون میں نہ گھسےرہا کرو۔
ہر چیز کو ضرورت کے تحت اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیے، ان بے جان چیزوں کو خود پہ اتنا حاوی نہ کرو کہ یہ تمہیں استعمال کرنےلگیں۔ میز پہ بکھری چیزوں کو سمیٹے ہوئے ہالہ نے اسے گھرکا۔
کیا ہے اماں…..
وہ ضدی لہجے میں ہونٹوں کے زاویے بگاڑتے ہوئے بولا۔
مجھے شوق ہےپووووری دنیاپہ چھا جانے کا، میں چاہتا ہوں کہ ہر کوئی مجھے جانتا ہو دنیا بھر میں….. مجھے…… حافظ صلاح الدين بن عمر کو….. پر عزم لہجے میں کہتے ہوئے اس کے چہرے کی چمک دیدنی تھی۔
ذکر آسمانوں پہ ہونا چاہیے بیٹا،  یہ دنیا مومن کے لیے نہیں ہے۔ مقبول ہو، تو آسمانوں پر، مومن کا تذکرہ ہو تو، فرشتوں میں ۔ ہالہ نے اسے نقطہ سمجھایا لیکن  اسکی اگلی بات نے اُسے حق دق کیا ۔ پتا ہے میرے کتنے  فرینڈز ہیں۔ کل تو ایک اسرائیلی نے بھی ریکوئسٹ بھیجی تھی ۔ وہ پلکیں جھپکتے ہوئے ماں کو یہ بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسے ایک زمانہ اب بھی جانتا ہے۔
وہ ہمارے دوست نہیں ہیں اَن فرینڈ کرواسے ابھی کے ابھی-
وہ پختہ لہجے میں بولی تھی۔
لیکن کیوں؟ وہ اچھا بچہ ہے۔ اماں ۔….
کیونکہ اللہ نے سورہ مائدہ میں ہمیں منع کیا ہے یہودو نصاری کو دوست بنا نے سےتو پھر بس بات ختم۔ سانپ چاہے پالتو ہی ہو زہر سے مبرا نہیں ہوتا۔
امی وہ ہمارے دشمن کیوں ہیں؟ ڈھیلی ہوتی پونی کو کَستی عَزۃ نے پہلی بار ماں بیٹےکی گفتگو میں مداخلت کی۔

کیونکہ ہم مسلمان ہیں بچے-
تو مسلمان دوسرے ممالک میں بھی تو رہتے ہیں ان پر آئے دن حملے نہیں ہوتے۔ وہ آٹھ سال کی بچی کندھےاچکاتے ہوئےاپنی ماں کے سارے الفاظ بھی اچک چکی تھی۔
ہالہ ایک لمحے کو لاجواب ہوئی تھی۔ بیڈ سائیڈ ٹیبل پہ پڑی خالی پانی کی بوتلیں اس کا منہ چڑا رہی تھیں۔

بیٹا ہر ایک کی زندگی اور امتحان الگ الگ ہیں۔مسجد اقصٰی تمام مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، سب کے لیے مقدس مقام ہے لیکن اس  پاک سرزمین پر پیدا ہونا ہی ہمارے لیے کسی تمغےسے کم نہیں۔ اس نے سانس کو اندر کھینچ کر آزاد چھوڑتے ہوئے کہا۔
یہ انبیاء کی سرزمین ہے، ادھر پیدا ہونا عام نہیں، تو پھر جو خاص ہو اس کا امتحان بھی توخاص ہوتا ہےنا۔ اس سرزمین نے کئی صابر اپنی گود کھیلائے ہیں۔
خدا کے برگزیدہ بندوں کو اذیت سے دوچار کیا جاتا تو کیا وہ توحید اور حق کا پرچار چھوڑدیتے تھے ؟ کیا غیروں کی صف میں کھڑے ہو جاتےتھے؟ اس زمین پر پیدا ہونا تو ایک اعزاز ہے، جن کو اعزاز دیا جاتا ہے پھر ان کو ذمہ داری بھی سونپی جاتی ہے، کڑےامتحان سے بھی گزارا جاتا ہے۔ جب اتنی اذیتوں کے بعد بھی انبیاء کا ایمان نہ ڈگمگایا تو پھر ہم کیوں لڑکھڑانے لگے؟  اس سرزمین کے باشندے ہونے کے ناطے کچھ قرض، کچھ خراج ہمارے حصے میں بھی آیا ہے۔
کوئی اس قوم کو کیسےسرنگوں کر سکتا تھا جس قوم کے بچوں کو صبر، ایثار، استقامت گھٹی  میں دی گئی ہو اور قصص الأنبياء لوری میں سنائے گئے ہوں۔
************************

امی جان! اب میں جاؤں ؟ پندرہویں پارے کی منزل رہتی ہے سنانے والی۔وہ دس سال کا ننھا حافظ سر پہ دستار سجائے اجازت چاہ رہا تھا۔
ہالہ نے سرد نگاہوں سے پاس پڑے خاموش موبائل کو دیکھا پھر خفیف سی گردن موڑ کر اپنے لختِ جگر کو۔پپڑی زدہ ہونٹوں کو آپس میں پیوست کیے، خالی الذہنی میں سر کو دائیں بائیں جنبش دی۔
کیوں؟؟؟؟؟ آج بھی چھٹی؟ وہ جھنجھلایا ۔
چلیں ٹھیک ہے پھر آپ مجھے موبائل دیکھنے دیں گی نا۔
نن….. نہیں……. نہیں موبائل نہیں ملے گا۔ ہالہ یک دم چونکی پھر موبائل کو گرفت میں لیتے ہوئے کہا گویا وہ پکڑ ہی نہ لے کہیں۔
اس سے پہلے کہ صلاح الدین مزید استفسار کرتا، فائرنگ کی آواز پہ دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کو دیکھا پھر بغیر کسی دوسری سوچ کے دروازے کو لپکے۔ اندر آتی عَزۃ بھی وحشت سے پیچھے بھاگی۔
واللّٰہ! ہم نے کچھ نہیں کیا…… چھوڑو ہمیں.. گھر جانے دو……۔ چھوڑ دو ہمیں……. کچھ نہیں کیا…….
إسرائيلی فوجی دو چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھسیٹ کر اپنی جیپ میں بٹھا رہے تھے۔ دروازے کے بالکل ساتھ چھوٹے چھوٹے بچوں کی خون میں لت پت لاشیں پڑی تھیں۔ کچھ زخمی ہوئے پڑے تھے تھے جن سے مرنے سے پہلے ہی جینے کا حق چھین لیا گیا تھا۔وہ معصوم  کھیلنے نکلے تھے اور اپنی ہی زمین پر سفاکانہ کھیل کا سامان بن گئے تھے۔ ان بے حسوں کی بربریت نے زمین کو بے گناہ پھولوں کا خون پینے پر مجبور کر دیاتھا۔
دور جاتی جیپ کی آواز پلٹ پلٹ کر کانوں کے پردے پھاڑتے ہوئے خوف و ہراس پھیلا رہی تھی۔ ہر طرف افراتفری مچ گئی تھی۔ آہ و بکا، بچوں کی چیخیں، ایمبولینس کے ہارن کانوں میں صور پھونک رہے تھے۔
عزۃ اور صلاح الدین کو سینے سے لگائے ہالہ نے دروازے کے شگاف سے معصوم بچوں کو دیکھا جو ظالموں کے ظلم کا منھ بولتا ثبوت تھے۔
آن کی آن میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔ لوگ ان کو ہسپتال منتقل کر رہے تھے۔
بے سرو سامان، ایمان کی دولت سمیٹے وہ بچوں کو لیے سڑک پہ اندھا دھند بھاگ رہی تھی۔اسے پناہ گزین کیمپ پہنچنا تھا۔
آج پھر اہلِ ایمان پر اپنے ایمان کو بچانے کے لیےکھف میں جا چھپنے کا وقت آگیا تھا۔ سائیں سائیں کرتے کان اور دھندلی بصارت کے ساتھ وہ بھاگتی جا رہی تھی۔زمین بھی خوف سے لرز رہی تھی یا کم ازکم اسے محسوس ہوئی تھی۔

زوردار دھماکے کے ساتھ سفید، گاڑھا دھواں آسمان کی طرف اٹھا تھا۔ بہت سے راز، تاریخ اور جانوں کا بوجھ لیے ثقیف، بوجھل دھواں…. اور ماں بچوں کو جدا کر گیا تھا۔ شوروغل، آہ و پکار اٹھی تھی۔
ملبے کے ڈھیر تلےکئی زندگیاں ابدی ہوگئیں تھیں اور کئی سسک رہی تھیں۔ آگ اور پانی چاہے اکٹھے نہیں ہوسکتے تھے لیکن آگ اور خون کو اکٹھے دیکھ کر آسمان بھی تھرّا اٹھا تھا۔ تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرا رہی تھی، پھر میدانِ کربلا سجا تھا… اور ہر چیز گواہ تھی چاہے خاندان سارا قربان کر دیا تھا لیکن فتح صرف حق کی ہی ہوئی تھی۔
*************************

میری…… میری بب….. بہن…..میری بہن…… چھے گھنٹے بعد ملبے کے ڈھیر تلے سے نکالا گیا ایک بچہ پاس سے گزرتی ایمبولینس کو دیکھ کر بمشکل چلّایا۔اس میں میری بہن کا ہاتھ تھا۔
جانے دو مجھے ےےےےے……
چھوڑوووو……… مٹی اور ریت سے اٹا، جس کی صرف آنکھیں اور ٹوٹے دانت ہی نظر آ رہے تھے.،خود کو ڈاکٹروں کے ہاتھوں سے چھڑاتے ہوئے چیخا تھا۔
میری دادی بھی لے گئے، میرے دادا بھی لے گئے، میرے بابا اور امی بھی……وہ لوگ میرے چچا اور ان کے بچے بھی….. میری بہن  بھی مار دیں گے۔
خدا کی قسم! میرا کوئی نہیں ہے، واللّٰه میرا کو نہیں ہے….. جانے دو مجھے میری بہن کے پاس ۔
کرلاتے ہوئے وہ بچہ ان کی بانہوں میں جھول گیا تھا۔
**********************

اب بھی ظلمات فروشوں کو گلہ ھےتجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ھے مسجدِ اقصٰی تیرا

زخمیوں کو Refuge camp میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔
صلاح الدین کا جسم پٹیوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ٹوٹ کر لٹکتی ٹانگ نوحہ کناں تھی۔دائیں آنکھ کو گویا نیلا رنگ کیا ہو، جو کھلنے سے انکاری تھی، پھٹے ہونٹ، سر کی پشت سے بہتے لال مائع کی دھاریں گریبان کو تر کر رہی تھیں۔پچکے گال کے ساتھ، صلاح الدین نے بائیں نیم وا آنکھ  سے اردگرد دیکھا اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا:
الحمدللّٰہ……. بڑا ہے اللّٰہ ہر دشمن اور ہر مشکل سے جو اسکے بندوں کو پہنچتی ہے۔
اس بچے کا ایمان دیکھ کر آس پاس بیٹھی عورتیں اور ڈاکٹر بھی رو پڑے تھے۔
نہیں کوئی شک اس بات میں کہ وہ اپنے بندوں پر انکی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اگر تو ملعون اسرائیلی اس قوم کے منھ پر مایوسی کے بادل دیکھنے کا خواہاں تھا تو وہ بری طرح شکست سے دوچار ہوا تھا۔ اس قوم کو کیسے ہرا سکتے تھے جس کے حوصلے ان کے قد سے بھی اونچے، چٹانوں کی طرح بلند تھے۔
*************************

دل و جان سے زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے ہوئے عمر اپنے گھر والوں کو بھی بھولا ہوا تھا۔ پناہ گزین کیمپ کے پاس ہی اس کا ددھیال آباد تھا۔ اس کے اپنے والدین بھی ادھر ہی رہائش پذیر تھے۔ ادھر ہی کا قصد کرتے ہوئے وہ نکلا تھا۔
تباہ شدہ، اجڑی گلیوں سے گزرتے ہوئے اس نے ہونٹوں کو تر کرنے کے لیے زبان پھیری لیکن بے سود۔ کندھے سے لٹکتے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی۔صد شکر کہ چند بوندیں ابھی بھی باقی تھیں۔ڈھکن کھول کر، نیچے بیٹھتے ہوئے جونہی بوتل کو اوپر کیا……….
اللّٰہ……… یا ربِّی……. آبِ کوثر… ہی… پلادیں… اب تو.. لگتا.. ہے..حلق میں… جھاڑیاں.. اگ.. آئی… ہیں۔
وہ تڑپ کر پلٹا۔ اس کے بائیں جانب زمین بوس ہوئی عمارت کے ملبے تلے وہ بچی جس کا سر باہر تھا، آنکھیں موندے آخری سانسیں لے رہی تھی۔
دانتوں پہ دانت جما کر اس نے خود کو چیخنے سے روکا تھا۔
*حَسْبُنَا للّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَكِيْل*….
اونچی آواز میں ورد کرتے ہوئے بچی کو نکال کر پانی کے چند قطرے اس کے منھ میں ٹپکائے۔
چند بوندیں بھی کسی آب حیات سے کم نہ تھیں لیکن وہ پاکیزہ روح اس دوغلی دنیا کو ٹھوکر مار کر امر ہو چلی۔
جنت میں جانے کے لیے دوزخ پر سے گزرنا پڑتا ہے، وہ ننھے بچے سلسبیل پہ مل بیٹھنے کو،آگ اور خون کا دریا پار کر تے آسمانوں کی طرف محو پرواز تھے۔
************************

مجھے ڈبوئے گا کیا ناامیدی کا بحر
بہت وسیع میرے یقین کا احاطہ ہے

امی جان…… اماں.. جب یہ بمباری ہوتی ہے زیادہ درد تو نہیں ہوتا نا! روح جلدی اپنی منزل پا لیتی ہے نا؟
عزۃ کے سوال سے ہالہ کانپ اٹھی تھی۔ زخمی حالت میں پڑی بچی جو پاس سے گزرتے ہوئے ہی دھماکےسے بری طرح متاثر ہوئی تھی، اب یہ سوال کر رہی تھی ۔
نن…نہیں…… حلق میں آنسوؤں کا گولہ اٹکا تھا، بہ دقت سر کو نفی میں ہلاتے ہوئے بولی۔
پہلے مجھے حضرت عزرائیل سے بہت ڈر لگتا تھا، جو روح کو جسم اور اپنوں سے جدا کردیتے ہیں لیکن اب پتا کیا ہے ؟ اس چھوٹی سی کلی نے باری باری ماں اور بھائی کو دیکھا۔
وہ بھائی جو تاریک کمرے میں بھی اسے روزن ڈھونڈ دیتا تھا آج خاموش بیٹھا تھا۔ وہ ایسا باتونی طوطا تھا جو سوتے میں بھی بولتا تھا، ظالموں نے اس کے نرم و گداز گالوں پہ بے رحمیاور بے بے حسی کا ایسا تھپڑ رسید کیا تھا کہ وہ رونا بھی بھول گیا تھا۔
اب….. اب مجھے عزرائیل علیہ السلام سے الفت محسوس ہونے لگی ہے، وہ تو ہمیں اذیت زدہ تاریک جنگل سے نکال کر روشنی کے میناروں کی طرف پرواز کرواتے ہیں۔ بچپن میں پچپن کی باتیں اسے عمر کی پختگی نے نہیں بلکہ حالات نے سکھائی تھیں ۔وہ بچی کے روپ میں بوڑھی عورت لگ رہی تھی۔
وہ تو ہمیں اپنوں سے ملواتے ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کبھی نہ بچھڑنے کے لیے۔جب روح تجربات و مشاہدات کی بھٹی میں بھن کر جسم سے پہلے ہی صدیوں کا سفر اوڑھ لے تو منھ سے باتیں پھر غیر معمولی ہی نکلتی ہیں۔
ملعون اسرائیل اگر یہ سمجھتا تھا کہ وہ انکو خوف دلا کر فتح یاب ہو جائے گا تو وہ غلط تھا….. کیوں کہ خوف تب تک ہوتا ہے جب تک بتایا جائے، جب دکھایا جائے پھر وہ خوف نہیں طاقت بن جاتا ہے…. اور انھیں  تو خواب دیکھنے کی عمر میں ہی خوف دیکھایا گیا تھا۔ اندر کہیں ظالم بھی ان کے ایمان اور استقامت سے ڈگمگا گیا تھا اسی لیے خود کولڑکھڑاہٹ سے بچانے کے لیے ننھے اعضاء کو توڑ توڑ کر اپنی بیساکھی بنا رہا تھا۔ وہ تو بچوں سے بھی اتنا خوفزدہ تھا کہ چند دنوں کے پھول بھی مسل رہا تھا۔
پانی، گیس، بجلی ، انٹرنیٹ، کھانا غرض کسی بھی چیز کی کمی نے ان کے ایمان کو کم نہیں ہونے دیا تھا بلکہ بڑھایا ہی تھا کیوں کہ ان کی رگوں میں خدا کا کلام اور رسول اللّٰہ کا فرمان لہو بن کر دوڑتا تھا۔
************************

میں نے سب کچھ اللّٰہ کو بتا دیا ہے صلاح…. صلاح الدين…. سب کچھ صرف اسی کو…تم کہتے تھے نا کہ… اللّٰہ کو سن.. سناؤ.. اب سارا کچھ اسے ہی سنایا ہے…وہ بھی جو تمہیں نہیں سنا سکا…. کک.. کیوں کہ کوئی اور.. تھا ہی نہیں پاس سننے کو۔
اب.. اب تمہیں سناؤں.. گا، جنت میں….  زندگی کی آخری ہچکیاں لیتے ہوئے  اٹک اٹک کر بولتے ہوئے وہ کوئی اور نہیں بسیم خویلد ہی تھا۔ ظالموں کے بےرحم ظلم سے فلسطین کے پھول مرجھا گئے تھے لیکن ان کی خوشبو دوچند ہو گئی تھی۔
*******************

فضائی حملہ ہوا تھا اور آن کی آن میں ہزاروں جانیں لے اڑا تھا۔ وہ جو اپنے والدین کی خیریت کی خبر لینے آیا تھا۔ کھلے آسمان تلے بے سائباں کھڑا تھا۔
یاربی……….. مٹھیاں بھینچے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہارے جواری کی طرح آسمان کو دیکھتے ہوئے وہ اتنی زور سے چلایا تھا کہ گردن کی رگیں پھول کر خون رسنے کو بے تاب تھا۔ وہ اونچے قد کاٹھ کا مرد، اردگرد سے بے نیاز، ملبے کو ہٹاتے ہوئے ، بچوں کی طرح ہوش و خرد سے بیگانہ ہوتے، اپنے والدین کو پکا رہا تھا۔ بچوں اور عورتوں کی چیخوں میں، ایمبولینس کا ہارن خوفناک منظر بنا رہا تھا۔ زخمیوں کو ہسپتال شفٹ کیا جا رہا تھا ۔
اور عمر، پاگلوں کی طرح ہر اینٹ اور پتھر تلے اپنے پیاروں کو ڈھونڈ رہاتھا ۔ پیارے کہاں ملتے ،لعنتیوں نے نام و نشان نہ چھوڑا تھا۔ نقشہ ہی بگاڑ دیا تھا۔جنھوں نے بچپن میں گرنے سے بچانے کے لیے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا، آج انھی کے غم سے جوانی کی دہلیز پہ وہ پورے قد سے گرا تھا۔ ہوش آنے پہ وہ بھاگا تھا اپنے بچوں کی خبر لینے، اس کو تو وقت کے رزیل فرعونوں نے اتنا وقت بھی نہ دیا تھا کہ وہ گھڑی بھر کا سوگ ہی منا لیتا۔
پاگلوں کی طرح بھاگتے ہوئے وہ پناہ گزین کیمپ کھنگال رہا تھا۔ یا ربِّی……یا ربی… اور نہیں… اب اور نہیں….انہی الفاظ کی گردان کرتے، وہ گرتا پڑتا الشفاء ہسپتال پہنچا تھا۔
آخری… آخری امید کی کرن لیے کہ شاید وہ یہاں ہوں۔عجیب قیامت کا سا سماں تھا۔ فاسفورس کی لہسن جیسی تیز بُو ہر طرف پھیلی گلے گھونٹ رہی تھی۔ زخمیوں کا نظام تنفس تلپٹ ہورہا تھا، افعالِ اعضاء تھم چکے تھے۔
وہ بھاگتے ہوئے ایک ایک زخمی کے پاس جا رہا تھا۔ دور سے اسے ہر ایک میں عَزۃ اور صلاح الدین دکھ رہے تھے۔ آنکھوں سے سیلِ رواں گریبان کو بھگو رہا تھا۔
ویٹنگ روم میں داخل ہوتے ہی اس کی شل ٹانگوں میں جیسے بجلی سی بھر گئی تھی ۔ وہ سنہری ربن کسی اور کا نہیں عزۃ کا ہی تھا۔ عمر اور ہالہ کی عزۃ کا۔اک جست میں وہ اس تک پہنچا تھااور پھر….. پھر عزۃ کے دو حصوں میں بٹے منھ کے ٹکڑوں کو پکڑ کر جوڑتے ہوئے وہ اتنی زور سے چیخا  تھا کہ آسمان بھی اشک بار ہوگیا تھا، فرشتے بھی غمزدہ تھے اس کے غم میں۔ ظالموں نے اس کے جگر کے ٹکڑے کے، ٹکرے ٹکرے کر دیے تھے۔
آنسووں کو رگڑتے ہوئے اس نے عزۃ کے بازو کو اپنے ہاتھوں میں لینے کوشش کی تو وہ بھربھری مٹی کی طرح ہاتھ کی انگلیوں میں سے پھسلتے ہوئے ہسپتال کے فرش پر بکھر گیا۔
دیوانہ وار روتے ہوئے اس کی نظر صلاح الدین پہ پڑی تھی۔
وہ…… ہاں وہ صلاح الدين ہی تھا، خون کے تالاب میں لیٹا۔
اور… اور اس کی ٹانگیں…جلنے کی وجہ سے اتنی گل چکی تھیں کہ اوپری جلد ہی جھلس کے اتر گئی تھی۔بائیں ران کی ہڈی ٹوٹ کر گوشت کو چیرتے ہوئے اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔
وہ کس کس زخم پہ پھاہے رکھتا۔
کس کی لاش سے لپٹ کر روتا۔
اسکے دونوں پھول محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کی راہ تکتے ابدی نیند سو گئے تھے۔ اس محمد بن قاسم کی راہ جو ایک بہن کی پکار پہ سترہ سال کی عمر میں سندھ فتح کر آیا تھا، اس صلاح الدین ایوبی کا انتظار جس نے جب تک مسجد اقصٰی کو آزاد نہ کرا لیا چین سے نہ سوئے تھے۔
************************

تو ادھر ادھر کی بات نہ کر
یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا؟
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں
تیری رہبری کا سوال ہے

اڑتالیس گھنٹے ہو گئے تھے لیکن ہالہ کا کوئی اتا پتا نہ تھا۔ شاید ابھی اور امتحان باقی تھا۔ اڑتالیس گھنٹے بعد 18 لاوارث لاشوں کی شناخت کا اعلان کیا گیا تھا۔
وہ دیوانہ وار بھاگتا ہوا پہنچا تھا ۔ ماتھے سے پسینے کو جھٹکتے، خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیرتے اُس کی نظر  کفن میں لپٹی ہالہ پہ گئی تھی اور جیسے امید کا آخر ی جگنو بھی اپنی موت آپ ہی مر گیا تھا۔
ناراض تو نہیں ہو؟ تمھارے آخری وقت پہ میں ساتھ نہیں تھا….. وہ ہالہ کی لاش پر ہاتھ پھیرتے ہوئے عجیب دیوانہ وار بڑبڑایا۔
مم… میری مجبوری سمجھنا…… خدا کو شکایت نہ لگا دینا….. نہیں تو.. مشکل میں پڑجاؤں گا…..
تم پر سے توستر حوریں بھی قربان……. یاد رکھنا مجھے تم سے آج بھی محبت ہے…. کیا تمہیں بھی؟؟
بہتے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کیے بنا، سرگوشیانہ انداز میں کہتے ہوئے وہ مسکرایا تھا، اذیت بھرا…. اذیت.. اذیت بہت چھوٹا لفظ تھا، ایسی مسکراہٹ جسے بیان کرنے سے لغت بھی قاصر تھی۔
************************

بے شک آنکھ آنسو بہاتی ہے۔
اوردل غمگیں ہے۔
مگر ہم زبان سے وہی بات نکالیں گے۔
جس سے ہمارا خدا راضی ہو۔
اپنا سارا خاندان، دوست احباب، رشتے دار کھونے کے بعد زخمی حالت میں، ہسپتال میں کئی دنوں سے؛ بےہوش پڑا خود سے بھی لاعلم تھا۔
لیکن اس مردِمجاہد کی زباں، شکوہ کی بجائے شکر سے ہی تر تھی۔
لاعلمی سے زیادہ آگاہی جان لیوا تھی… خود آگاہی… اپنی ذات کی آشنائی۔
خود شناسی کا سفر اتنا ہی کٹھن ہوتا ہے جیسے دودھاری تلوار پہ آبلے زدہ ننگے پاؤں چلنا ہو… اور روح چھلنی ہو رہی ہو۔.
ہاں وہ خود کو پہچان گیا تھا…… وہ عمر…تھا شاید…. ہاں وہ عمر ہی تھا۔ایثار سے گندھا عمر….. صبرو استقامت میں لپٹی ہالہ کا عمر۔

🇵🇸 🇵🇸 🇵🇸  🇵🇸  🇵🇸 🇵🇸






Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *