Complete Article

 Eman Muntaha

Article: Auqat e Ukhra

Writer:   Eman Muntaha

Instagram: @eman_muntaha_

status: complete

آرٹیکل

اوقاتِ اُخریٰ۔

از قلم ایمان منتہی


ہمارے ماضی،حال اور مستقبل پر نظر ڈالتی جامع تحریر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ یا امت مسلمہ

؎گر کبھی وقت آتا باطل کی خدائی کا
ہم موت سے نہ ڈرتے، تلوار بن کر جیتے
کیا واقعی؟
امید ہیں آپ سب لوگ خیریت سے ہوں گے،آرام دہ گھروں میں محفوظ ہوں گے، مطمئن اور پرسکون ہوں گے۔ ہماری زندگی تو چل ہی رہی ہے، کیا خیال ہے جن کی رکی ہوئی ہے ان پر نظر ڈال لیں؟ یقین کریں کہ وہ مسلمان ہی ہیں۔ ان کا بھی آپ سے کوئی دور پار کا، بھولا بھٹکا رشتہ ہے ۔یاد کریں۔
اخوت کا۔ملت کا۔ دین کا۔
کیا یہ کم ہے؟ خیر ہمیں نیند سے جگانے کے لئے کچھ ’بڑا‘ ہونا چاہیے۔ وہ حادثہ بڑا  تب ہی ہوگا جب ہمارے ساتھ ہوگا۔ ورنہ تو تب تک سب معمولی ہے، کندھے اچکا کر گزر جانے کے لائق۔جب تک خود سر پر نہیں پڑتی نا، تب تک اگلےکا غم چھوٹا ہی لگتا ہے۔ 
ہم سب سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، سب کو پتہ ہے کہ کیا ہورہا ہے۔ پھر بھی آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہیں۔ کچھ تو اکتا ہی گئے ہیں کہ کب یہ سب ختم ہوگا اور زندگی نارمل ہوگی۔ ان کو بھی ذرا سوچ لیں جن کی صبح گولیوں کے چلنے سے شروع ہوتی ہے اور رات بچوں کی چیخوں پر ختم ہوتی ہے۔
سات اکتوبر کو جو ہوا تھا، وہ ہم سب کے علم میں ہے۔ جو بھی ہورہا ہے ، وہ نیا بالکل بھی نہیں ہے۔پچھلی تقریبا ایک صدی سے ہم یونہی مظلوم بن کر یورپ کی بنائی چکی میں پس رہے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ ہر دفعہ شکل مختلف ہوتی ہے۔ اب ہم اس مسئلے کی گہرائی میں اترتے ہیں۔
(جزاک اللہ خیر ان سب کے لئے جن کی کتابوں اور علم نے میری اس ریسرچ میں  بہت مدد کی۔ اللہ آپ سب کو متقین اور صالحین کے درجے عطافرمائے۔ اگر کوئی غلطی ہوگئی ہوتو پیشگی معذرت۔ میری طرف سے مکمل کوشش رہی ہے۔)
سو شروع کرتے ہیں۔
******
الاقصی ہی کیوں؟
سب سے پہلے ہم جس چیز کو دیکھیں گے، وہ الاقصی کی اہمیت ہے۔کیا ہے اس جگہ میں اتنا خاص کہ وہ مٹھی بھر مسلمان اپنی جانیں قربان کررہے ہیں لیکن جگہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
۰ یہ ہمارے انبیاء کی سرزمین ہے۔ عیسیؑ، داودؑ اور سلیمان ؑ کی جائے پیدائش ہے۔ابراہیمؑ اور لوطؑ نے یہاں ہجرت کی ہے۔عیسیؑ،یعقوبؑ، یوسفؑ،اسحٰقؑ اور ابراہیمؑ یہاں مدفون ہیں۔
۰ قرآن میں سورۃ الاسرا میں اس سرزمین کو بابرکت کہا گیا ہے۔
۰ رسولﷺ نے فرمایا کہ فرشتے یہاں اپنے پر پھیلاتےہیں۔
۰ سترہ ماہ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے۔
۰اس مٹی میں صحابہؓ کا خون شامل ہے۔ صحابہؓ کی کثیر تعداد یہاں شہید ہوئی۔
۰ اس زمین پر ایک ہاتھ کے برابر جگہ نہیں ہے جہاں کسی نبی نے سجدہ نہ کیا ہو یا کسی فرشتے نے قیام نہ کیا ہو۔
۰ یہاں پڑھی جانے والی نماز کا ثواب ۲۵۰ گنا ہے۔ ۵۰۰ گنا والی حدیث ضعیف ہے۔
۰ مسجد الحرام( کعبہ) اور مسجد نبویﷺ کے علاوہ یہ تیسری مسجد ہے جس کی زیارت کے غرض سے سفر کرنا جائز ہے۔
مزید ایک چیز کلئیر کرلیں کہ یہ جو سنہرا گنبد ہم دیکھتے ہیں، یہ مسجد اقصی نہیں ہے۔ یہ third temple   ہے۔ اس کے ساتھ ایک rectangular  سا قطعہ ہے وہ مسجد اقصی ہے۔ 
******
جب بھی عام زندگی میں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو ہم سب سے پہلے اس کی وجہ یعنی cause کو تلاش کرتے ہیں کہ کس چیز نے اس کام کو محرک کیا ہے۔ مسئلہ فلسطین سمجھنے کے لئے بھی ہمیں کئی صدیاں پیچھے جانا پڑے گا۔
ہمارا  کٹھن ماضی
؎کھو دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
مجھے پتہ ہے کہ تاریخ کافی بورنگ ہوتی ہے۔ لیکن جب اپنی تاریخ ہوتو بورنگ نہیں ہونی چاہیے۔ پھر بھی میں نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ سب چیزوں کو نہایت مختصر اور جامع رکھا جائے۔ انہیں پڑھیں اور  آخر تک یاد رکھئیے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم:
ا۔حضرت آدمؑ نے اس زمین پر سب سے پہلے خانہ کعبہ کو تعمیر کیا۔ اس کے چالیس سال بعد یروشلم کی سرزمین پر ایک مسجد بنائی جسے ہم آج مسجدِ اقصیٰ کہتے ہیں۔ سو اس کی پہلی تخلیق آدمؑ کے ذریعے ہوئی۔
۲۔ بعض مفسرین کے بقول طوفانِ نوح میں یہ مسجد منہدم ہوگئی تھی۔اہل کنہان اس میں آکر آباد ہوئے اور انہوں نے اسے دوبارہ تعمیر کیا۔
۳۔ کئی صدیوں بعد ابراہیم ؑ کی بعثت ہوئی اور انہوں نے اپنے بیٹے اسماعیلؑ کے ساتھ کعبہ تعمیر کیا۔اسحٰقؑ کے ساتھ انہوں نے یروشلم کی اس مسجد کو تعمیر کیا۔بعض روایات کے بقول ابراہیمؑ نے اسے مسجدِ اقصی کا نام دیا۔
ارشاد باری تعالی ہے۔
’’پاک ہے وہ جو اپنے بندے کو ایک رات مسجدالحرام(کعبہ) سے دور کی مسجد میں لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔بلاشبہ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ (الاسرا:ا)
اقصی عربی میں دور یعنیdistant  کو کہتے ہیں۔
۴۔ جب یوسفؑ اپنے بھائیوں کے ساتھ مصر میں آباد ہوئے تو اللہ نے ان کو کئی نعمتوں سے نواز دیا۔ ان کے بڑے بھائی یہودا کی نسل آگے بڑھی اور وہ یہودی کہلائے۔انہیں بنی اسرائیل بھی کہا جاتا ہے۔ اسرائیل یعقوبؑ ( یوسفؑ کے والد) کا لقب تھا۔
۵۔ بنی اسرائیل اللہ کی محبوب قوم تھی۔ ان میں بےشمار نبی آئے۔ان کی طرف آنے والے پہلے نبی موسیؑ تھے۔بنی اسرائیل نے موسیؑ کے دور کی کچھ باقیات، تورات، من و سلوی کا کچھ حصہ ایک تابوت میں محفوظ کرلیا، جسے قرآن میں تابوت سکینہ کہا گیا۔یہ یہودیوں کو ان کی جان سے بڑھ کر عزیز تھا۔
۶۔ جب داودؑ نے جالوت کو ہرادیا تو بنی اسرائیل نے انہیں نبی تسلیم کرلیا۔اس تابوت کی حفاظت کے لئے داودؑ نے ہیکل سلیمانی تعمیر کروانا شروع کیا جو کہ ان کی زندگی میں مکمل نہ ہوسکا۔ پھر ان کے بیٹے سلیمانؑ نے تکمیل تک پہنچایا۔
۷۔ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم پر حملہ کیا، ہیکل سلیمانی کو گرادیا۔یہودیوں کو جلا وطن کردیا گیا۔ 
۸۔ سپرس دی گریٹ نے اسے دوبارہ آباد کیااور ہیکل سلیمانی کو بھی تعمیر کیا۔
۹۔ بنی اسرائیل کے آخری نبی عیسیٰؑ کی آمد ہوئی تو یہودیوں نے انہیں ماننے سے انکار کردیا اور یوں دو گروپ بن گئے۔ یہودی اور عیسائی۔
۱۰۔عیسیؑ کے بعد رومی بادشاہ ٹائیٹس نے اس شدت سے یروشلم پر حملہ کیا کہ پورے شہر کو تباہ و برباد کردیا۔ہیکل سلیمانی کو گرادیا۔صرف ایک دیوار بچ گئی جیسے دیوارِگریہ کہا جاتا ہے۔ یہودی اس کے پاس جا کر آہ و زاری کرتے تھے۔اس حملے کے بعد یہودی آخری نبی کے انتظار میں تھے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ وہی انہیں عروج دلائیں گے۔اس بعد یروشلم کو رومی بادشاہ ہیڈریان نے آباد کیا۔
۱۱۔ ٹائٹس کےحملے کے پانچ سو سال بعد نبی محمدﷺ کی آمد ہوئی۔ یہاں یہودیوں کو جھٹکا لگا کیونکہ انہیں لگا تھا کہ نبی بنی اسرائیل میں سے آئیں گے جبکہ وہ بنی اسماعیل سے تشریف لائے۔ یہی تکبر ان کے عناد کا سبب بنا اور انہیں ایمان لانے سے انکار کردیا۔
۱۲۔ عمرؓ بن الخطاب کی خلافت میں یروشلم عیسائیوں کے قبضے میں تھا۔مسجد اقصی کے احاطے میں انہوں نے گرجا گھر تعمیر کروا رکھا تھا۔ یہودیوں کی نفرت میں یہ وہاں گندگی پھینکا کرتے تھے۔عمرؓ نے یروشلم کی فتح کے بعد وہاں صفائی کروا کر مسجد تعمیر کروائی ۔دیوار گریہ قائم رہی اور یہودیوں کو زائرین کی حیثیت سے آنے کی اجازت دی گئی۔
۱۳۔ عبدالملک مروان نے عمرؓ کی بنائی ہوئی مسجد کے اوپر ایک اور مسجد بنائی یوں وہ مسجد اس میں سما گئی۔ ابھی تک یہی تعمیر قائم ہے۔یہ وہ سونے کی گنبد والی مسجد ہے جسے ہم dome of rock  کہتے ہیں۔
۱۴۔ عیسائیوں نے پھر یروشلم پر قبضہ کرلیا جہاں سے صلاح الدین ایوبی نے آزاد کروایااور سات سو سال تک خلافت عثمانیہ کے زیر تسلط رہا۔ یہودیوں نے کئی بار مال کی پیشکش کی کہ یروشلم انہیں سونپ دیا جائے تاکہ وہ اپنا ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کرسکیں لیکن انہیں ہر دفعہ انکار کا سامنا کرنا پڑا۔
۱۵۔دوسری جنگ عظیم کے بعد جب ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام کیا، انہیں انگلینڈ،فرانس اور اسپین سے نکالا گیا تو یہ یروشلم یعنی فلسطین میں آکر پناہ گزین ہوگئے۔ یہاں انہوں نے فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپا اور آہستہ آہستہ ان کے ملک پر قبضہ کرنے لگے۔ان کا یہ کہنا تھا کہ سلیمانؑ نے ہیکل سلیمانی ان کی عبادت کے لئے تعمیر کروایا تھا جو کہ سراسر غلط ہے۔ یہ لوگ مسجد کو ڈھا کر اپنا معبد کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔  فلسطین کے مسلمانوں نے مزاحمت کی اور یہاں سے جنگ کا آغاز ہوا۔
۱۶۔ ۱۹۴۸ میں یہودیوں نے برطانیہ سے سازباز کرکے فلسطین کا وہ حصہ جس پر انہوں نے قبضہ کرلیا تھا، اسے الگ ملک بنالیااور نام اسرائیل دیا۔ یعنی ناجائز قبضہ کرکے انہوں نے اپنا ملک بنالیا۔ اسی لئے پاکستان سمیت دیگر عرب ممالک اسرائیل کی حیثیت تسلیم نہیں کرتے۔
******
ہمارااذیت ناک  حال
؎ وضع میں ہو تم نصاری، تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں،جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
مسئلہ جانتے ہیں کہاں  سےآتا ہے؟ جب ہمارے اپنے مسلمان کنفیوژ ہوجاتے ہیں کہ ہو کیا رہا ہے؟ کون حق پر ہے؟ چلیں،اسے بھی کلیئر کرتے ہیں۔
پچھلے ستر سال سے زائد عرصے سے فلسطینی اسرئیل کے مظالم سہہ رہے ہیں۔ وہ صرف دفاع کرتے تھے۔ اسرائیل کا جب دل چاہتا، کسی حصے میں میں بمباری کردیتا اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ہوتا تھا، تب سب خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔
اب  ذرا سوچیں،آپ ستر سالوں سے مقابل کی برداشت آزما رہے ہیں، کب تک وہ برداشت کرے گا؟ کبھی نہ کبھی تو پلٹ کرجواب دے گا نا،تو اب بھی یہی ہوا فلسطینیوں کےصبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ ۷ اکتوبر کو غزہ کے مقام سے حماس نے راکٹ اسرائیل پر فائر کردیئے۔
؎ ظلم سے سہمی،دکھ سے مگر دہکی ہوئیں
ایسی آنکھوں سے ہی طوفان اٹھا کرتے ہیں
حماس کیا ہے؟ یہ ایک resistance movement  ہے۔سادہ الفاظ میں کہوں تواسلحی جماعت ہے جسے یورپ میں دہشتگردی کی تنظیم کہا جاتا ہے۔ جبکہ یہ صرف اپنے دفاع کے لئے اسلحہ استعمال کرتے ہیں۔یعنی یہ ایک گروپ ہے۔ان کے پاس اسلحہ کہاں سے آتا ہے اس کے بارے میں کوئی ٹھوس بات موجود نہیں ہے۔
غزہ کیا ہے؟ یہ فلسطین کی چھوٹی سے جیل نما ریاست ہے۔اس کا جیوگرافیہ ایسا ہے،ایک طرف سمندر ہے اور دوسری طرف اسرائیلی بارڈر ہے۔چھوٹے سے شہر کے اردگرد چار دیواری ہے۔ غزہ ان چار شہروں میں سے ہے جنہیں اسرائیل نے فلسطین پر ’احسان‘ کرکے انہیں دے دیا تھا۔ لیکن یہودی اپنا گھٹیا رخ دکھانے سے باز کیسے آسکتے ہیں؟ سو اب بھی ان کی رال ٹپکنے لگی ہے کہ کسی طرح یہ چار شہر بھی اسرائیل میں آجائیں۔ سوایک دفعہ آپ اندر چلےجائیں تو باہر نکلنا مشکل ہے۔آمدورفت کا ذریعہ صرف ایک ائیرپورٹ ہے ،جس پر اسرائیلی کسی کو لینڈ نہیں کرنے دیں گے۔
فی الحال کفار کو چھوڑ دیں،وہ تو کبھی ہمارا ساتھ دے ہی نہیں سکتے،ان سے کیا امید لگانا۔ لیکن ہمارے کچھ لبرل قسم کے مسلمان بھی یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب اسرائیل کچھ نہیں کررہا تھا تو حماس کیا ضرورت تھی حملہ کرنے کی؟ مصیبت کو دعوت بھی تو انہوں نے خود دی ہے،اب خود ہی بھگتیں۔ 
تو اس وقت آپ کہاں تھے جب حملہ اسرائیل کررہا تھا؟ جب بچوں کا وحشیانہ طریقے سے قتل عام ہورہا تھا؟ جب عورتوں کی عصمت دری ہورہی تھی، تو کیا آپ نے تب بھی ایسے سوال اٹھائے تھے؟
جنگ سے پہلے ایک چیز ہوتی ہے جسے  fog of war  کہتے ہیں۔ یہ وہ دھند ہوتی ہے جو لوگوں کے ذہنوں اور خیالات پر طاری کردی جاتی ہے۔ اپنا موقف پیش کیا جاتا ہے۔ اگر آسان لفظوں میں کہوں تو خود کو مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔عراق اور کویت کی جنگ میں امریکی سینٹ میں ایک کویتی نرس کو لایا گیا تھا جس نے پوری دنیا کے سامنے روتے ہوئے کہا کہ عراق کے فوجی ہاسپٹلز میں آتے ہیں اور انکیوبیٹرز سے بچوں کو نکال کر قتل کررہے ہیں۔ پوری دنیا کی ہمدردیاں کویت کے ساتھ ہوگئیں، سب عراق کو لعن طعن کرنے لگے، بعد میں پتہ چلا کہ وہ نرس جعلی تھی اور کویت کے سفیر کی بیٹی تھی۔
سو جس کے ساتھ لوگوں کی ہمدردیاں ہوتی ہیں،جو اس fog of war  کا کھیل جیت جاتا ہے، جنگ بھی وہی جیتتا ہے۔ ابھی یہ گیم اسرائیل کے ہاتھ میں ہے۔ وہ خود کو مظلوم بنا رہا ہے کہ ہم پر تو حماس نے پہلے حملہ کیا تھا۔ ہمارے تین سو بندے ماردیئے۔ اتنا قیمتی یہودی خون ضائع کردیا۔ اس قدر وہ ذہنوں کو manipulate  کرچکے ہیں کہ مسلمان بھی ان کے جھانسے میں آکر حماس کو ہی غلط سمجھ رہے ہیں۔ 
اب حقیقت بتاؤں کیا ہے؟
اسرائیل نے چھ دن میں چھ ہزار راکٹ فلسطین پر فائر کردئیے ہیں، اتنے راکٹس امریکہ نے ایک سال میں افغانستان پر برسائے تھے۔ بےانتہا مظلوم اسرائیلی ۳۰۰ مارے جاچکے ہیں جبکہ ظالم اور جابر فلسطینی  سات ہزار کے قریب شہید ہوچکے ہیں۔ وہ اس قدر نہتے ہیں کہ گولی کے جواب میں صرف پتھر ہی اٹھا سکتے ہیں۔اسرائیل نے اپنے حملے ہاسپٹلزاور فیکٹریوں پر کئے۔ اسے پتہ ہے کہ اگر ایک دفعہ ان کی سپلائی ختم ہوگئی تو باہر سے کوئی مدد نہیں آئے گی۔
وہاں کے بچے رو رو کر صلاح الدین ایوبی کو پکاررہے ہیں۔یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے ہمارے لئے کہ زندہ کو چھوڑ کرمرے ہوؤں کو پکارا جارہا ہے۔یعنی ہماری حالت مردہ سے بھی بدترین ہے۔
گولڈنا میر جو کہ اسرائیل کی چوتھی صدر رہی ہے، کہتی ہے کہ جب ہم نے پہلی دفعہ فلسطین پر راکٹ فائر کئے تو ہمیں ساری رات نیند نہیں آئی۔ ہم اتنے خوفزدہ تھے کہ نجانے صبح مسلم امت ہمارا کیا حشر کرے گی؟ عرب تو ہمارے چیتھڑے اڑا دیں گے۔ صبح ہوئی تو ہم نے بےتابی سے ایک دوسرے سے پوچھا کہ کیا ہوا تو ہمیں جواب ملا، کچھ بھی نہیں۔Not a single word from anyone ۔ کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ تب میں سمجھ گئی کہ یہ قوم اتنی بےغیرت ہوچکی ہے کہ ان پر اب کچھ اثر نہیں کرے گا سو ہم کھل کر حملے کرنے لگے۔
یہودیوں کے ایک مشہور رباعی( مذہبی عالم) نے کہا کہ ہم کسی سے نہیں ڈرتے۔ کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا سوائے پاکستان کے۔ ان یہودیوں کو پتہ تھا کہ پاکستان کے نواجون اور یوتھ کیا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے، یہ کیا کرسکتے ہیں پھر انہوں نے ہمیں کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا۔ انہوں نے ہمیں اس طرح موبائلز اور دنیا کمانے کی ریس میں شامل کردیا کہ ہم اونچے مقاصد کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکے۔
آپ نے سوشل میڈیا پر کئی ویڈیوز دیکھی ہوں گی۔آپ میں سے اکثر ہوں گے جو ایسی چیزیں دیکھ ہی نہیں سکتے۔میں بھی نہیں دیکھ سکتی تھی،مگر میں نے خود کو مجبور کیا، کیونکہ دیکھے بغیر ان کا غم محسوس ہی نہیں ہوگا۔ خود کو وہ سب دکھائیں، ان کی بےبسی دکھائیں اور اپنی بےحسی بھی دیکھیں۔ ایک لمحے کے لئے آنکھیں بند کرکے خود کو ان کی جگہ پر رکھیں۔
اس پندرہ سالہ حمزہ کی جگہ جس نے نے اپنے سامنے اپنی پوری فیملی کو مرتے دیکھا پھر وہ ذہنی طورپر اتنا خوفزدہ ہوگیا کہ اس نے خودکشی کرلی۔
اس چھ سال کے بچے کی جگہ جس کا چہرہ ایسے منسخ ہوچکا ہے کہ وہ درد کی وجہ سے چیختا ہے تو آواز نہیں آتی۔ جس کا پورا جسم بےترتیب ہوچکا ہے۔
اس بچی کی جگہ جو بےتابی سے اپنے باپ کا انتظار کررہی تھی، یہ جانے بغیر کہ اب وہ کبھی نہیں لوٹے گا۔
اس شخص کی جگہ جو جاب پر گیا تھا اور جب واپس آیا تو اس کا گھر تباہ ہوچکا تھا۔ گویا کبھی وہاں تھا ہی نہیں۔
ان عورتوں کی چیخیں سنیں جب انہیں پتہ چلا کہ ان کے بچے شہید ہوچکے ہیں۔ وہ چیخیں اندر تک ہلاکر رکھ دیتی ہیں۔
صرف ایک لمحے کے لئے خوکو اس  scenerio  میں رکھیں۔ آنکھیں بند کریں اور سوچیں کہ جب آپ گھر واپس آئیں تو آپ کو کوئی نہ ملے،سب ختم ہوچکا ہو۔ ہوسکتا ہے آپ کو برا لگے کہ میں نے ایسا کیوں کہا؟ یہی تو مسئلہ ہے،ہم تب تک اس درد کو محسوس نہیں کرسکتے، جب تک یہ ہم پر نہ آئے ۔
ایک اور اہم بات، عموما یہ سننے میں آتا ہے کہ فلسطین کی جنگ ہورہی ہے۔ ایک منٹ، یہیں رک جائیں۔ چار لفظ یاد کرلیں۔
جنگ۔ قتال۔War۔Conflict
ان سب کا مطلب ایک ہی ہے۔ دو گروہوں کی آپس میں لڑائی ۔ جب کہ دونوں گروہ اپنی مرضی سے لڑ رہے ہوں ، دونوں کے پاس ایک جیسے نہ سہی لیکن وسائل موجود  ہوں، وہ جنگ ہوتی ہے، قتال ہوتا ہے۔
لیکن فلسطین اور اسرائیل کا یہ ایشو جنگ تو ہے ہی نہیں۔ فلسطین کے پاس تو کوئی دنیاوی وسیلہ نہیں ہے اور اسرائیل کے پیچھے پوری دنیا ہے۔ فلسطینی یہ جنگ نہیں چاہتے، وہ اپنے گھر میں امن سے رہ رہے تھے۔ یہ اسرائیلی ان پر مسلط ہوگئے۔یہ قتال نہیں ہے۔
This is not a war or conflict. This is a GENOCIDE.
یہ لفظ یاد رکھیں۔ یہ genocide   ہے۔ یہ زبردستی ہے،جبریت ہے، ظلم ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیوں یہ آزمائش ان پر آئی ہے؟ ان بچوں کا کیا قصور تھا جو کھیلنے کودنے کی بےفکر عمر میں پہاڑ جتنے غم اٹھا رہے ہیں؟ سادہ سا جواب ہے۔
یہ ان سے زیادہ ہماری آزمائش ہے۔ اللہ اس کے ذریعے کھرے اور کھوٹے کو الگ کرے گا۔ وہ اپنے بندوں کو اور ابلیس کے ایجنٹس میں تفریق کرے گا جیسے غزوہ بدر و احد میں کیا تھا ۔
حدیث میں آتا ہے:
میری امت کا ایک گروہ حق پر ہوگا اور انہیں کوئی چیز تکلیف نہیں دے سکے گی، جب تک اللہ کا حکم نہیں آجاتا۔وہ اسی حق پر قیامت تک لڑتے رہیں گے۔
صحابہؓ نے پوچھا کہ یارسول اللہﷺ یہ کون سے لوگ ہوں گے؟
فرمایا کہ وہ بیت المقدس میں اور اس کے اردگرد ہوں گے۔
یہ فلسطینی تو ان شاءاللہ، باذن اللہ، کامیاب ہیں۔ ان کے لئے احادیث میں بشارتیں ہیں۔ جنتیں ان کے شہدا کی منتظر ہیں۔ پھنس ہم گئے ہیں۔ ہم اپنے کوزی بیڈرومز میں بیٹھے نام نہاد مسلمان پھنس گئے ہیں۔  اس مسئلے میں صرف دو راستے ہیں۔ فلسطین (حق) کا راستہ یا پھر اسرائیل( باطل) کا طریق۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ کوئی غیر جانبداری نہیں ہے۔ جو خاموش ہیں، وہ غیر جانبدار ہیں، یہ غیرجانبداری باطل کا راستہ ہے۔ کیونکہ اگر آپ حق پر ہیں تو پھر خاموش رہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ آپ کی خاموشی خود بتادے گی کہ آپ نےکون سی سائیڈ چن لی ہے۔ اللہ آپ کو اس کے ذریعے ٹیسٹ کررہا ہے، کون کتنا میرے راستے پر ہے۔ اپنی محبت اور وفا اس کے سامنے ثابت کریں۔
مزید یہ genocide  اللہ کی طرف سےایک wake up call  ہے۔ یہ بتا رہا ہے کہ آخری وقت آنے والا ہے۔ کسی بھی لمحے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔پلٹ آؤ اپنے رب کی طرف، اس کی طرف بھاگو، اس کے سائے میں پناہ حاصل کرو،کیونکہ بس وہی پناہ ہے۔ خود کو بچائیں، یہ وارننگ ہے، خود کو اللہ کی ناراضی سے بچانے کے لئے جو کرنا پڑے کرگزریں،جو گناہ نہیں چھوٹ رہا وہ چھوڑ دیں، ابھی نہیں چھوڑیں گے تو کب چھوڑیں گے؟ وقت ختم ہورہا ہے۔
ہمارے قدامات
ہم جہاد نہیں کرسکتے۔ بالفرض اگر ہمارے حکمران جاگ بھی جائیں تو بھی وہاں جانا بہت مشکل ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ہم ابھی کیا کرسکتے ہیں؟ ہم نوجوان،ہم یوتھ کیا کرسکتے ہیں؟ چھوڑ دیں باقی کیا کررہے ہیں؟ حکمران کچھ کررہے ہیں یا نہیں، ابھی خود کو دیکھیں بس۔ ابھی خود کو اللہ کی آگ سے بچا لیں۔
اب میں آپ کو جو بھی بتاؤں گی، ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہنوں میں سوال اٹھے کہ ایک میرے کرنے سے کیا ہوگا؟ چلیں، اس کا جواب آخر میں ڈھونڈیں گے، ان شاءاللہ۔
دعا   
اللہ ہم سے ناراض ہے، اسے منائیں۔ معافی مانگیں۔لوٹ آئیں، پلٹ کر اس تک آجائیں، وہ وہیں ملے گا۔ کچھ نہیں کرسکتے تو دعا کریں۔صرف سرسری سا مت مانگیں۔ دل سے،تڑپ کر، گڑگڑا کر مانگیں۔ آنکھیں بند کر پہلے خود کو ان کی جگہ پر محسوس کریں ، سوچیں کہ اگر آپ کا گھر مسمار کردیا جائے، فیملی کا کچھ پتہ نہ ہو،بھوک،پیاس،خوف،اذیت ہر دردناک جذبہ چھایا ہو،اب آنکھیں کھولیں اور شدت سے مانگیں ، ان کی آسانی مانگیں۔ ہر نماز کے بعد، تہجدمیں، اذان کے بعد،جمعے کو عصر سے مغرب کے درمیان،بارش میں، جہاں مانگ سکتے ہیں مانگیں۔  تاکہ جب آپ سے پوچھا جائے کہ میرے بندے وہاں اذیت میں تھے تو تم نے کیا کیا،آپ سرخرو ہوں کہ میرے بس میں دعا تھی، میں نے وہ شدت سے کی۔
آواز اٹھائیں
جب ہولو کاسٹ ہوا تھا(یہودیوں کا قتل عام) تب ان یہودیوں نے اتنی لابینگ کی، اتنی تحریکیں چلائیں، اتنا واویلا مچایا کہ بچے بچے کو اس کے بارے میں حفظ ہوگیا۔ تعداد انگلیوں پر ازبر ہے۔ ہمیں بھی یہی کرنا ہے، ان کے ہتھیاروں سے انہی کو مارنا ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی  movements  جو ہوئیں وہ عام لوگوں نے شروع کی تھیں۔ جن میں Black lives matter  سرفہرت ہے۔سو آپ بھی شروع کریں۔ بھلے ہی آپ کا ایک ہی فالوور ہے، تب بھی اسٹوریز لگائیں، پوسٹ کریں، ہیش ٹیگز یوز کریں، واٹس ایپ پر اسٹیٹس لگائیں۔ یقین کریں اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔ اگر نہ فرق پڑتا تو لوگوں کے اکاؤنٹس shadowban  نہ کئے جاتے۔  جتنا political pressure  کریٹ کرسکتے ہیں،کریں۔اپنے اردگرد کے لوگوں کو بتائیں۔ دوستوں کو،کولیگز کو، فیملی کو۔ سب کو اس مسئلے سے آگاہ کریں۔ اگر آپ کے پاس لکھنے کی صلاحیت ہے تو اسے استعمال کریں۔لیکن مہذب طریقے کے ساتھ، جو بحث کرے اسے چھوڑدیں۔ جواب اللہ خود دے گا۔بحث سے اجتناب کریں۔
بس ایک چیز کا دھیان رکھئے گا، کوئی ایسی ویڈیو شئیر مت کریں جس کے بیک گراؤنڈ میں میوزک ہو۔ جتنے لوگ سنیں گے،گناہ آپ کے ذمے ہوگا۔ یہی لوگ آپ کو اپنی نیکی دے نہیں سکتے لیکن آپ ان کا گناہ اٹھائیں گے۔آپ خود سنتے ہیں، ٹھیک ہے اپنا گناہ خود اٹھائیں، لیکن دوسرے اجنبی لوگوں کے گناہ کیوں اٹھائیں گے جوآپ کے کسی کام نہیں آسکتے؟ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ سو احتیاط کریں۔
اپنی تاریخ جانیں
واللہ العظیم، یہ یہودی اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں مسلمانوں کو ان کے ہیروز کے بارے میں پتہ نہ چل جائے، وہ اپنے شاندار ماضی سے آگاہ نہ ہوجائیں۔اس لئے انہوں نے ہمیں ذہنی طور پر مفلوج کردیا ہے۔ خود یہ یہودی اپنی شادی میں، فنکشن کے عروج میں پیروں سے گلاس توڑتےہیں، اس ہولوکاسٹ کی یاد میں، اپنے مذہبی جگہوں کی ڈھائے جانے پر۔ جب وہ اپنی خوشی کے موقعے پر اپنا غم نہیں بھولتے تو ہم کیوں اپنے مسلمانوں  کا قتل بھول جاتے ہیں۔سو اپنی تاریخ جانیں تاکہ کوئی آپ کو بھٹکا نہ سکے۔ اپنے اردگرد جو لوگ آپ کے دائرے میں آتے ہیں، انہیں تعلیم دیں۔ اپنے بہن بھائیوں کو ان کے ہیروز کے بارے میں بتائیں۔ بچوں کو یہ چیزیں بہت انسپائر کرتی ہیں، وہ پلٹ کر بھی موبائل کی طرف نہیں آئیں گے۔اپنے ماضی کے اسرار کے سفر پر ملیں،یقین کریں کہ ایسے گوہرنایاب ملیں گے آپ حیران رہ جائیں گے۔کیا ہم سے زیادہ بےحس کوئی ہوسکتا ہے جنہیں اپنی تاریخ کا ہی نہیں پتہ؟ اپنے ماضی کے نشیب و فراز سے لاعلم ہیں؟
اگر آپ کے پاس علم ہے تو یہ نہایت بھاری ذمہ داری ہے۔نہیں ہے، تو سیکھیں۔اچھا ہم تاریخ اس لئے نہیں پڑھتے کہ بورنگ ہوتی ہے، الفاظ بہت مشکل ہوتے ہیں اور ہم ٹھہرے کہانیوں والی جنریشن  تو ہمیں ایسی کہانیاں ہی انسپائر کرتی ہیں جن میں جذبات نگاری ہو، منظرنگاری ہو۔ نبیﷺ کی تاریخ سے شروع کریں۔(محمد عربیﷺ نامی کتاب سے، واللہ یہ کتاب آپ کو رلا دے گی، بالکل کہانی کے سٹائل میں ہر جذبے کو دکھایا گیا ہے۔) صحابہؓ نبیﷺ سے اس لئے اتنی محبت کرتے تھے کیونکہ وہ انہیں جانتے تھے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں، سوائے گنتی کے چند واقعات کے ہمارا علم بہت محدود ہے۔ اپنا علم وسیع کریں۔ کیونکہ جو انہیںﷺ جان لیتا ہے پھر وہ ان پر جان دیتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ہماری زندگیوں میں کوئی بدلاؤ نہ آئے لیکن ہم ایسے رستے ضرور بنا جائیں گے جن پر آنے والی نسلیں قدم بڑھا سکیں۔
صدقہ کریں
اپنے مال میں سے،پاکٹ منی سے یا سیلری سے ایک حصہ فلسطین کے لئے مختص کردیں۔ اگر آپ خود مختار نہیں ہیں تو اپنے بڑوں کو اس کے لئے ابھاریں، اگر وہ کان نہ دھریں تو طریقے سے قائل کریں۔ خود نہیں بھیج پارہے تو کسی کے ہاتھ بھجوا دیں۔ پھر بھی کوئی راستہ نہیں ہے تو نیت رکھیں کہ جب بھی موقع ملے کا صدقہ ضروری کریں گے، یقین کریں راستہ نکل آئے گا اور اجر مل جائے گا ان شاء اللہ۔ ہوسکتا ہےکہ آپ کی رقم سے خریدی گئی پانی کی بوتل یا دوائی کسی کی جان بچا لے۔ آپ کے پاس ساری انسانیت کو بچانے کا اجر ہوگا ۔ کم بھی ہے توبھی مت جھجھکیں ، بس وہ صدقہ کریں جو آپ کو فقیر نہ کرے۔ جس طرح بھی انویسٹ کرسکتے ہیں، کریں۔
حدیث میں روایت ہے:
تم میں سے جو استطاعت رکھتا ہے وہ بیت المقدس میں دو نفل لازمی پڑھے۔اگر تم نہیں پڑھ سکتے تو مسجد کے چراغوں کے جلنے کے لئے دئیے ہی بھیج دو۔
یعنی اس حد تک ہمیں انویسٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
BDS
یہ بہت ضروری ہے۔ ان تمام کمپنیز کی پروڈاکٹس کا بائیکاٹ کردیں جو اسرائیلی ہیں یا ان کا منافع اسرائیل کو جاتا ہے۔ ان کا مکمل بائیکاٹ کردیں۔ یہ چیز ان کو معاشی طورunstable  کرے گی۔ ہوسکتا ہے،زیادہ فرق نہ پڑے لیکن یہی قطرے کبھی نہ کبھی قلزم بنا دیں گے۔ ریسرچ کریں کہ کون کون سی کمپنیوں میں اسرائیل شئیرہولڈر ہے، ان کا مکمل بائیکاٹ کردیں۔
جب میں نے ریسرچ کی تھی تو زیادہ تر چیزیں جنک فوڈ میں سے تھیں یا پھر ایسی چیزیں جن کے بغیر ہمارا گزارا ممکن ہے۔ اگر آپ میکڈونلڈز یا  KFC  نہیں کھائیں گے، کوک یا پیپسی نہیں پیئں گے تب بھی آپ کی زندگی گزر جائے گی اور ان شاء اللہ بہتر ہی گزرے گی۔ اسٹاربکس کے شئیرز پچھلے بیس دنوں میں $97 سے $92 پر آگئے۔ پڑگیا نا فرق۔
اب جو سوال آپ کے ذہنوں میں اٹھ رہا ہے نا کہ صرف میری ایک اسٹوری لگانے سے کیا ہوگا؟ یا اگر میں KitKat  کی ایک چھوٹی سی چاکلیٹ کو چھوڑ دوں تو کون سے اسرائیل کے ٹینک تباہ ہوجائیں گے؟ میں بالکل بھی اس کا جواب ’ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے‘ نہیں دوں گی، نہ ہی یہ کہ ابھی فرق نہیں پڑے گا لیکن کبھی نہ کبھی تو پڑہی جائے گا۔ اونہوں، یہ سب بھی ہے۔ لیکن میرا جواب کچھ اور ہے۔
شروع میں،میں نے آپ سے کہا تھا کہ یہ فلسطیننیوں کی آزمائش سے زیادہ ہماری آزمائش ہے۔تو یہ ایک اسٹوری لگانے سے، زبان کا معمولی سا چسکا چھوڑ دینے سے آپ خود کو بچا لیں گے۔ آپ اللہ کے عتاب اور غضب سے خود کو بچالیں گے۔آپ کہہ سکیں گے کہ جو میرے بس میں تھا، میں نے کیا۔ جہاں تک میری استطاعت تھی،میں نے لڑائی جاری رکھی۔ آپ اپنے آپ کو اللہ کی نگاہوں میں سرخرو کردیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ واقعی کوئی فرق نہ پڑے لیکن،میں نے کہانا، آپ خود کو بچا لیں گے۔
یہ اہل فلسطین کے لئے نہیں ہے، یہ آپ کے لئے ہے۔ یہ سب کرکے آپ کوئی احسان نہیں کررہے، آپ خود کواس عذاب سے بچا رہے ہیں، جو سب ختم کردے گا۔ پہلے خود کو بچائیں۔
قرآن سے جڑ جائیں
سب سے زیادہ اور سب سے ضروری،حاملین قرآن میں سے ہوجائیں۔ یہ آخری دور چل رہا ہے۔ وقت ختم ہونے والا ہے۔ یہودی practicing  ہیں۔ وہ اپنے مذہب پر مکمل عمل کررہے ہیں۔ ان سے لڑنے کے لئے ہمیں اپنے دین کی طرف پلٹنا ہوگا۔یہ مت دیکھیں کہ ماضی میں کتنے گناہ کئے ہیں، حال میں آپ کیا کررہےہیں، بس قرآن شروع کردیں۔ باقی کے راستے رب آسان کردے گا۔
The Jews in Quran are Jews but the Muslims in Quran are not Muslims.
دوبارہ پڑھیں اس کو۔
قرآن نے یہودیوں کی مکاریوں اور چالوں کے بارے میں جو بھی بتایا تھا، یہ یہودی آج بالکل ویسے ہی ہیں۔ لیکن ایک مومن کا جو نقشہ اور کردار قرآن میں موجود ہے، آج کے مسلمان ویسے نہیں ہیں۔اپنا ایمان بڑھائیں۔ ہم ایمان کے لحاظ سے اتنا گررہے ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ فلسطین کے بچے کا ایمان بھی ہم سے زیادہ ہوگا۔ کیا آپ کے اندر اتنی ہمت ہے کہ اپنے مسمار اور تباہ ہوئے گھر کے پتھروں پر بیٹھ کر آپ قرآن کی تلاوت کرسکیں؟ کیاآپ سب ختم ہوجانے پر الحمداللہ کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟خود سے پوچھیں اور ایمانداری سے جواب دیں۔آپ کو خود ہی پتہ چل جائے گا ابھی آپ نے اپنے ایمان پر کتنا کام کرنا ہے؟
؎شہیدانِ دین کے حوصلے تھے دید کے قابل
وہاں شکر کرتے تھے جہاں صبر مشکل تھا
سو قرآن سے اپنا رشتہ مضبوط کریں۔ یہی روشنی دکھائے گا، یہی نجات دلائے گا، یہی عروج تک پہنچائے گا۔خود کو مایوسی سے نکالیں اور اللہ کے قرآن کی طرف پلٹ آئیں، اس سے پہلے دیر ہوجائے اورمہلت ختم ہوجائے۔
******
ہمارا مبہم مستقبل
 ؎ ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
سوال یہ ہے کہ اس سب کا اختتام کہاں ہوگا؟سب کو پتہ ہے۔اللہ نے یہ دنیا کیوں پیدا فرمائی تھی؟ محمدﷺ کو کیوں مبعوث فرمایا تھا؟ تاکہ پورے عالم میں اللہ کا دین پھیل جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا، قیامت قائم نہیں ہوگی۔ کیونکہ دنیا مقصد ہی دین للہ تھا۔یعنی  اینڈ کیا ہے؟
اسلام کا ہر گھر میں داخل ہوجانا۔
یہودی انتہائی مکار، شاطر اور ایک طرح سے گھٹیا قوم ہیں۔ انہیں یورپ سے ان کی اخلاقی بیماریوں کی وجہ سے نکالا گیا تھا۔ ہٹلر نے جب ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کیا تھا اور چند ہزار کو چھوڑ دیا تو کہا تھا  
’’ میں ان کو اس لئے چھوڑ رہا ہوں تاکہ دنیا سمجھ جائےکہ میں نے ان کو قتل کیوں کیا تھا؟‘‘
یہی تو ہورہا ہے۔ ان چند ہزار یہودیوں نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ حتی کہ ایک طرح سے امریکہ بھی انہی کے کنٹرول میں ہے۔ ان کی پلاننگ بہت جامع اور مضبوط ہوتی ہے۔
اب ہم انتظار کررہے ہیں، امام مہدی اور عیسیؑ کا، یہ انتظار کررہے ہیں دجال کا۔ یہ سمجھتے ہیں کہ دجال ان کا مسیحا ہوگا۔ ان کو عروج تب ملے گا جب تیسری دفعہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہوگی۔ یاد کریں جو اوپر پڑھا ہے، دو دفعہ ہوچکی ہے،تیسری دفعہ باقی ہے۔  احادیث کے مطابق جس جگہ عیسیؑ دجال کو قتل کریں گے،باب لد، وہاں یہ دجال کے فرار کے لئے ائیرپورٹ بھی بنا چکے ہیں۔ نیز جو درخت قیامت کے نزدیک انہیں پناہ دے گا، غرقد، اس کو بھی کروڑوں کی تعداد میں یہ لگا رہے ہیں۔ ہمارے نبیﷺ کی حدیثوں پر ہم سے زیادہ تو انہیں یقین ہے۔اب  ان کا فلسطین کے لئے کیا پلان ہے؟
۱۔ Ethnic cleansing of muslims
۲۔ مسجد اقصی کو ڈھا کر ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جائے۔
اب یہ ethnic cleansing  کیا ہے؟
مسلمانوں کو مکمل اس جگہ سے نکال دیا جائے۔ پہلے یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں پر حکومت کی جائے۔ اب ان کا پلان یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہاں سے جلاوطن کردیا جائے ۔ جو نہ نکلنا چاہے،اسے چن چن کر قتل کردو۔ اس سے پہلے مسلمانوں کی ethnic cleansing  اسپین میں ہوئی تھی۔ گلیوں میں خون کی ندیاں بہہ گئی تھیں۔ اب ان کا یہ پلان فلسطین کے لئے ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد اور دیگر کچھ علما اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ مسجد اقصی کو ڈھا دیا جائے گا۔ کس بنا پر وہ یہ بات کہتے ہیں؟
عالمی تاریخ میں ایک بہت بڑی اور وحشیانہ جنگ لڑی جائے گی۔بائبل میں اس جنگ کو Aramageddon  کہا گیا ہے۔ اس کی definationڈکشنری میں کچھ ایسی ہے:
The most brutal war in the history of mankind.
اسلام میں یہ کیا ہے؟ احادیث کے مطابق اسے ملحمتہ الاعظمیٰ کہا گیا ہے۔
ملحمتہ۔ حلم سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں گوشت۔ ملحم کہتے ہیں قصائی کی دکان کو۔
اعظمی۔ یہ اعظم کا مونث ہے۔ یعنی عظیم سے بھی بڑی۔ سب سے اوپر کا لیول۔
سو اس کا کیا مطلب ہوا؟ یہ اتنی وحشت ناک جنگ ہوگی کہ انسانی خون پانی کی طرح بہایا جائے گا۔ یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔حدیث میں آتا ہے:
’’ اگر ایک شخص کے سو بیٹے ہوں گے تو نناوے مارے جائیں گے۔‘‘
’’اگر ایک پرندہ ہوا میں اڑ رہا ہوگا، تو اسے اترنے کے لئے زمین نہیں ملے گی، صرف لاشیں ہوں گی۔‘‘ (صحیح مسلم: ۲۸۹۹)
اس ملحمتہ العظمی کی وجہ کیا ہے؟
یہ واضح طور پر نہیں بتایا گیا۔ اسی لئے کچھ علما بشمول اسرار احمد رحمتہ اللہ نے یہ اتفاق کیا ہے کہ وجہ مسجد اقصی کی مسماری ہی ہوگی۔ ان کے پاس مزید دلائل بھی ہیں، وہ بھی آہستہ آہستہ دیکھتے ہیں۔
حدیث میں فرمایا گیا ’’ ویل اللعرب‘‘۔ عرب کے لئے ہلاکت ہے۔ کیوں؟ قیامت کے قریب عرب کے ہاتھ سے تمام علاقے نکل جائیں گے۔مصر،شام،لبنان، ترکی کا جنوبی حصہ اور سعودیہ عرب کا شمالی حصہ، یہ سب یہودیوں کے قبضے میں ہوگا۔پھر مسلمانوں کا عروج کہاں سے شروع ہوگا؟
حدیث میں آتا ہے کہ میری امت پر پانچ دور آئیں گے:
۰عہد رسالت
۰عہد خلافت الی سنت رسولﷺ
۰عہد ملوکیت (بادشاہی نظام)
۰عہد جبریت (مسلمان غلام ہوں گے)
۰عہد خلافت
ہم چوتھے اور پانچویں دور کے درمیان میں ہیں۔ بظاہر غلام نہیں ہیں، پاکستان آزادہوچکا ہے، ہم پر سیاسی جبریت نہیں ہے۔ لیکن ذہنی طور پر ابھی بھی غلام ہی ہیں۔پانچواں دور کب شروع ہوگا؟
جامع ترمذی کی حدیث میں روایت ہے:
’’ خراسان سے سیاہ جھنڈے لے کر فوجیں آئیں گی اور کوئی ان کا رخ نہیں موڑ سکے گا، یہاں تک کہ وہ ایلیا میں جاکر جھنڈے نصب کردیں گی۔‘‘
اب اس میں دو چیزیں ہیں، خراسان اور ایلیا۔
ایلیا: جو تاریخ اوپر پڑھی ہے، اسے ذرا دہرائیں۔ ٹائٹس نے یروشلم پر حملہ کیا، ڈیڑھ سو سال یہ ویران رہا۔ اس کے بعد رومی بادشاہ ہیڈریان نے اسے آباد کیا اور اس کا نام ایلیا رکھا۔ رسولﷺ کے زمانے تک یروشلم،ایلیا تھا اور اب فلسطین ہے۔ سو یہ طے ہے کہ فلسطین مسلمانوں کے قبضے سے نکل جائے گا اور اہل خراسان اسے حاصل کریں گے۔
خراسان: رسولﷺ کے زمانے میں خراسان ایک ملک تھا جو اب ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے۔اس میں درج ذیل علاقے آتے ہیں۔
۰ ایران۔ اس کے ایک چھوٹے سے صوبے کا نام اب بھی خراسان ہے۔( اسرائیل کے صدر کا وہ بیان سنیں جس میں اس نے کہا ہے کہ ہمیں صرف ایران سے خدشہ لاحق ہے۔)
۰افغانستان کا تین چوتھائی حصہ۔
۰وسطی ایشیا کی مسلمان ریاستیں۔ soverign states  ۔جو کہ پہلے روس کا حصہ تھیں۔ تاجکستان، ازبکستان وغیرہ۔
۰پاکستان کا خیبرپختون خوا کا حصہ۔ مالا کنڈ ایجنسی سے لے کر واخان کی پٹی تک۔
یہ تمام علاقے ملا کر رسولﷺ کے زمانے میں خراسان تھا۔
ابن ماجہ کی حدیث میں روایت ہے:
’’ مشرق سے فوجیں نکلیں گی جو عرب میں مہدی کی حکومت قائم کریں گی۔‘‘
مشرق میں ایران،افغانستان اور پاکستان شامل ہیں۔ یعنی وہی اہل خراسان ہی جو مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہیں۔
ان احادیث یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ عرب کے ہاتھوں سے تمام علاقے نکل جائیں گے۔پھر امام مہدی کی تشریف آوری ہوگی اور پھر دجال کا فتنہ ابھرے گا جو کہ بذات خود اپنے اندر بہت ڈیٹیل رکھتا ہے۔ فلسطین کے اس مسئلے کا دجال سے بھی کنیکشن ہے، جسے ہم پھر کبھی پڑھیں گے۔
سو ایک بات تو کلئیر ہے کہ مستقبل ہمارا ہے۔ گوکہ اس عروج تک پہنچنے کے لئے راستہ کافی کٹھن ہے۔ 
******
اب سب کلئیر ہوجانا چاہیے ان شاء اللہ کہ کیا ہوا تھا، کیا ہورہا ہے اور آپ کو کیا کرنا ہے۔ لیکن ایک چیز کا دھیان رکھئے گا، جوش اور جذبات میں آکر اپنے باقی مقاصد اور ذمہ داریاں مت بھول جائیے گا۔ اپنی اسٹڈیز پر فوکس رکھیں، جاب کرتے رہیں، فیملی کا خیال رکھیں۔یہ نہ ہو کہ آپ کا پورا گھر آپ سے تنگ آیا ہو اور آپ فلسطین کے لئے آن لائن جہاد کررہے ہوں۔ وہ حدیث یاد رکھئے گا جس میں رسولﷺ نے اس شخص کو جہاد میں جانے سے روک دیا تھا،جس کے بوڑھے والدین تھے۔ سو پہلے اپنے فرائض پورے کریں اور اپنی جنگ کو ساتھ ساتھ جاری رکھیں۔ Extremist نہیں بننا۔ کسی چیز کو انتہا پر نہیں لے کر جانا۔ سب چیزوں کو بیلنس رکھیں۔ معتدل رہیں۔
ایک بار پھر میں اس بات پر emphasize  کروں گی کہ بحث مت کیجئے۔ جو نہیں قائل ہورہا چھوڑ دیجئے، اس کا معاملہ اللہ دیکھ لے گا۔ ہم بحثوں میں پڑ کر وقت ضائع کرتے ہیں۔صرف آواز اٹھائیں اور آگاہی پھیلائیں۔یہ سفر بہت لمبا ہے، جنگ بھی طویل ہے۔
یہ ویڈیوز دیکھ کر یا حالات سن کر دل برداشتہ نہیں ہونا۔ اپنے آپ کے ساتھ ظلم نہیں کرنا۔ اکثر لوگ ڈپریس ہورہے ہیں کہ فلسطین میں یہ سب ہورہا ہے،ہم کیسے سکون سے زندگی گزاریں۔ دیکھیں، درد محسوس کرنا بہترین ہے لیکن ان کا مالک بھی اللہ ہے۔ سب اس کی نگاہ میں ہے۔ آپ نے کچھ نہیں چھوڑنا۔ یہی تو یہ اسرائیلی چاہتے ہیں کہ مسلمان مکمل ذہنی طور پر مفلوج ہوجائیں۔ پھر یہ ہم پر حملہ کریں گے اور ہم کچھ نہیں کرسکیں گے۔ انہیں کامیاب مت ہونے دیں۔ اپنی روٹین جاری رکھیں،بس فلسطین کو نہیں بھولنا۔ ابھی تو یہ آغاز ہے۔ اگر ہمارے دور میں ہی ملحمتہ العظمی ہوگئی اور پھر دجال آگیا تو آپ کیا کریں گے؟ یوں ہمت ہار دیں گے؟ اونہوں، خود کو مضبوط کریں،اللہ کو قوی مومن پسند ہے۔ آپ نے لڑنا ہے اور آخری سانس تک لڑنا ہے، کیا پتہ آپ ہی سب بدل دیں؟ 
کون جانے کہ آپ ہی وہ  change agent  ہوں؟
؎ تو میری چال سے بھی واقف ہے تو کیا ہوا
میں اپنے جذبے بھی تجھ پر عیاں کردوں گا
ان شاء اللہ۔السابقون الاولون بنیں۔ پہلوں میں پہل کرنے والے۔ کیوں ابو بکرؓ کا مقام اتنا بلند ہے؟  کیونکہ انہوں نے رسولﷺ کا ساتھ تب دیا تھا جب ہر طرف مایوسی تھی، فتنہ تھا، اندھیرا تھا۔ اب بھی یہی سب کچھ ہے۔ ابوبکرؓ کے طرز عمل کو یاد کریں اور میدان میں کودجائیں۔ فتح ہماری ہے ان شاء اللہ۔
مسجد اقصی اور فلسطین کے لئے لڑتے رہیں۔ جہاد بلقلم کریں۔ آواز اٹھائیں۔ بائیکاٹ کریں۔ خود کو اللہ کے سپاہیوں کی لسٹ میں شامل کریں۔ فالوورز کھونے سے یا لوگوں سے نہ ڈریں۔ اللہ سے ڈریں، اس کے عذاب سے ڈریں۔آزمائش ہماری ہے۔اس میں پورا اترنے کے لئے جو کرنا پڑے کرگزریں۔
’’مومنوں میں (ایسے)لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ سے کیا تھا، انہیں سچ کردکھایا،بعض نے تو اپنا عہد پورا کردیا اور بعض منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔‘‘( الاحزاب: ۲۳)
شہدا نے اپنا وعدہ پورا کردکھایا۔ آپ نے بھی تو وعدہ کیا تھا۔ ہمیشہ بندگی کرنے کا۔ کلمہ پڑھ کر خود کو اس کے سپرد کردینے کا۔ موقع دے دیا گیا ہے۔
آپ  کب اپناوعدہ پورا کریں گے؟
*******
اَللھُمَّ اَنْصُرِالمُسْلِمِیْنَ فِي فَلَسْطِیْن
******






Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *