Complete Article 

Alisha & Amina

palestine

Article :   asda’al’amal 

Writer:    Alisha & Amina

status: complete

Instagram: @aa_.writes0

آرٹیکل

“أصداء الأمل (اُمید کی بازگشت) “
از علیشاہ اور آمنہ  


بسم الله الرحمن الرحيم۔
                                أصداء الأمل   
                      (اُمید کی بازگشت)                                         

میں غمگین ہوں
میرے غزہ کی حالت دیکھو
میرے آس پاس لاشیں ہی لاشیں
پینے کو پانی نہیں
رہنے کو گھر نہیں
کُھلی فضا نہیں
دیکھو میرے دل کی حالت۔۔۔
میری گود میں میری ماں کی لاش ہے
اُس کی آنکھ بند ہے
وہ بول نہیں رہی
وہ مجھے پُکار نہیں رہی
وہ مجھے ڈپٹ نہیں رہی
میری بے بسی کا عالم دیکھو
غم میں ٗمیں اُسے رو کر 
پُکار بھی نہیں پارہا
کیونکہ
وہ کہتی تھی اسمائیل،
جب بھی کسی کو
شہادت پاتے دیکھو
تو زبان سے بس یہی کہنا۔
”الحمداللہ۔“

وہ پانی کی بوتل ہاتھ میں تھامے بھاگتا جا رہا تھا۔ تین دن سے کچھ نہیں کھایا تھا ایسا لگتا تھا زبان پر کانٹے اُگے پڑے ہیں۔ چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ رہا تھا۔ تنفس تیز چل رہا تھا لیکن وہ سانس لینے کے لیے بھی نہیں رُک رہا تھا۔ دور ایک عمارت زمین بوس ہو رہی تھی۔ اس کا دل کسی گہری کھائی میں گِر رہا تھا۔ وہ مسلسل بھاگ رہا تھا۔ آس پاس بہت سارے لوگ جمع تھے۔ اللہ اُکبر کی صدائیں اور بچوں کے رونے کی آوازیں ہر جانب گونج رہی تھیں۔ 

وہ اندھا دُھن بھاگ رہا تھا کہ ایک پتھر سے ٹھوکر لگی اور وہ لڑکھڑا کر نیچے گرا اُسی لمحے وہ عمارت بھی زمین بوس ہوئی۔ اس نے زور سے آنکھیں میچیں پانی کی بوتل ہاتھ سے چھوٹ گئی۔

 ہاتھوں سے ننھی ننھی خون کی بوندیں ٹپکنے لگیں لیکن وہ ہر چیز کو نظر انداز کیے ساکت، سانس روکے اپنے گھر کو کِرچی کِرچی ہوتے دیکھ رہا تھا۔ کیا تم بے گھر ہونے کی تکلیف کو محسوس کر سکتے ہو؟ 

آس پاس بھاگ دوڑ سی مچ گئی تھی لوگ اپنے پیاروں کو پُکارتے پتھروں کو ہٹا رہے تھے۔ وہ کچھ دیر قبل ہی تو اُنہیں صحیح سلامت چھوڑ کر گئے تھے لیکن وہ یونہی بیٹھا خالی خالی نظروں سے سب دیکھ رہا تھا۔

لیکن اگلے ہی لمحے وہ بجلی کی سی تیز رفتار سے ملبے کے پاس پہنچا ٗ ہر جانب گِرد اُٹھ رہی تھی بہت سے لوگ جمع ہو رہے تھے۔ کوئی اُس کے پیچھے بھاگتا اس کی پانی کی بوتل اٹھا لایا اور اس کی جانب بڑھائی۔

ویران نظروں سے اُس نے ملبے کے ڈھیر کو دیکھا اور پھر آسمان کو اور دھیرے سے کہا ”ماں سے کہنا اسمائیل پانی لے آیا تھا۔“

ہونٹوں کی کپکپاہٹ کو چھپانے کی خاطر اُس نے ہونٹ دانتوں تلے دُبائے لیکن اس کا پورا وجود لرزش کا شکار تھا۔جسم سے جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی وہ ایک پتھر کا سہارا لیتے وہاں لڑکھڑاتے قدموں سے ٹک گیا۔ خالی نظروں سے اپنے سامنے پانی کی بوتل بڑھائے ہوئے شخص کو دیکھا اور بڑبڑایا۔ ”اب میں ماں کس کو بولوں گا؟“

تین دن گزر چکے تھے۔اسے ابھی تک ماں کی لاش نہیں ملی تھی۔ آنکھوں کی سرخ لکیریں واضح تھیں وہ رویا نہیں تھا۔ جب ماں تھی تو اپنے غزہ کی حالت کو دیکھ کر ان کی گود میں سر رکھ کر بہت رویا ماں نے اسے کہا ”اسمائیل تو نا رو تیرے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ مجھے خدا پے یقین ہے مسلمان ضرور جاگ جائیں گے۔ ایک دن ہم آزاد ہوں گے نجانے میں وہ وقت دیکھنے کے لیے ہوں گی یا نہیں لیکن دیکھنا اسمائیل مسلمان جاگ جائیں گے اور ہم آزاد ہو جائیں گے مجھے اللہ سے امید ہے۔“وہ بار بار ایک ہی بات دہرا رہی تھیں۔

وہ رویا نہیں تھا کہ ماں کو تکلیف ہوگی، وہ نہیں روئے گا اپنی ماں کو تکلیف نہیں دے گا۔ پچھلے  تین دنوں سے وہ لوگ دو گروہوں میں تقسم ہو کر  لاشوں کو ملبے کے نیچے سے نکال رہے تھے۔ اسمائیل بھی انہی کے ساتھ تھا وہ پانی کی بوتل کو ابھی تک سنبھالے ہوئے تھا۔

ایک بہت بھاری پتھر جسے وہ لوگ ہٹا رہے تھے کہ ایک کونے سے ایک کپڑے کا ٹکڑا ظاہر ہوا۔ 
”ماں۔۔۔میر۔۔۔۔میری ماں سے ہٹاؤ ہٹاؤ اس پتھر کو۔“اسمائیل کو لگا کہ اس کے اعصاب جواب دے جائیں گے۔ لوگ جلدی جلدی سے پتھر کو ہٹانے لگے تھے۔ وہ جو تین دونوں سے خود پر پہرہ باندھے ہوئے تھا ماں کا ایک ہاتھ تھامے بے آواز روتا کہے جا رہا تھا “شکر الحمداللہ” ہاں یہ شکر کے آنسو تھے۔ ماں کی ٹانگیں بُری طرح کُچلی گئ تھیں، آنکھیں ہلکی سی کُھلی تھیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے ماں کے چہرے سے گرد ہٹائی اور اس کا چہرہ گود میں رکھتے آنکھوں کے بھیگے  گوشے صاف کیے لیکن پانی پھر سے بھر آیا وہ مسکرایا اور ماں کی ادھ کھلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔ 

”آنکھ آنسو بہاتی ہے دل غمگین ہے لیکن زبان سے وہی کہوں گا جس پر میرا رب راضی ہوتا۔“

وہ اب ایک فٹ پاتھ پر کھڑا تھا اور اس کے سامنے ایک لمبی قطار میں سفید کفن میں لپٹی ہوئی کئ لاشیں پڑیں تھی۔ آس پاس بچوں اور عورتوں کی سسکیاں گونج رہیں تھی وہ ماں کی لاش کے ساتھ پڑی پانی کی بوتل کو دیکھ رہا تھا۔ نظروں کے سامنے آخری ملاقات کے منظر اُبھر رہے تھے۔

”ہائے یہ  پیاس مجھے مارے جا رہی ہے۔“ دعا مانگتی ماں نے ایک نظر دیوار کے ساتھ بیٹھے اپنے ندھال سے بیٹے کو دیکھا جو خالی بوتل ہاتھ میں پکڑے کہے جا رہا تھا۔

“ماں مسلمان نہیں جاگیں گے، یہ  پیاس مجھے مارے جا رہی ہے، ہم پیاس سے مر جائیں گے۔“ ماں کے حلق میں آنسو کا گولا سا اٹکا، کلیجے میں درد سا اٹھا تھا۔وہ کتنی بار اسے کہہ چُکی تھیں ”جا اسمائیل پانی کی تلاش میں لیکن وہ اسے اکیلا چھوڑنے پر راضی نہیں تھا۔ وہ معزور تھی اُس کے ساتھ چل کر جا نہیں سکتی تھیں وہ اکیلا چھوڑنے پر راضی نہیں تھا۔

اسمائیل قرآن میں اللہ فرماتا ہے: ”حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدلتی۔“ 

اس نے چونک کر ماں کو دیکھا جو کہہ رہی تھیں۔
”ہماری یہ حالت تب تک نہیں بدل سکتی جب تک ہم practically کچھ نا کریں۔ تمہیں پانی کی تلاش میں باہر جانا ہو گا دیکھنا خدا تمہارے لیے خیر کے دروازے کھول دے گا۔“

”مگر ماں میں آپ کو چھوڑ کر۔۔۔۔“ اس نے کچھ کہنا چاہا تو ماں نے بات وہی کاٹ دی۔ 

میں تمہیں ایک واقعہ سناتی ہوں!

”حضرت ہاجرہ علیہ السلام نے جودہ کی پہاڑی کے گرد  تپتے صحرا میں سات چکر کاٹے تھے تو حضرت اسمائیل علیہ السلام کے پاؤں سے پانی کا چشما پھوٹ پڑا تھا۔ حضرت ہاجرہ علیہ السلام نے اپنے حصے کا کام کیا تو اللہ پاک نے ان پر اپنا کرم کیا اور وہاں سے ان کا کام کیا  جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتی تھیں۔“ اس کی آنکھوں کی نمی بڑھتی جا رہی تھی۔

ماں کی سنہری آنکھوں میں امید کے ٹمٹماتے دیے اُجاگر تھے۔بات کرتے چہرے پر فاتخانہ مسکراہٹ تھی۔”تمہیں میرا رب مایوس نہیں لوٹائے گا۔ وہ اپنے بندوں کا مددگار ہے۔“ 

”ماں اسمائیل پانی لینے جائے گا۔“وہ اس کی بات سنتی نم آنکھوں سے مسکرائی تھیں۔

تھوڑی دیر بعد وہ اپنے گھر کا دروازہ پار کررہا تھا یہ جانے بغیر کے وہ یہ دروازہ آخری بار پار کررہا ہے۔وِہیل چئیر پر بیٹھی اُس کی ماں مسکرا کر اُسے دیکھ رہی تھی۔

کسی بچے کے رونے کی آواز سے وہ حال میں واپس آیا۔ جھک کر ماں کے پاؤں کے پاس بیٹھا سینے میں ایک ٹیس سی اٹھ رہی تھی۔وہ خالی نظریں ماں پر جمائے ہوئے تھا۔ پھر وہ دھیرے سے آگے ہوتا اپنی ماں کے کان پر جُھکا تھا۔ “رب سے اچھا مددگار کوئی نہیں ہے، رب سے اُمید لگاؤ  تو کبھی نہیں ٹوٹتی۔“

”ماں آپ یہیں رہنا میں پانی لے آتا ہوں۔“ عقب سے کسی بچے کی آواز آئی تھی۔ 
وہ تیزی سے پلٹا اور ماں کے پاس سے پانی کی بوتل اٹھا کر اس کی جانب بڑھائی “ وہ ایک اور بیٹے کو جدا ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔“ 



                                (ختم شد۔)

”آج کل میں اپنے اِرد گِرد لوگوں کو یہ کہتے سن رہی ہوں۔ ”ہماری بے بسی کی انتہا تو دیکھو ہم کچھ نہیں کر سکتے؟“ کیا واقعی؟
میں ان سے یہی کہوں گی۔
“There’s always something you can do”
ہماری بھی حالت تب تک نہیں بدلے گی جب تک ہم practically کچھ نہیں کریں گے۔

ہمارے اردگرد بہت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں ہمارے آواز اٹھانے سے کیا ہوگا؟ ہمیں کون سنے گا؟ 
میں آپ کو بتاؤں کیا ہو گا! حق کا پیغام لوگوں تک پہنچے گا۔ لوگوں میں شعور بڑھے گا۔ ظلم پر خاموش نا رہیں۔ آپ بولیں تاکہ قیامت کے دن خدا کے سامنے سرخرو ہوسکیں۔
آپ سمجھتے ہیں بائیکاٹ سے کچھ نہیں ہوگا؟ گوگل کریں مشہور و معروف کمپنیز کتنا نقصان اُٹھا رہی ہیں۔ بس چند پوسٹ اور ریلز شئیر کرکے اپنے کام سے فارغ نہیں ہوجانا، چلو میں شئیر کررہی ہوں۔ میرا فرض پورا ٗ نہیں ایسے نہیں ہوتا۔ آپ نے خود اپنے اردگرد لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا ہے۔ ہم اُمت مسلمہ ہیں۔ ہم نے اپنے ایمان مضبوط کرنے ہیں۔ 
سوال کریں خود سے! کیا میرا ایمان فلسطینی بچے جتنا مضبوط ہے؟ جواب دیں خود کو! پھر تاریخ پڑھیں اپنے آس پاس لوگوں کو بتائیں، آواز اُٹھائیں۔ ہمیں اپنے حصے کا کام کر کے جانا ہے اِس دُنیا سے۔“ 
سات اکتوبر سے ہر روز کوئی اسمائیل اپنی ماں اور کوئی ماں اپنے اسمائیل کو کھورہی ہے، کوئی باپ اپنے بیٹے کے ٹُکڑے ملنے پر الحمداللہ کا ورد کرتے نہیں تھکتا۔ 
ایک چیز کا مثال بنتے دیکھا ہے میں نے فلسطینیوں کو۔ ”کہ اُنکی آنکھ آنسو بہارہی ہے، دل غمگین ہے لیکن زبان سے وہی ادا ہورہا ہے جو اُن کے رب کو راضی کرتا ہے۔“ 

















Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *