Complete Article 

 Abdul Ahad

Article :  Ahbak ya arzi

Writer:    Abdul Ahad

status: complete

Instagram: @abdulahad._.official

آرٹیکل

أحبک یا ارضی
بقلم عبدالاحد


پیش لفظ
أحبک یا ارضی- جس کا معنی ہے : مجھے محبت ہے اپنی زمین سے۔ 
اس کہانی کو لکھنے کا خیال آج نہیں آیا تھا۔ یہ خیال عرصے پہلے آیا تھا۔ لیکن بس ایک خیال تھا۔ اس کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا۔ لیکن اب غزہ اور فلسطین میں مظالم دیکھ کر میں نے تہیہ کرلیا کہ میں نے کچھ لکھنا تھا۔ مگر کیا؟ 
اب اس کیا کا جواب، میرے پاس نہ تھا۔ 
لیکن بیٹھے بیٹھائے، میرے ذہن میں بس دو کردار آئے۔ خدیجہ اور خالد۔ اور بس۔ میں نے پہل کی۔ ایک جنین میں رہتا ہے تو دوسرا غزہ میں۔ اب یہاں میں ان کہانیوں کو ایک کیسے کرتا؟ مجھے معلوم نہ تھا۔ مگر دل سے ایک آواز آرہی تھی، کہ سب ہوجائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ 
میں نے لکھنا شروع کیا، اور اللہ نے مجھے سبب دیا۔ اللہ نے مجھے مواد دیا۔اللہ نے مجھے وہ سب کچھ دیا جو اس نے چاہا تھا۔ اور میں نے اس کا استعمال کرتے ہوئے ایک کہانی پرودی۔ 
اس کہانی میں، افسوس کہ میں سب کچھ رقم نہیں کرسکتا۔ لیکن ایک مختصر حصہ رقم ضرور کیا ہے۔ اور امید ہے کہ اس کہانی کے ذریعے آپ سب تک بیت المقدس کی اہمیت کو باور کروا سکوں۔ کاش ہم سب ہی، خدیجہ اور خالد جتنی عقیدت اپنے دلوں میں رکھیں۔ اگر آپ کو یہ کہانی پسند آئے تو مجھے اپنی رائے سے آگاہ ضرور کیجیے گا۔ 
آپ کا اپنا لکھاری
عبدالاحد


باب اول: قربانیوں  کی زمین

جنین – مقبوضہ فلسطین
سورج کی کرنیں اس شہر پر نچھاور ہورہی تھیں، جسے جنین کہا جاتا ہے۔ 
جنین، جو کسی زمانے میں اپنے شاد و شاداب باغات اور زرخیز زمین کی بدولت جانا جاتا تھا۔افسوس! آج ایک غاصب کی نذر ہوچکا تھا۔ 
وہ شہر جہاں کبھی زیتون کے درخت ہوا سے لہراتے تو فضا میں سہانا گیت گونج اٹھتا، وہ شہر جہاں چرند پرند بھریریاں بھرتے، آزادی کا جشن مناتے، اب گولیوں  کی  زد میں جکڑا ہوا تھا۔  
شہر ِ جنین کی ایک گلی کا رُخ کرو، تو تمہیں ایک جوان آدمی چبوترے پر بیٹھا دکھائی دے گا۔
اس کی سرمئی آنکھیں ہر احساس سے عاری ،اور سڑک پر ایک غیر مرئی نقطے پر مرتکب تھیں۔ اس کے ذہن کے  خانوں میں ماضی کی ایک یاد جگمگا رہی تھی۔ 
(” میرا نام خالد ہے۔ اور میں ایک عام آدمی ہوں۔ وہ عام آدمی جس کی عام خواہشات تھیں۔ ایک بیوی، ایک خوبصورت خاندان، اور ایک آزاد زندگی۔ آزاد زندگی…… اس خواہش نے ہر خواہش کو غالب لیا ۔ یہ زمین ہماری ہے۔ دنیا ہمیں دھوکہ دے چکی ہے۔ اس کی حفاظت اب ہمیں خود کرنی ہے۔“)
اس منظر میں  وہ ایک بچہ تھا۔ 
چھوٹا بچہ۔
کھلکھلاتا  ہوا ایک بچہ۔
نہ واقف خطرے سے، جو اس کے سر پر منڈلا رہا تھا۔ 
ان سرمئی آنکھوں میں چمک تھی۔ وہ شوخ و چنچل تھیں۔ وہ جیتی جاگتی آنکھیں تھیں، جو چاند سی رونق اپنے اندر سمائے ہوئے تھیں۔ 
مگر غاصب کے چیلے، اپنی بندوقوں سے اسی بچے کا نشانہ باندھے  ہوئے تھے۔ 
اس کی ان پر نظر پڑی تو وہ ساکت ہوگیا۔ سرمئی آنکھیں خوف سے پھیلیں۔ 
چیلوں کی بندوق کسی وقت بھی اس معصوم بچے کو چھلنی چھلنی کر سکتی تھی۔ 
(” ظلم و بربریت اس زمین کی ہر گلی سے چھو کر گزرا ہے۔ جنین کے ذرے ذرے میں شہداء کے خون کی آمیزش ہے۔ یہ زمین قربانیوں کی زمین بن چکی ہے۔ یہاں پیداہونے والا بچہ، آذان کے بعد سب سے پہلی آواز گولیوں کی سنتا ہے۔ میں نے بھی سنی تھیں۔ ہر لمحے، ہر گھڑی۔ “)
لیکن اگلے لمحے، ایک نقاب پوش مرد ، ہاتھ میں بندوق تھامے اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔ خالد نے بھوکلاہٹ کے عالم میں دو قدم پیچھے ہی بڑھائے تھے کے گولی کی زور دار آوازیں اس کے کانوں سے ٹکرائیں۔ اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے اس مرد کے سینے میں گولی اترتے دیکھی تھی۔ اپنے چہرے پر اس کے گرم خون کے چھینٹے محسوس کیے تھے۔ 
اس نے کپکپاتے وجود کے ساتھ گردن آس پاس گھمائی۔ چھتوں پر کھڑے نقاب پوش مرد غاصب کے چیلوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔  
چھوٹا بچہ بھول گیا تھا کہ بھاگا کیسے جاتا ہے۔  
دفعتاً ایک مضبوط ہاتھ نے اسے اپنی طرف دبوچا، اور اسے گود میں پکڑ کر بھاگنے لگا۔  
(” میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے انہیں قتل ہوتے دیکھا ہے۔میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ان کا خون بہتے دیکھا ہے۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے بہت سو کی قبریں کھودی ہیں۔ میں نے سب دیکھا ہے۔اور سب دیکھ کر ہی تو میں اپنے سینے میں آگ  پال کر بڑا ہوا۔“)
نقاب پوش مرد نے اسے ایک گلی میں اتارا۔ خالد نے اپنی سرمئی آنکھیں اس کی شہد رنگ آنکھوں میں گاڑیں۔ شہد رنگ آنکھیں مرجھائیں۔ وہ بچہ کسی گہرے صدمے کے زیر اثر لگ رہا تھا۔ 
نقاب پوش مرد نے اس کے سر پر نرمی سے ہاتھ رکھا۔ مگر وہ بچہ کپکپاتا گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہی منظر رواں تھا جب خون کے چھینٹوں کا اس کے چہرے پر چھڑکاؤ ہوا تھا۔  اب کہ نقاب پوش مرد جا چکا تھا۔ 
سورج غروب ہو چکا تھا۔ خالد گھنٹوں اس بند گلی میں بیٹھا رہا۔ آخر کار اس نے اٹھنے کا ارادہ کیا۔ گولیوں کی آواز گھنٹوں پہلے رک چکی تھی۔ وہ باہر آیا تو سڑک پر اسے ایک آدمی  نظر آیا۔ 
وہ وہی آدمی تھا جس نے اس کی جان بچائی تھی۔ خالد نے اسے اس کی شہد رنگ آنکھوں سے پہچانا تھا۔ 
فقط اب ان آنکھوں میں جان نہ تھیں۔ وہ بے سدھ تھیں۔ جسم سے بھی حرارت نکل چکی تھی اور وہ بے جان اس سڑک پر پڑا ہوا تھا۔ 
(” کیا دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ہم خوشی سے اس اسلحے  کو تھام رہے ہیں؟ کیا دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی تھا؟ جب کوئی مدد کے لیے نہ آئے تو اپنی مدد خود کرنی پڑتی ہے۔ ہم بھی تو یہی کر رہے ہیں۔“)
رات اتر چکی تھی۔ 
حال کے خالد کی آنکھوں سے وہ منظر چھٹا ۔ 
وہ گلی کے اسی حصے کو تک رہا تھا،  جہاں اس نقاب پوش مجاہد کو اس نے آخری مرتبہ دیکھا تھا۔ 
دفعتاً اس کے کانوں سے قدموں کی چاپ ٹکرائی تو وہ ہوش میں آکر کھڑا ہوا۔ 
اس نے مڑ کر دیکھا، وہ اس کا ایک ساتھی تھا او راسی کی طرح نقاب پوش تھا۔ ساتھی نے خالد کو ایک بندوق تھمائی۔  
رات میں پہرا دینے کا وقت ہوا چلا تھا۔ 
(” ہم دہشت گرد نہیں۔ ہم بس اپنی زمین کو بچا رہے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں چھوڑا گیا۔ ہاں ہم میں سے روز کوئی شہید ہوتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہم سب ہی شہادت کے لیے تیار ہیں۔ کیونکہ ہم میں، اور ایک لاش میں صرف یہی فرق ہے کہ ہم سانسیں لے سکتے ہیں!“)
اس کا ساتھی گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا، جب کہ وہ اس کے برابر میں بیٹھا صورتحال کا جائزہ لے رہا تھا۔ پچھلی نشست پر بھی دو ساتھی براجمان تھے جو باقائدگی سے جانچ پڑتال کر رہے تھے۔ ان کی عقاب جیسی  نظریں ماحول میں کچھ غیر معمولی تلاش کر رہی تھیں۔ 
دفعتاًان کی نظر غاصب کے چیلوں پر پڑ گئیں۔ وہ سب ہم آہنگ ہوکر گاڑی سے اترے۔   
یکدم جنین گولیوں کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ 
تکلیف دہ سسکیو ں سے اس کی گلی  سرشار ہوئی۔ 
آج رات ایک بار پھر  اس شہر کی سڑکیں خون سے رنگی جانے والی تھیں۔
دشمن کا نشانہ باندھتے، خالد نے بس یہی سوچا تھا کہ۔۔۔
کیا آج کی رات وہ بچے گایا نہیں؟
٭٭٭
باب دوم: ” شہرِ شہداء“

غزہ – مقبوضہ فلسطین
وہ شہر تھا سہانا سا۔ 
جس کا ایک خوبصورت ساحل تھا۔
جس کی شامیں حسین ہوتی تھیں۔
جس کی فضا پرسکون ہوتی تھی۔ 
وہ شہرِ غزہ تھا۔ 
جو کہ اب کھنڈرات کا ڈھیر ہے بن چکا۔
جو شہرِ شہداء بن چکا۔ 
اس کی آنکھ کھلی تو دھندلے منظر نے اس کا استقبال کیا۔ وہ دنوں سے سو نہ پائی تھی۔ سر تو درد سے پھٹنے کو تھا۔ 
یکبارگی روتے بچے کی آواز نے اس کے حواس چوکننا کیے۔ اس کی آنکھیں باقاعدگی سے کھلیں اور وہ کرنٹ کھانے والے انداز میں کھڑی ہوئی۔  
ڈاکٹر راشد نے اسے جاگتے دیکھا تو، چہرے پر افسوس لیے اس کی جانب بڑھے۔ 
” خدیجہ۔ ریسٹ کر  لو۔“ انہوں نے اس کے کندھوں پر نرمی سے ہاتھ رکھا۔  
جواباً، انہیں سادگے سے دیکھتے وہ زخمی سا مسکرائی۔  
” وہ لوگ اپنی بمباری نہیں  روک رہے۔ تو میں کیسے رک سکتی ہوں؟“ 
جواب نے ڈاکٹر راشد کے کندھے شل کر دیے تھے۔ 
وہ اب اس بچے کی چیخوں کا تعاقب کر رہی تھی۔  
(” میرا نام خدیجہ ہے اور میں ہمیشہ سے ایک ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھتی تھی۔ اپنے خوابوں کی تعبیر  کرنے کے لیے میں مصر بھی گئی۔ میں نے وہاں جا کر  طب پڑھی۔ میرے پاس موقع تھا، میں چاہتی تو وہیں رہ جاتی۔ ایک اچھی زندگی بسر کرتی۔ اپنے والدین کو بھی بلا لیتی۔ لیکن کیا ہے، میں نے اپنی زمین سے وعدہ وفا کیا تھا۔ وہی نبھانے میں واپس آئی۔“)
وہ بچہ  نہیں بچ سکا تھا۔ وہ لوگ اس کے زخموں کو بھرنے  میں کامیاب نہ ہوئے تھے۔  
خدیجہ نے گہری سانس خارج کی اور اس بچے کا سر ایک چادر سے ڈھک دیا۔  
” اللہ کے حوالے۔“ وہ زیر لب بڑبڑائی۔ 
اس کے مقابل ایک لڑکی کھڑی تھی، جو آنکھوں میں دہشت لیے اس بچے کو دیکھ رہی تھی۔  
(” مجھے اپنے کام سے محبت ہوگئی تھی۔ جب لوگوں کا علاج کر کے انہیں بہتری کی جانب قدم بڑھاتے دیکھتی تو ایک الگ سی خوشی نصیب ہوتی تھی، جسے لفظوں میں بیان کیا نہیں جا سکتا۔ مگر کیا معلوم تھا وہ وقت آئے گا کہ ایک کے بعد ایک مریض کو سفید چادر سے ڈھکوں گی۔ میں ترس گئی ہوں کسی کو بتانے کے لیے، کہ تم بھی صحتیاب ہو سکتے ہو۔ کیونکہ یہی حقیقت ہے، غزہ میں کوئی محفوظ نہیں۔ کسی کی زندگی یقینی نہیں۔“)
”مجھے ڈر لگ رہا ہے۔“ سامنے کھڑی لڑکی کسی حصار کے زیر اثر بولی تو خدیجہ نے بھنویں سکیڑیں۔
” کیوں فرح؟“ اس کی آواز میں تشویش تھی۔ 
فرح نے آنکھیں اٹھائیں تو خدیجہ کو  ان میں بے پناہ کرب نظر آیا۔  
” مجھے ڈر لگتا ہے کہ۔۔۔“ آنسو اس لڑکی کی آنکھوں کی سمت بہنے لگے تھے۔ ” کسی دن میرا بھائی بھی ایسے زخم لے کر ہسپتال آئے گا۔“ 
وہ کہہ کر کمرے سے نکل گئی۔ خدیجہ نے اس کا تعاقب کیا۔ 
فرح ہسپتال کے باہر،  ایک درخت کے سائے کے نیچے بیٹھ گئی تھی۔ 
وہ کچھ دیر، آنکھوں میں رنج لیے اسے دیکھتی گئی، پھر کچھ سوچ کر اس کے برابر میں بیٹھ گئی۔  
” میں نے کبھی یہ نہیں مانگا تھا خدیجہ۔“ جب فرح نے اپنے قریب  اس لڑکی کی موجودگی کو محسوس کیا تو وہ پھٹ پڑی۔ 
خدیجہ نے چہرے پر تسلی بخش مسکراہٹ سجانا چاہی، لیکن وہ چاہ کر بھی ایسا نہ کر سکی۔ مسکرانا کیسا ہوتا ہے، وہ عرصے سے بھول بیٹھی تھی۔ 
” کسی نے نہیں مانگا تھا فرح۔ مگر اللہ نے ہمیں چنا۔ اللہ نے شہادت کے لیے ہمارے لوگوں کو چنا فرح۔“ وہ لگن سے بولی۔ 
” کیا کبھی یہ ختم نہیں ہوگا خدیجہ؟“ گرمہ گرم آنسو اس کی آنکھوں سے روانہ تھے۔  
خدیجہ خاموش رہی۔ 
” ہوگا۔ ہماری فتح پر۔ یا ہماری شہادت پر۔“ وہ ایک جست سے بولی تو فرح کے آنسو خشک ہوئے۔ دل میں ایک آگ سی  بھڑک گئی تھی۔ 
” اب کھڑی ہو جاؤ۔ ہمارے لوگوں کو ہماری ضرورت ہے۔“ وہ گردن اکڑا کر کھڑی ہوئی تھی۔ 
فرح نے مڑ  کر اس لڑکی کو دیکھا ۔ اس لڑکی کی آنکھیں ہمیشہ ہی مطمئن کیوں ہوتی تھیں؟ اسے تعجب  ہونے لگا۔  
(” لیکن ہم نہیں ہارتے۔ ہم واقعی نہیں ہارتے۔ وہ ہماری عمارتیں گراتے ہیں، ہم ہر اس عمارت  میں سے چھان چھان کر اپنے لوگوں کو بچاتے ہیں۔ وہ ہمارے پاس زخمی بچے بھیجتے ہیں، ہم دن رات ایک کر کے انہیں بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خدارا ہم نہیں ہارتے۔“)
وہ دونوں کچھ دیر آرام کے غرض سے ایک بینچ پر بیٹھیں۔ خدیجہ کے جسم کا انچ انچ درد سے کراہ رہا تھا۔ 
” کیا میں تم سے ایک سوال پوچھ سکتی ہوں؟“ فرح جھجک کے ساتھ بولی۔ 
خدیجہ مسکرائی۔ اس نے مڑ کر اس لڑکی کو دیکھا۔ وہ ڈھیلی ہو کر بینچ پر لیٹی ہوئی تھی۔ 
” تم اتنی مطمئن کیسے رہ لیتی ہو؟“ سوال پر خدیجہ کی سیاہ  آنکھیں جیسے بے جان ہوئیں۔ دل کی گہرائیوں میں کچھ کرچی سا ہوا۔ 
” مجھے۔“ اس کی آواز حلق میں اٹکی۔ ” مجھے کسی نے دعا دی تھی۔“ وہ کہہ کر مڑ گئی۔ شاید وہ مزید کوئی بات نہ کرنا چاہتی تھی۔ 
(” وہ ہمیں ڈرانا چاہتے ہیں۔ ہمیں خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر کس سے؟ ہمارے گھر والوں کو تو وہ مار دیتے ہیں۔ اور موت ہمارے لیے ویسے ہی رہائی ہے۔ پھر ہم کیوں ڈریں؟“ )
کچھ دیر کے لیے اس کی آنکھ لگی ہی تھی کہ وہ ایک برے خواب سے جاگی۔ اس نے اٹھ کر سینے  پر  ہاتھ رکھا۔ اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک چین نکالی۔ اس چین میں فلسطین کا نقشہ بنا ہوا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر آسودگی سے مسکرائی  اور اسے سینے سے لگایا۔   
لیکن دل میں عجیب و غریب وسوسے جنم لے رہے تھے۔ اسے گھبراہٹ نے اپنی لپیٹ میں لیا۔ اگلے لمحے وہ کھڑی ہوئی  اور سر راشد کو ہسپتال میں تلاش کرنے لگی۔  
” سر۔ میں گھر جا سکتی ہوں؟ میری طبیعت ٹھیک نہیں۔“ انہیں ایک وارڈ میں دریافت کرتے ساتھ ہی بول اٹھی۔
انہوں نے ایک نظر اسے دیکھا۔ حال واقعی قابلِ افسوس لگتا تھا۔ 
” ٹھیک ہے۔ جاؤ۔“ وہ کہہ کر مصروف ہوگئے۔ خدیجہ تیزی سے ہسپتال سے نکل گئی۔ 
(” غزہ کے بچے بچے کے دل میں ایمان کی حرارت ہے۔ ہمارے دلوں میں  قرآن ہے۔ ہماری زبان پر صرف خدا ہے۔ کیا خدا کے بندے بھی ہرائے جا سکتے ہیں؟“)
” مجھے ڈر لگتا ہے کہ کسی دن میرا بھائی بھی ایسے زخم لے کر ہسپتال آئے گا۔“
گھر کے باہر گاڑی روکتے ہی اس جملے نے اس کے ذہن کے خانوں میں دستک دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ اندھیرے میں ڈوبی گلی میں اسے اپنا گھر نظر آیا تو اس نے شکر کا کلمہ پڑھا۔ 
اس نے گھر میں قدم رکھتے ہی ایک گہری سانس اپنے اندر اتاری۔ اب کہ گھر کافی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، مگر گھر پھر  بھی وہ پرسکون محسوس کر رہی ہے۔ 
اس کی والدہ اس کی آہٹ پر کمرے سے باہر نکلیں۔ ان کے ہاتھ میں فلیش لائیٹ تھی۔ 
اس نے اس مدھم سی روشنی میں ان کا چہرہ دیکھا تھا جس میں یکدم تر و تازگی پھیل گئی تھی۔ 
وہ ساکت انہیں دیکھتی گئی۔ جب کہ وہ اس کے مقابل کھڑے ہوکر اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔ 
” ایک ہفتہ۔ ایک ہفتے بعد تمہیں دیکھ رہی ہوں۔“ وہ نرمی سے بولیں۔ 
اس نے آنکھیں بند کر کے اس نرم و ملائم لمس کو کچھ دیر محسوس کیا۔ دل کو مسرت نے گھیر لیا تھا۔ اسے خود بھی اندازہ نہ تھا کہ اسے  اس لمس کی کس قدر ضرورت تھی۔ 
” سب کہاں ہے؟“ اس نے آنکھیں کھول کر پوچھا۔ 
” سو رہے ہیں۔“ انہوں نے مدھم آواز میں جواب دیا۔  
” تم اوپر جا کر آرام کر لو۔ ہم سب اللہ کی امان میں ہے۔“ وہ اس کی تھکی تھکی آنکھوں کو تکتے  ہوئے بولیں۔ 
خدیجہ نے سر اثبات میں ہلایا اور سیڑھیاں پھلانگتے، اوپر کی منزل پہنچ گئی۔ 
اس نے اپنے کمرے میں چاروں اور نظر دوڑائی۔ کمرے کا منظر دل کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ دیواریں جو کبھی رنگین ہوتی تھیں، اب سیاہ تھیں۔ جس کمرے میں اس کے  پرفیوم کی مہک سمائی ہوتی تھی، آج وہاں صرف بارود کی کڑوی مہک تھی۔ 
وہ زمین پر بچھے بستر پر لیٹ گئی۔ وہ خوش نصیب تھی۔ کم سے کم، اس کا گھر تو صحیح سلامت تھا۔ باقی تو اس نعمت سے بھی محروم تھے۔ اس نے شکر کا کلمہ ادا کرتے آنکھیں بند کر لیں اور اسے پتہ بھی نہ چلا کب وہ غنودگی اس پر طاری ہوئی اور وہ نیند کی وادیوں میں ڈوبتی  چلی گئی۔ 
ایک زور دار دھماکے سے اس کی آنکھ کھلی تھی۔ 
وہ گہری سانسیں لیتے بیٹھی۔ اس نے برابر پڑے موبائل میں وقت دیکھا۔ ابھی صرف چار ہی بجے تھے، اس نے تہجد پڑھنے کا ارادہ کیا۔
تب ہی خدیجہ کو زمین کے کپکپانے کا احساس ہوا۔ اس کی آنکھیں خوف سے پھیلیں۔ اس نے چھت کو دیکھا تو وہا ں دڑاڑیں پڑنے  لگی تھیں۔ خدیجہ کا سانس اتھل پتھل ہونے لگا۔ سر بری طرح چکرایا۔ جسم سے جیسے توانائی نکلنے لگی تھی۔ 
تب ہی اس کے پیر پر ملبہ آکر گرا۔ وہ زور سے چلائی۔ اس کے اعصاب مفلوج ہونے لگے تھے۔ 
وہ خود کو زمین کی گہرائیوں میں جاتا محسوس کر رہی تھی۔ 
دفعتاً اس کے ذہن نے اس کا ساتھ چھوڑا اور وہ اپنا ہوش کھو بیٹھی۔ 
٭٭٭









باب سوم : ” سرمئی آنکھیں“

اس کے کانوں میں کسی مشین کی آواز داخل ہوئی۔ 
دماغ آہستہ آہستہ بیدار ہوا۔ 
اس نے ٹانگیں ہلانا چاہیں ، لیکن اسے جیسے اپنی ٹانگیں محسوس نہ ہوئیں۔ 
اس نے ہاتھ ہلانا چاہے تو انہیں جیسے کسی شے نے روک دیا۔ 
اور جوں ہی خدیجہ کو یاد آیا کہ گزشتہ رات اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ 
اس کی آنکھیں کھلیں۔ 
آنکھوں کے سامنے اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ 
سانس گھٹ رہی تھی۔ 
وہ رورہی تھی۔
سسکیاں لے رہی تھی۔ 
وہ چلانا چاہتی تھی لیکن حلق نے ساتھ نہ دیا۔ 
اور اب بھی پہلا اور آخری خیال اپنے گھر والوں کا تھا۔ 
ایک بار پھر نے دماغ نے کام کرنا بند کیا۔ 
منظر دھندلایا۔ 
آنکھوں کے سامنے اندھیرا پھیلنے لگا۔ 
مگر اب۔۔۔
اب ان بند آنکھوں کے پیچھے ایک فلم چل رہی تھی۔ 
ایک چہرہ ان آنکھوں کے پیچھے اجاگر ہوا تھا۔ 
ایک سرمئی آنکھوں والا خوبصورت چہرا۔ 
جسے وہ کبھی بھلا ہی نہ پائی تھی۔  
٭٭٭









باب چہارم:  ” خود شناسائی“

رفہ – مصر
چند سال پہلے۔۔۔
یہ تب کی بات ہے جب اس کی میڈیکل کی پڑھائی مکمل ہوچکی تھی۔ اور اب وہ رفہ کے ایک ہسپتال میں سال بھر کے لیے ہاؤس جاب کررہی تھی۔ 
اس دن وہ بادلوں کو دیکھ رہی تھی۔ اسے بارش کا انتظار تھا۔ بارش یہاں ہوتی ہی نہ تھی۔ کاش آج ہوجاتی۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں پڑھنے لگی۔ اور یکدم بارش کی ایک بوند اس کی ناک کی نوک سے  ٹکرائی۔ وہ کھل کر مسکرائی۔ 
” ڈاکٹر خدیجہ۔ روم نمبر بیس میں جائیں۔کوئی غنڈا موالی آیا ہے ٹانگ تڑواکر۔“ ایک حقارت آمیز آواز اسے سنائی دی۔ 
بھاری بھرکم  مصری ڈاکٹر جمیلہ اسے گھوری سے نواز رہی تھیں۔ 
اس نے فوری طو ر پر مسکراہٹ سمیٹی۔ وہ بے چاری تو بارش کی خوشی بھی نہ منا سکی تھی۔ 
” یس میم۔“ کہتے وہ روم  نمبر بیس کی جانب چلی گئی۔ 
کمرے کے  باہر ہی اسے چیخوں کی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے گہری سانسیں لے کر خود کو تیار کیا، اور دروازہ کھولا۔
تقریباً بائیس سالہ آدمی وہاں لیٹا درد سے کراہ رہا تھا۔ اس کی ٹانگ خون آلود اور ٹیڑھی تھی۔ اس کی سرمئی آنکھیں درد سے بلک رہی تھیں۔ وہ دبی دبی آواز میں عربی گالیاں بھی نکال رہا تھا۔ 
نرس نے اس لڑکی کو آتے دیکھا تو ان کی آنکھوں میں امید اجاگر ہوئی، جیسے وہ اس بے چاری سے کہنا چاہ رہی ہوں: ” اب آپ ہی سنبھالیں انہیں۔“
” میں دیکھتی ہوں۔“ ان کی منت طلب  آنکھیں دیکھتے ہی بول اٹھی۔ 
نرس پرسکون آہ خارج کرتے ،پیچھے ہوئیں۔
اس نے اس کی ٹانگ کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس آدمی کی چیخیں مزید بلند ہوئیں۔ 
” اوئی۔ اوئی۔ “وہ باقاعدگی  سے کپکپارہا تھا۔ 
” مسٹر۔“ وہ اونچی آواز میں بولی۔ پھر نرس کو دیکھا جیسے نام پوچھنا چاہ رہی ہو۔
” خالد۔“ نرس نے جواب دیا۔
” اوکے۔ مسٹر خالد۔ مجھے آپ دیکھنے نہیں دیں گے تو میں آپ کی کیسے مدد کروں گی؟“ اس نے کرخت آواز، لیکن نرم انداز میں کہا۔ 
خالد نے کچھ دیر جبر کرتے، چیخنے سے   خود کو باز رکھا۔ 
لیکن خدیجہ جب بھی اس کی ٹانگ کو حرکت میں لانے کی کوشش کرتی وہ چلا اٹھتا۔ خدیجہ نے گہری سانسیں خارج کیں۔  
” انہیں sedatives  دیں اور ایکس رے کروائیں۔ ہڈی ٹوٹی ہے۔“ اس نے سرسری انداز میں کہا۔ 
نرس فوری طور پر انجیکشنز تیار کرنے لگی، جیسے وہ اس احکام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بے تاب ہو۔ کچھ دیر بعد وہ لوگ،  بے ہوش خالد کا بیڈ گھسیٹتے ہوئے ایکس رے روم لے کر جارہے تھے۔ 
خدیجہ  کے چہرے پر افسوس ابھرا ۔ اتنے دنوں بعد تو بارش  نصیب ہوئی تھی، اور سب کام کی نذر ہوگئی۔ اف اللہ۔ 
اس نے خفگی سے میز پر دیکھا۔ وہاں ایک کارڈ رکھا ہوا تھا۔ اس کارڈ سے نظر ہٹا ہی رہی تھی کہ ایک لفظ پڑھ کر وہ پتھر بن گئی۔ 
” فلسطین۔“ 
اس نے وہ کارڈ اٹھایا۔ وہ جنین سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ بھی اسی کی طرح ایک فلسطینی تھا۔ 
یکدم دل میں جوش سا بھر گیا۔ اس نے مڑ کر دیکھا کہ کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا۔ پھر وہ کارڈ واپس اپنی جگہ پر رکھ دیا۔ 
٭٭٭
دو دن گزر گئے تھے۔ میڈم جمیلہ  نے اس کی ڈیوٹی خالد کے سر پر لگائی تھی۔ وہ نہایت کھڑوس  تھا۔ کسی نرس یا ڈاکٹر سے سنبھالا ہی نہ جاتا۔ اور پھر میڈم کا نئے ڈاکٹرز کو ٹارچر کرنے کا ایک الگ سا جنون تھا۔ بھیج دیا تھا خدیجہ کو اس کے پاس۔ 
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ زیادہ عرصہ دواؤں کے زیر اثر ہی رہتا تھا۔ ورنہ خدیجہ نے تو سر ہی پھاڑ لینا تھا۔ ہاں، جب اسے پتہ چلا تھا کہ وہ اسی کی زمین کا ایک آدمی تھا تو اسے خوشی بڑی ہوئی تھی، مگر خدارا اتنا بدتمیز آدمی اس نے زندگی میں  پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ 
اس وقت وہ جاگا ہوا تھا۔ اس کی ٹانگ کا آپریشن بھی ہو چکا تھا  اور  پین کلرز کے باعث درد محسوس نہ کرپارہا تھا۔ خدیجہ اس کی خیریت دریافت کرنے، اور کچھ ضروری چیک اپ کرنے کمرے میں آئی تھی۔  
وہ اسے عجیب نظروں سے دیکھتا، پھر گردن موڑ لیتا۔ 
” جھگڑا کیسے ہوا تھا؟ “ اس نے ماحول میں پھیلا تناؤ کم کرنا چاہا۔ 
خالد نے اپنی سرمئی آنکھوں میں جارحانہ تیور سجایا۔ 
” اپنے کام سے کام رکھو ڈاکٹر صاحبہ۔ میرے پاس سوچنے کو ویسے بھی بہت چیزیں ہیں جو ان دو کتوں کے بارے میں بات کر کے اپنا وقت ضائع کروں۔“ 
خدیجہ تو ساکت رہ گئی۔ وہ پلک جھپکاتے اسے دیکھتی گئی۔ کوئی اس قدر گرم دماغ کیسے۔۔۔
اوہو۔ اس نے سر جھٹکا۔ وہ تکلیف میں تھا۔ پریشان تھا۔ اسے جج نہیں کرنا چاہیے۔ 
” اوکے۔ تو چلو۔ تمہارے مسائل کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ مسٹر خالد، کیا چیزیں ستا رہی ہیں تمہیں؟“ اس کی  نبض چیک کرتے وہ نرمی سے بولی۔ 
خالد کو کوفت محسوس ہوئی۔ وہ شیریں لہجہ اسے پگھلائے میں کامیاب نہ ہوا۔ 
” آپ کے بس کی بات نہیں۔ رہنے دیں۔“
خدیجہ نے بمشکل ضبط کیا۔ 
” پھر بھی۔ بتا دو۔کہتے ہیں پریشانیاں شیئر کرنے سے کم ہوتی ہیں۔“ اس نے اس کی پٹی بدلنے کا مرحلہ شروع کیا۔ آنکھیں کام پہ  مرکوز تھیں، ہاتھ مہارت سے چل رہے تھے اور کان خالد کی جانب متوجہ تھے۔ 
خالد نے اب ایک گہرا سانس خارج کیا۔ 
” کل پرسوں تک آپ کا ہسپتال مجھے دھکے دے کر نکالے گا۔ میں کنگال آدمی ہوں۔ اس ٹوٹی ٹانگ کے ساتھ آپ کا قرض چکارہا ہوں گا۔ یہ ہے میرا مسئلہ۔“ وہ بدک کر بولا۔ ” کر سکتی ہیں کچھ؟“ اس نے تلخی سے اسے دیکھا۔ 
خدیجہ کی آنکھیں کچھ پل مرجھائیں۔ پٹی بدلنے کے بعد وہ اس کے برابر میں کھڑی ہوئی۔  
” ہاں۔ دعا کروں گی میں۔“ وہ مسکرائی تو  خالد الجھ گیا۔ ” میں جو اللہ سے مانگتی ہوں، اللہ مجھے دے دیتے ہیں۔ فوراً۔“ آنکھیں چمکیں۔ ان میں ایک مان سا ابھرا۔ 
خالد بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا۔ 
” واقعی؟“ وہ جیسے طنز کرنے لگا۔ 
” ہاں۔ میرا دل کہتا ہے۔ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ بہت آسانی سےحل ہو جائے گا۔“ 
خالد استہزاء سے ہنس دیا۔ 
” تو میں آپ کے دل پر بھروسہ کروں۔“ 
خدیجہ نے شگفتہ مسکراہٹ سجائی اور آنکھیں اس کی سرمئی آنکھوں میں گاڑیں۔ یہ پہلی مرتبہ تھا جب اس لڑکے نے اسے اتنا غور سے دیکھا تھا۔ 
”تم بس میرے اللہ پر بھروسہ رکھو۔“ وہ کہہ کر چلی گئی۔ 
خالد ششدر سا وہاں بیٹھا رہا۔ 
٭٭٭
اس دن اسے ہسپتال میں آنے کے لیے دیر ہوگئی تھی۔ وہ ہڑبڑی میں داخل ہوئی۔ منتیں کر کے اٹینڈنس لگوائی اور فوری طور پر روم نمبر بیس میں جا پہنچی۔ 
وہاں ایک الگ ہی منظر تھا۔ 
میڈم جمیلہ  کھڑی، خطرناک نگاہیں اس مریض پر گاڑے  ہوئی تھیں۔ 
” تمہارے کارڈ ٹرائی کر لیے ہیں۔ اب بتاؤ۔ ہمارے پاس کون سے آپشنز ہیں؟“ 
خدیجہ سست قدم بڑھاتے وہاں پہنچی۔ خالد نے ایک نظر اسے دیکھا۔ آنکھوں میں چبھن ابھری، اور چہرے پر کڑوی مسکراہٹ۔ خدیجہ جب کہ پرسکون رہی۔ اسے پرسکون دیکھ کر خالد کو کچھ عجیب سا لگا۔ 
” تم چلنے کے قابل نہیں لڑکے۔ تمہیں نکال نہیں سکتے۔ تم بتاؤ۔ کیا آپشنز ہیں؟“ میڈم کوفت کے عالم میں بولیں۔ 
” مجھے کسی سستے ہسپتال داخل کروادیں۔ یا میں آپ کو صحتیابی کے بعد ساری قیمت ادا کر دوں گا۔“ وہ شرمندگی سے بولا تھا۔ اسے اپنا آپ بہت حقیر محسوس ہورہا تھا۔ 
میڈم نے لب بھینچے۔ چہرے پر پرسوچ تاثر ابھرا۔ 
” آپ کیوں لیٹ ہیں محترمہ۔“ خطرناک  نگاہوں نے اس لڑکی کا تعاقب کیا جو یکدم پریشان ہوئی۔ 
” رات دیر سے سوئی تھی۔ “ 
” میرا مسئلہ نہیں۔“ کھا جانے والی نگاہیں خدیجہ کی آنکھوں میں ڈالیں تو اس نے نظریں جھکالیں۔ 
وہ منظر دیکھ کر، نہ جانے کیوں خالد خوش ہوا۔ کل جب اس نے اسے امید دلائی تو وہ واقعی مطمئن ہوا تھا۔ وہ دنوں بعد رات میں پرسکون نیند سویا تھا۔ اس نے مہینوں بعد اللہ کے اوپر بھروسہ کرنے کی سعی کی تھی۔ لیکن اس کی جھوٹی امید کی وجہ سےاب وہ پہلے سے بھی زیادہ بے چین اور پریشان تھا۔ 
میڈم  اب خالد کی جانب متوجہ ہوئیں۔ 
” لڑکے، تم نہیں جانتے کہ خرچہ کتنا زیادہ آنا ہے۔ تمہاری ٹانگ ٹوٹی ہے۔ تم چل نہیں سکتے۔ تمہیں ایک بار پھر سے چلنا سیکھنا ہوگا۔ تمہیں معلوم بھی ہے اس مرحلے میں کتنا وقت لگتا ہے؟“ 
وہ مزید کچھ کہنے ہی لگی تھیں کہ پیچھے سے ایک نرس نے انہیں پکارا۔ وہ سب چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔ 
اب وہ دونوں اس کمرے میں، دواؤں  کی سخت مہک کے درمیان اکیلے تھے۔ 
” کردی دل نے کچی؟“ وہ کڑوے لہجے میں بولا۔ 
” کیا مطلب؟“ خدیجہ معصومیت سے بولی۔ 
” کل تو بڑا کہہ رہی تھی تم کہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ بلکہ اب تو مسئلہ اور ہی بڑھ گیا۔“ وہ اس پر پھٹ پڑا۔ غلطی اس کی نہیں تھی، لیکن خالد کا دل ٹوٹا تھا۔ اس کی امید ٹوٹی تھی۔ وہ ذلیل ہونے کو تیار تھا۔ لیکن اس لڑکی نے اسے جھوٹی امید دی ، اس کے باجود بھی وہ مشکل میں مبتلا رہا۔  
” دیکھو مسٹر۔ مجھے میری دعا پر بھروسہ ہے۔ مجھے اللہ پر بھروسہ ہے۔ اور تم اب مزید مجھ سے ایسے بات نہیں کر سکتے۔ میں تمہیں اس کی اجازت نہیں دوں گی۔“ وہ بھی پھٹ پڑی تھی۔ وہ کسی بگڑے ہوئے، بد دماغ، کم عقل لڑکے کے ہاتھوں ذلت کا نشانہ نہیں بن سکتی تھی۔ مروت گئی بھاڑ میں!
خالد نے کوئی جواب تیار کیا ہی تھا کہ میڈم آگئیں۔ دونوں نے چہرے کے تاثرات بحال کیا۔ 
میڈم نے مشکوک نگاہیں خالد کے چہرے پر گاڑیں۔ 
” نہ جانے اللہ کو تم کتنے پیارے ہو۔ ایک آدمی آیا تھا۔ اس کی بیٹی کا آپریشن کامیاب ہوا تو خوشی میں کسی کا مفت اعلاج کروانا چاہا۔ تم ہی میرے پاس تھے، دے دیا نام۔ وہ تمہارا سارا خرچہ اٹھائے گا ۔“ وہ ہاتھ اٹھا اٹھا  کر کہتے کمرے سے  چلی گئیں۔  
خالد کو پہلے تو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ کچھ دیر بعد دماغ نے تصدیق کی تو اس کی آنکھیں شاک سے پھیلیں۔ یہ اس نے کیا سن لیا تھا؟ یہ سب کیسے ممکن تھا؟ اس نے شاکی نظریں اٹھا کر خدیجہ کو دیکھا، جو کہ چہرے پر پر اطمینان مسکراہٹ سجائے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ 
سرمئی آنکھیں اب نم ہونے لگیں۔  
” مجھے معاف کردیں۔“ کچھ دیر بعد وہ کسی ٹرانس کے زیر اثر بولا۔ 
” کر دیا۔“وہ چہکی اور قدم اس کی جانب بڑھانے لگی۔ 
” اب اللہ سے بھی معافی مانگ لو۔ اللہ سے بدگمان نہیں ہوتے۔ اسی نے تمہارے لیے راستے بنائے ہیں۔ اللہ کو دوست بنا لو، یقین مانو، ساری کلفت اتر جائے گی۔“ آخر میں ایک خوبصورت مسکراہٹ اس نے خالد کی طرف اچھالی۔  
اور اس مسکراہٹ پر نظر پڑتے ہی خالد کو لگا، جیسے ساری کلفت اتر ہی جائے گی۔  
٭٭٭
اسے یہاں آئے ہوئے ایک مہینہ بیت گیا تھا۔ وہ اپنی ٹانگ پر کھڑا نہ ہو پاتا تھا۔ ہاں تھوڑی بہتری آئی تھی اور   اب وہ انہیں حرکت میں لا پاتا تھا ۔ساتھ ساتھ،  اس کی physio therapy  بھی چل رہی تھی۔ 
شام کا سما تھا۔  آسمان پر ہلکے پھلکے بادلوں کا بسیرا تھا، اور آفتاب پورے زور سے مصر پر برس رہا تھا۔
وہ وہیل  چیئر کو تھامے اسے باہر لے کر آئی تھی۔ وہ عرصے سے اس کمرے میں بند تھا، جس کے باعث اس کی چڑچڑاہٹ انتہاء کو پہنچ گئی تھی۔  
” میں تو بھول ہی گیا تھا کہ کھلا آسمان کیسا ہوتا ہے۔“ وہ آسمان کو دیکھتے بولا۔ سرمئی آنکھیں مدت بعد چمکیں۔ ” فلسطین کا آسمان مصر سے کافی۔۔“وہ یکدم تھم گیا۔  آنکھوں کی چمک فنا ہوئی۔  
” بات مکمل کر سکتے ہو۔“ خدیجہ نرمی سے بولی۔ وہ اسے ایک درخت کے سائے میں لے آئی۔ 
” رہنے دیں۔“ اس نے کوفت کے عالم میں کہا۔ 
خدیجہ نے لب سکیڑے۔ آنکھوں میں سوال ابھرا۔ 
” کیوں؟ چلو، میں تمہاری بات مکمل کرتی ہوں۔“وہ سپاٹ لہجے میں بولی تو خالد نے سوالیہ نظریں اٹھا کر اس لڑکی کو دیکھا۔ 
” فلسطین کا آسمان اس سے مختلف ہوتا ہے۔ صاف ہوتا ہے اور  اس میں دھول کم ہوتی ہے۔ یہاں تو مٹی ہی اتنی ہے۔ آہ۔ میں تو بس اپنے دن گن رہی ہوں۔“ چمتکی ہوئی سیاہ آنکھیں، خالد کی بجھی ہوئی سرمئی آنکھوں سے جا ملیں۔  
اب کہ سرمئی آنکھوں میں الجھن اپنی انتہا کو تھی۔  
” کیا مطلب؟ “ وہ چونک گیا۔ ” تمہیں کیسے پتا؟“ 
خدیجہ ہنس دی۔ 
” انا دمی فلسطینی۔“ وہ شیریں لہجے میں بولی ۔ ” و أحبک یا عرضی!“ 
( میں فلسطینی ہوں اور مجھے اپنی زمین سے عشق ہے!“)
خالد سکتے میں آگیا۔ 
” کہاں سے ہو؟“ وہ پوچھے بغیر نہ رہ پایا۔ 
” غزۃ! ہمارا غزۃ۔ “ اس کی آواز میں جنون در آیا تھا۔ خالد نے اس لڑکی کو اتنا خوش پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ بہت عرصے بعد اپنی زمین کے نام نے اسے الجھن میں مبتلا  نہ کیا تھا۔ 
” اس زمین نے یقیناً آپ کو بہت زخم دیے ہوں گے۔“ وہ لہجے میں کاٹ لیے بولا۔ ” بہت درد دیے ہوں گے۔ آپ کے بہت سے اپنوں کو چھینا ہوگا۔ ہے نا؟“
خدیجہ سوال پر چونکی۔ 
” نہیں۔ بلکہ اس زمین کی خاطر میں نے بہت سی تکالیف جھیلی ہیں۔ شاید اسی لیے تو اتنی محبت ہے اس سے۔“ 
” ایسا بھی کیا ہے اس زمین میں؟“ ایک اجنبیت سی اس کی آواز میں در آئی تھی۔ 
خدیجہ کی آنکھوں کے گوشے نم ہونے لگے۔ 
” وہ زمین۔۔۔ یہ وہی زمین ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں مقدس قرار دیا ہے۔“ وہ ایسی عقیدت کے ساتھ بول رہی تھی کہ اس کا ایک ایک لفظ خالد کے دل کی گہرائیوں میں اتر رہا تھا۔ 
” یہ وہی زمین ہے جہاں صدیوں قبل، حضرت ابراہیم  نے آبادی قائم کی تھی خالد۔ “ 
درختوں پر بیٹھے پرندے خاموش ہوگئی۔ شاید وہ بھی اس لڑکی کی شیریں آواز میں اس زمین کے قصیدے سننا چاہتے تھے۔ 
” یہ وہی زمین ہے جس میں بیت المقدس قائم ہے۔ ہمارا قبلہ اول قائم ہے!“ 
خالد پلک جھپکانا بھول گیا تھا۔ کوئی اتنا پیارا کیسے بول سکتا تھا؟
” وہی بیت ال مقدس جہاں سے حضور ﷺنے  آسمانوں کا سفر طے کیا تھا۔ “ 
اس لڑکی کی اس محبت نے   اسے بے خود کر دیا تھا۔  
” میں کیونکر اس زمین سے محبت نہ کروں جس کا ذکر قرآن میں ہے؟ میں کیونکر اس کے لیے زخم نہ جھیلوں؟ میں کیونکر اس کے لیے قربانیاں نہ دوں؟ ہم فلسطینی  بیت المقدس کے رکھوالے ہیں۔ یہ اعزاز نہیں تو کیا ہے! “
وہ ٹھہری۔ 
خالد کی آنکھوں کے گوشے نم ہوئے۔۔۔
( ”میں کیونکر اس سے محبت نہ کروں؟“وہ آواز اس کے دماغ میں گردش کر رہی تھی۔)
اس کی سرمئی آنکھوں کے پردے پر ماضی کا ایک منظر اجاگر ہوا۔ وہی منظر جب اسے ایک نقاب پوش  مجاہد نے بچایا تھا۔ رات گئے وہ گلی سے نکلا تھا۔ اس نے وہاں اس کی لاش دیکھی تھی۔ 
(” میں کیونکر اس کے لیے زخم نہ جھیلوں؟“)
اس نے اس آدمی کو دیکھ کر گہری سانس خارج کی۔ اس کا نقاب اس کے چہرے سے ہٹایا تو اس کی آنکھیں پھیلیں۔ 
(” میں کیونکر اس کے لیے قربانیاں نہ دوں؟“)
اس نقاب کے پیچھے اس آدمی کا مسکراتا چہرہ تھا۔ اس کی پیشانی چمک رہی تھی۔ اس کے سینے سے خون بہہ رہا تھا، لیکن اس کے باوجود وہ مسکرا رہا تھا۔ 
(” ہم فلسطینی  بیت المقدس کے رکھوالے ہیں!“)
چھوٹے خالد نے اس وقت یہی سوچا تھا کہ یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ایک گولی اپنے سینے میں کھا کر بھی مسکرا رہا تھا؟ اس کی سرمئی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگیں۔ 
حال کے خالد کا چہرہ بھی آنسوؤں سے تر تھا۔ 
وہ کیسے بھول سکتا تھا؟
وہ کیسے دغا کر سکتا تھا؟
وہ کیسے اپنی زمین سے منہ پھیر سکتا تھا؟
اسے خود پر یقین نہ آیا۔ 
٭٭٭ 
اسے مزید کئی ماہ بیت چکے تھے۔ اور اب اسے جیسے چپ لگ چکی تھی۔ وہ راتوں میں روتا تھا۔ دن بھر اس کی آنکھیں سوجی ہوتی تھیں۔ خدیجہ اس کا احوال پوچھتی تو وہ بتاتا بھی نہیں۔ خدیجہ  نے  بھی بازپرس کرنا ترک کردیا تھا۔ 
اس دن وہ اس کی پٹی کر رہی تھی۔
” بس، ایک ہفتہ اور۔ پھر تم اپنے پیروں پر چل کر جا سکو گے۔ کافی بہتری آئی ہے۔شروع میں شاید اسٹک کی ضرورت ہو، لیکن تم جوان ہو۔ جلد  ٹھیک ہو جاؤ گے۔“ وہ مسکرائی۔ 
خالد خاموش رہا۔ اس کے چہرے پر کوئی بدلاؤ نہ آیا۔ 
خدیجہ پٹی بدل کر جانے لگی۔ 
” رکو۔“ وہ پیچھے سے بولا۔ 
وہ مڑی۔ اس نے اس کے کمزور چہرے کو دیکھا۔ اس کی سرمئی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ 
” کیا۔۔“ خالد  کے آنسو تواتر کے ساتھ بہنے لگے۔ 
” کیا میں مقلوبہ کھا سکتا ہوں؟“ وہ دل میں آس لیے بولا۔ 
خدیجہ ہنس دی۔ مقلوبہ کے لیے اتنا رونا دھونا؟ 
” کیا میں؟ کیا میں اپنی ماں کے ہاتھ کا مقلوبہ کھا سکتا ہوں؟“ اب کہ اس کے دل میں کچھ چھناکے سے  ٹوٹا۔ 
خدیجہ کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔ وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔ 
” خالد۔ سب ٹھیک ہے؟“ وہ پریشان ہوئی۔ 
خالد روتا گیا۔ 
” مجھے یاد آرہی ہے خدیجہ۔ میں نے کیا کردیا ہے؟ میں کیسے سب چھوڑ کر آگیا؟ کیسے اپنی ماں کو۔ اپنی زمین کو۔ اپنے لوگوں کو چھوڑ کر آگیا؟ کیا مجھے وہ معاف کریں گے؟ کیا مجھے اللہ معاف کرے گا؟“ 
جس خیال نے اس کے ذہن کو مہینوں سے الجھایا ہوا تھا، آج اس کا اقرار کر ہی ڈالا۔ خالد کی بے چینی اس کی خود کی پیداکردہ تھی۔ 
خدیجہ کے چہرے کا تناؤ ڈھیلا ہوا۔ 
” یہ تم اسی رب کی بات کر رہے ہو، جس نے اپنی کتاب میں اپنا تعارف اپنے ان دو ناموں سے کیا ہے: رحمٰن اور رحیم۔ پھر تم کیسے گمان کر سکتے ہو کہ وہ تمہیں معاف نہیں کرے گا؟“ ہمیشہ کی طرح، اس کے پاس اس کی ہر ایک الجھن کا جواب تھا۔ 
خالد کے آنسوؤں  کو کچھ راحت آئی۔ 
” اور تمہاری ماں۔ وہ تمہیں دیکھتے ہی سب بھول جائے گی۔ وہ اسی محبت سے تمہارے لیے مقلوبہ بنائے گی، جتنی محبت سے پہلے بناتی تھی۔ “ 
اب کہ اس کے بے چین دل کو راحت آئی۔ 
” کیا تمہیں پتہ ہے جن لوگوں نے میری ٹانگ توڑی تھی۔ “ اس کے آنسو ایک بار پھر جاری ہوئے۔ ” انہوں نے میری زمین کو برا بھلا کہا تھا۔ میں ہوش کھو بیٹھا تھا ۔ میں خود بھی نہیں جانتا تھا کہ مجھے اس زمین سے اس قدر محبت تھی۔ “ اس نے آنسو پونچھے۔ 
” میں نے آنکھوں کے سامنے، جنین کے مرد مجاہدوں کو قربان ہوتے دیکھا تھا خدیجہ۔ لیکن پھر بھی میں نے اتنی دیر کیوں کر دی؟“ 
” دیر نہیں ہوئی۔ اللہ نے تمہیں مقررہ وقت پرتمہارے مقصد سے ملایا ہے۔ اس شمع کو بجھنے نہیں دینا۔ میری طرح، اپنی زمین پر لوٹنے  کی تیاری کرو۔ ہماری زمین کو، ہماری ضرورت ہے۔“ وہ اٹل لہجے میں بولی۔ 
خالد خاموش ہوگیا۔ 
” کیا میں سب کا سامنا کر پاؤں گا؟“ دل میں ایک خوف نے اسے ستایا۔ 
” کیا تم روزِ حشر اللہ کا سامنا کرلوگے؟“ ہمیشہ کی طرح، اس کے پاس اس کی ہر بات کا جواب تھا۔ 
خالد خاموش پڑ گیا۔ 
” پھر وعدہ کرو۔ اب اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹو گے۔“ وہ اس کی آنکھوں میں نظریں گاڑتے، حتمی انداز میں بولی۔ 
خالد نے ڈھیر سارا تھوک اندر نگلا۔ 
” وعدہ کرو خالد!“ آواز میں تپش بڑھ چکی تھی۔ 
” وعدہ۔“ 
واپسی نا ممکن تھی۔ 
٭٭٭
آج اس کا ہسپتال میں آخری دن تھا۔ وہ چھڑی کے سہارے چلنے کے قابل تھا۔ 
اس وقت رات اتر چکی تھی۔ رات کافی ٹھنڈی تھی اور وہ موٹے کپڑوں کی تہہ میں دبا ہوا  تھا۔ دروازے پر خدیجہ اس سے ملنے آئی تھی۔ اس کی ویسے تو چھٹی تھی، لیکن اتنے مہینوں اس کی دیکھ بھال کرنے کے بعد اس کے ساتھ ایک تعلق سا بن گیا تھا۔ 
سرمئی آنکھیں وہ چہرہ دیکھتے ہی کھل اٹھیں۔ اسے یکدم ہوا وسیع ہوتی  محسوس ہوئی۔ دنیا رنگین نظر آنے لگی۔ 
” ارے۔ تم آگئی!“ وہ خوشی چھپا نہ پایا۔ 
” ہاں۔ میں نے آنا ہی تھا۔“ اپنے ہاتھ میں تھاما ایک بھورا ڈبا اسے تھما دیا۔  
خالد نے اسے کھولا۔ اس میں مقلوبہ دیکھ کر اس کے چہرے پر پر مسرت مسکراہٹ بکھر گئی۔ 
” شاید، تمہاری امی جتنا مزے دار نہ ہو۔ لیکن میں نے کوشش کی۔ اور ویسے بھی۔ مقلوبہ تو مقلوبہ ہی ہوتا ہے۔“ وہ زیر لب ہنس دی۔ وہ بھی بے اختیار ہنس دیا۔ 
” شکریہ۔“ وہ اسے محویت سے دیکھتے بولا۔ 
” چلو بس۔ اب چلتے بنو۔ میں جانتی ہوں تم ہسپتال چھوڑنے کے لیے کس قدر بے تاب ہوگے۔“ وہ شوخ انداز میں بولی۔ 
خالد کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔ ہاں۔۔۔ وہ تھا بے تاب۔ اس کا دم گھٹتا تھا اس جگہ میں۔ 
لیکن پچھلے کچھ ماہ تو اس کا جیسے دل بس چکا تھا اس ہسپتال میں۔ اسے لگا تھا وہ اب وہاں سے جائے گا ہی نہیں، کاش  یہی اس کی زندگی ہوتی۔ وہ ہوتی، اس سے باتیں کرتی، اس کے دل کا حال دریافت کرتی، اور پھر وہ بقایا  دن اگلی ملاقات کے انتظار میں کاٹ دیتا۔ 
لیکن اب۔ اب ایسا کچھ نہیں ہونے والا تھا۔ 
آخر تکلیف کیوں ہورہی تھی؟ اس نے سر جھٹکا۔ 
” ہاں بالکل۔“ اس نے جھوٹ بولنے پر دل میں استغفار کا ورد شروع کیا۔ ” میں تو مرا جارہا تھا یہاں سے نکلنے کے لیے۔ بڑی بدبودار جگہ ہے۔“ اسے اپنی زبان کی اس گستاخی پر شرمندگی محسوس ہوئی۔ 
خدیجہ ہنس دی۔ 
” اللہ حافظ خالد۔ اپنا خیال رکھنا۔ اور اپنا وعدہ۔ یاد رکھنا۔ “ اس نے اسے یاد دلایا۔  
” تم  کب جارہی ہو ؟“ 
” نو دن بعد۔“ 
” ملنے آسکتا ہوں؟“ اس کی آنکھوں میں طلب سی تھی۔ 
” میں انکار کر سکتی ہوں؟“ وہ مسکرادی۔
اب کہ اس کےپاس رکنے کا بہانہ نہ بچا تھا۔ دل کٹ رہا تھا۔ مگر اسے جانا تھا۔ 
اسے واقعی جانا تھا۔ 
٭٭٭
آج مصرمیں خدیجہ کا آخری دن تھا۔ 
وہ رفہ کراسنگ کے پاس کھڑی تھی۔ 
خالد اس کے مقابل کھڑا تھا۔ 
وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ 
وہ اسے دیکھ رہی تھی۔ 
” تم خوش ہو؟“ اس نے اس سے پوچھ ہی لیا۔ 
خدیجہ مسکرادی۔ 
” بہت۔ میں اپنی قابلیت کو اپنے لوگوں کے لیے استعمال کرنے والی ہوں۔ خوش کیوں نہ ہوں گی؟“ 
” یہی امید تھی۔“ دل میں برپا اس طوفان کے باوجود وہ کیسے مسکرا رہا تھا، اس کا اندازہ صرف خالد کو ہی تھا۔
وہ اس سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ بہت کچھ۔ لیکن وقت نہیں تھا۔ نہ اس کے پاس کوئی حق تھا۔ دل خالی ہورہا تھا، دل کٹ رہا تھا، مگر وہ اسی دل کے ہاتھوں بے بس ٹھہرا تھا۔ 
اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اور ایک چین نکال کر خدیجہ کو تھما دی۔ 
خدیجہ نے آنکھوں میں اشتیاق لیے اس چین کو دیکھا۔ اس میں فلسطین کا نقشہ بنا ہوا تھا۔  
” اس کی کیا ضرورت تھی؟“ مسکراہٹ چھپائے نہیں چھپی۔ 
” تھی۔ ضرورت تھی۔“ اب کے اس کے گھائل  وجود میں حائل ویرانی خدیجہ نے بھی محسوس کی۔ 
” یہ میری نشانی ہے خدیجہ۔  مجھے یقین ہے ایک دن بیت المقدس آزاد ہوگا۔ شاید ایک دن ایسا بھی آئے کہ میں غزہ آسکوں۔ اس دن میں تم  سے کہوں گا، کہ دیکھو  ہم نے کر دکھایا۔ اور میں کہوں گا کہ، اب اس زمین کے لیے قربانیاں دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ “ 
خدیجہ کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔ شاید اس نے اس کی آواز میں کچھ محسوس کرلیا تھا۔ کچھ ایسا، جسے وہ محسوس کرنا نہ چاہتی تھی۔ 
” یاد ہے، میرا ہسپتال میں تیسرا دن تھا اور میں ہسپتال کے خرچے کی وجہ سے پریشان تھا۔ تم  نے کہا تھا کہ تمہارا دل کہہ رہا ہے سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اسی طرح، میرا دل بھی کہتا ہے۔ بیت المقدس آزاد ہوگا۔ “ اس کی آواز بھیگی۔ اور صرف اس کی آواز نہیں بھیگی تھی، خدیجہ کی آنکھیں بھی بھیگ چکی تھیں۔
” تم  میرا انتظار کرنا۔میں آؤں گا۔ اللہ نے چاہا۔ تو میں ضرور آؤں گا۔ “  وہ دو قدم پیچھے بڑھا۔ آنسو اس کی آنکھ سے روانہ ہوئے۔ 
” لیکن اگر آزادی سے قبل یہ تحفہ ٹوٹ جائے نا خدیجہ۔ تو جان لینا کہ میں نے واپس نہیں آنا۔ میرا انتظار کرنا چھوڑ دینا۔ “ 
سرمئی آنکھیں اشکبار تھیں۔ وہ اسے چہرے سے منقطع  نہ ہونا چاہتی تھیں۔ 
خدیجہ کسی بت کی طرح اسے دیکھتی گی۔ ان لفظوں کی تاثیر وہ زندگی بھر نہیں بھلا سکتی تھی۔ ایک ایک لفظ اس کے دل کی دہلیز پر کسی مہر کی طرح ثبت ہوچکا تھا۔
” اپنا خیال رکھنا۔  اور جانے سے پہلے، میں تمہیں ایک دعا بھی دینا چاہتا ہوں۔۔“ 
اور اگلے کچھ لمحے اس نے جو کہا، خدیجہ کو سن کر گیا تھا۔ 
وہ بات مکمل کر کے رکا نہیں  تھا، اور دور جانے لگا۔ 
خدیجہ ساکت رہ گئی۔اس لمحے خدیجہ کے دل میں کچھ ہوا تھا۔ ایک حصہ ٹوٹ کر شاید مصر کی زمین میں گر چکا تھا۔  
اپنے دل پر جبر کر کے اس نے رفہ کراسنگ پار کی۔ غزہ واپس آکر اس نے وہ لاکٹ ایک بار پھر نکالااور  اسے کچھ دیر مہویت سے گھورا۔ سرمئی آنکھوں والا چہرہ اس کی آنکھوں کے پردوں پر لہرایا۔ 
دل اب بھی اس قدر خالی کیوں تھا؟
اس نے اسے کراسنگ پار کرتے دیکھا تھا۔  اور پھر وہ چلا گیا تھا ۔ وہ مزید خود کو تکلیف نہیں دے سکتا تھا۔ اسے اب واپس جانا تھا۔ 
اس کے دل کا ایک حصہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غزہ  جا چکا تھا۔
کیا وہ کبھی  اسے واپس لینے غزہ آ پائے گا؟
٭٭٭










باب پنجم: ”دعا“

ایک بار پھر اسے ہوش آیا۔
وہ مشینوں کے چلنے کی آواز صاف سن سکتی تھی۔ 
بند آنکھوں کے پیچھے  اندھیرے تھا ۔ گہرا اندھیرا۔ اور اس اندھیرا میں وہ چہرہ ابھرا۔ وہ چہرہ جو کبھی آنکھوں کے سامنے سے چھٹا ہی نہیں تھا۔
وہ سرمئی آنکھیں جو اس دن رفہ کراسنگ میں دیکھی تھیں، وہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی تھیں۔ 
اسے سانس لینے میں دشواری محسوس ہوئی۔ 
اور جوں ہی اسے وہ آخری ملاقات شدت سے یاد آئی۔ 
(”اور جانے سے پہلے، میں تمہیں ایک دعا بھی دینا چاہتا ہوں“)
اب کہ اس کی آنکھیں کھلیں۔  اندھیرا جوں کا توں برقرار تھا ۔ اسے خوف آیا۔ اسے دہشت محسوس ہوئی۔ لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ وہ اس ملبے کے نیچے دفن  جو تھی۔ تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ حلق میں اتنی طاقت نہ رہی تھی کہ وہ چلا بھی سکتی۔ 
(” میں سالوں سے ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار تھا خدیجہ۔ یوں لگتا تھا جیسے میرا دم گھٹ رہا ہے۔“)
اسے سانس لینے میں دشواری محسوس ہوئی۔ وہ جان گئی تھی کہ اس کا وقت قریب تھا۔ وہ اس اندھیرے میں ختم ہو جائے گی۔ شاید قسمت کو یہی منظور تھا۔ 
(” لیکن تم  نے۔ تم  نے مجھ  پر ہوا کا بہاؤ جیسے کھول دیا تھا۔تمہاری باتوں نے میری سانسیں بحال کیں۔“)
یکدم اس کا موبائل بجا۔ وہ ہاتھ ہلانے لگی۔ لیکن موبائل تک نہ پہنچ سکی مگر۔۔ مگر مشین کی آواز رک گئی تھی۔ اب اسے قدموں کی چاپ خود سے نزدیک آتے سنائی دی۔ یہ کیا ہورہا تھا؟
(” میری دعا ہے خدیجہ کہ   زندگی میں جب بھی حالات تم پر تنگ ہوں۔“)
اب اسے پاس سے مشین کی آواز آئی۔ امید کی کرنیں دل میں بھر چکی تھیں۔
شاید وہ بچ جائے گی۔
ہاں! شاید وہ بچ جائے گی۔
اس نے ہمت جمع کرتے  اللہ کا ذکر شروع کیا۔  
(” جب تمہیں لگے کہ اب کوئی راستہ دستیاب نہیں۔ تب اللہ تمہاری مدد وہاں سے کرے جہاں سے تم نے گمان بھی نہ کیا ہو۔“)
کچھ دیر بعد خدیجہ کو روشنی نظر آئی۔ ملبے کو کاٹا جارہا تھا۔ 
وہ مسکرائی۔ آنکھیں نم ہوئیں۔ اللہ نے اسے بچا لیا تھا۔ اللہ نے اس کے لیے راستہ بنا لیا تھا۔ 
اللہ نے اسے زندگی دی تھی۔ وہ اس کی جان کو مزید استعمال کرنے والا تھا۔ 
(” تم ایک بار پھر تر و تازگی میں سانسیں لو خدیجہ۔ میری دعا ہے، کہ تم زندگی کے جس مقام پر بھی ہو، مطمئن ہو۔“)
٭٭٭
وہ چادر میں ڈھکی ہوئی تھی۔ اس کی ٹانگیں شل تھیں۔ چہرے پر زخم تھے اورآنکھیں جامد۔وہ یقین کرنے سے قاصر تھی کہ وہ زندہ بھی بچ سکتی تھی۔
اس کے سامنے اس کے گھر والوں کی لاشیں نکالی جارہی تھیں۔ بابا، امی، بھائی، چاچو، چاچی، کزنز، سب اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ اللہ نے صرف اسے بچایا تھا۔ 
وہ کچھ دیر ان سب کے اجسام کو دیکھتی گئی۔ آنکھیں نم تھیں، مگر  دل چاہ کر بھی اداس نہیں ہوپایا۔
وہ مطمئن تھا۔
وہ واقعی  مطمئن تھا۔ 
وہ کبھی غیر مطمئن ہوتا ہی نہ تھا۔
اس نے اماں کے ہاتھ دیکھے۔ ہاتھ جو کبھی گندمی ہوتے تھے، آج سرخ ہوچکے تھے۔ اس نے بابا کا چہرہ دیکھا، جو کبھی خوشیوں سے بھرا ہوتا تھا، آج بے جان تھا۔ 
” اللہ کی امانت تھے۔ اللہ نے آپ سب کو بلا لیا۔ میر انتظار کرنا آپ سب۔ میں بھی آپ کو جلد جوائن کروں گی۔“ آنسو تواتر کے ساتھ بہنے لگے۔ 
تب ہی ایک آدمی اس کے پاس آیا۔ 
اس نے نظر اٹھا  کر دیکھا۔ 
” خدیجہ۔ ہمیں یہ بھی ملا ہے۔“ خدیجہ کے دل نے ڈبکی لگائی۔
اب کون سی خبر اس کے منتظر تھی؟ 
٭٭٭















باب ہفتم: ” آخری قربانی“

جنین – مقبوضہ فلسطین
اے مرد مجاہد
تو ہے امید کی  شمع ایسا
جو جلتا ہے ہمیشہ
حتی کہ  آسمانوں میں پرواز جب ہو تیری
تو چمکتا ہے  تو بن کر ایک روشن ستارا!

گولیوں کی آوازوں  سے  جنین کی گلیاں کپکپا رہی تھیں۔ 
اب کہ سورج طلوع ہونے لگا تھا۔ 
خالد کے کافی ساتھی شہید ہوچکے تھے۔مگر بہت سے اب بھی زندہ سلامت مقابلہ کر رہے تھے۔ اس نے ایک گاڑی کے پیچھے چھپ کر اپنی دور بین نکالی۔ 
دور اسے ایک  ٹینک نظر آیا،  جہاں سے غاصب کے چیلے نمودار ہورہے  رہے تھے۔ 
اس کے دماغ میں ایک منصوبے نے جنم لیا۔ اس گولی باری کو روکنے کا اب بس ایک ہی طریقہ تھا۔ 
  وہ ایک گلی میں داخل ہوا۔ سائے میں چلتے ہوئے، وہ ایک چیلے تک آیا۔ اس نے اس کے سر پر بندوق کھینچ کر ماری تو وہ ہلاک ہوتے زمین بوس ہوگیا۔ اس نے اس کی جیبوں کی تلاشی لیتے ایک گرینیڈ نکالا۔  
سائے میں چلتے وہ ایک جھاڑی کے پیچھے جا چھپا۔  
اس گرینیڈ کو اس نے تیار کیا اور  غاصب کے ٹینک کا نشانہ بنایا۔ 
” بسم اللہ!“ اور گرینیڈ سیدھا ٹینک پر لینڈ ہوا۔ 
خالد اپنے نقاب کے پیچھے مسکراکر بھاگنے لگا تھا۔  
مگر تب ہی چھت پر کھڑے چیلے  نے اسے دیکھ لیا۔ اس کی بندوق تیار تھی۔ 
خالد بھاگ رہا تھا جب اس کی پشت پر چبھن سی ہوئی۔ اسے اپنے جسم کے اندر کوئی گرم شے داخل ہوتے محسوس ہوئی۔ سرمئی آنکھیں تکلیف سے کپکپائی۔ لبوں سے ایک سسک جاری ہوئی۔ 
وہ زمین بوس ہوا۔ 
سانسیں بے ربط ہوئیں۔ 
اس کے ایک ساتھی نے اس چھت کا نشانہ باند ھ کر چیلے کو ہلاک کیا۔ پھر سب کے سب خالد کی جانب دوڑے۔
ان میں سے کسی نے اس کے جسم کو سیدھا کیا۔ خالد نے آنکھیں کھلی رکھنے کی کوشش کی۔ تکلیف لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی تھی۔ اس نے ایک نظر آسمان کو دیکھا۔۔۔
آنکھوں میں کئی منظر ایک ساتھ چل رہے تھے۔۔۔
جب وہ اس زمین پر واپس آیا تھا۔۔۔۔
اس کی ماں نے اسے گلے سے لگایا تھا۔۔۔۔
اس نے کے ہاتھوں کا لمس یاد آیا۔۔۔۔
اسے یاد آیا جب اس نے پہلی مرتبہ بندوق تھامی تھی۔۔۔
جب اسے کتیبہ جنین) Jenin battalion) کے دلیر سپاہیوں نے لڑنا سکھایا۔۔۔
وہ کیسے دن رات ایک کر کے محنت کرتا۔۔۔
اپنی کمزوریوں کا مقابلہ کرتا۔۔۔
اسے سب یاد آیا۔۔۔
اسے سب یاد آیا۔۔۔
” اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ وشہد ان محمدا عبدہ ورسولہ“
جسم کمزور پڑنے  لگا تو اس نے کلمہ پڑھا۔ اسے آس پاس مجاہدوں کی آوازیں آنا بند ہوگئی تھیں۔ بس ان کی نم آنکھیں دیکھ پارہا تھا۔  
تکلیف میں اضافہ ہوا تو سرمئی آنکھیں پھیلیں۔ جسم لرزنے لگا۔ 
آنکھوں کے سامنے وہ چہرہ اجاگر ہوا۔ 
خدیجہ کا وہ چہرہ جسے وہ کبھی نہ بھولا تھا۔ 
” ہم اس زمین کے لیے قربانیاں کیونکر نہ دیں؟“ اسے اس کا جملہ یاد آیا۔ 
اسے ہسپتال کے وہ حسین دن یاد آئے۔۔۔
اسے وہ دن یاد آیا جب درخت تلے اس نے اسے اس زمین کی اہمیت باور کروائی تھی۔۔۔
اسے وہ دن یاد آیا جب خدیجہ نے اس سے وعدہ لیا تھا۔۔۔
اسے سب یاد آیا…… اسے سب یاد آیا۔۔۔
اور وہ اس نقاب کے پیچھے، جسم میں پھیلی اس تکلیف کے باجوود بھی مسکرادیا۔ 
وہ مطمئن تھا۔ 
دل میں کوئی  خلش باقی نہ رہی تھی۔  
اور پھر سانس کا ٹانکا   چھوٹ گیا۔ 
حلق سے آخری سانس جاری ہوئی۔ 
خالد، ایک نئے سفر پر روانہ ہوچکا تھا۔ 
وہ اپنی جان کے بدلے کچھ بہت عظیم پاچکا تھا۔ 
٭٭٭




باب ہشتم: ” الوداع“

غزہ – مقبوضہ فلسطین
وہ اس آدمی کو دیکھتی گئی۔ 
شاید وہ جان گئی تھی کہ اسے کیا ملنے والا تھا۔ 
اس نے کپکپاہٹ کے ساتھ ہاتھ آگے بڑھایا۔ اس آدمی نے  اپنی مٹھی سے کچھ کرچیاں اس کے ہاتھ میں الٹ دیں۔ 
اس نے تھرتھراتی سانسوں، اور اپنے بے قابو دل کے درمیان انہیں نظروں کے قریب کیا۔ 
آنسو تواتر کے ساتھ بہے۔ دل جھلس گیا تھا۔ روح انگنت حصوں میں بکھر چکی تھی۔ 
وہ اس سنہرے لاکٹ  کو لاکھوں میں پہچان سکتی تھی۔ 
وہ مسخ ہوچکا تھا۔۔۔
خدیجہ نے آج صرف اپنے خاندان کو نہیں کھویا تھا۔ 
بلکہ آج اس نے خالد کو بھی کھو دیا تھا۔ 
٭٭تمت بالخیر ٭٭






Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *