Complete Article
Esha Afzal
Article: Ek Paigham
Writer: Esha Afzal
Instagram: @esha_afzal_writes
status: complete
آرٹیکل
” ایک پیغام”
ازقم:عشاء افضل
اس وقت کی اشد ترین ضرورت ہے کہ اب ہم ان تمام وجوہات کا جائزہ لیں جن کی بدولت ہم مسلمان اس حد تک کمزور ہو چکے ہیں کہ مظلوم فلسطینی اور کشمیری مسلمان برسوں سے مظالم کا شکار ہیں اور ہم کچھ بھی نہ کر پائے۔
ہم نے مغرب کو اپنے لیے مثال بنا لیا۔ مغرب کے برینڈز پہننا فیشن بنا لیا۔ ان کی صنعتوں میں بنی اشیاء کو استعمال کرنے کا رجحان بن گیا۔ ہم کے ایف سی، میکڈونلڈز، برگر کنگ اور سٹار بکس سے کھا کر فخر محسوس کرنے لگے۔ ہمیں اپنے رتبے کو قائم رکھنے کے لیے یہاں پہ جانا ضروری ہوتا گیا۔ کیونکہ ہم ان سے بے پناہ متاثر ہونے لگے۔ ہمیں ان کی زندگی خواب محسوس ہونے لگی۔ ہم ان جیسا بننے کی تگ و دو کرنے لگے۔ اور پھر کیا ہوا؟
ہم نے ان کفار کے نقش پہ چلنا شروع کر دیا۔ قرآن میں ہمیں شیطان کے نقش پہ چلنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور یہ لوگ جو منکر ہیں ہم نے تو انہی کے نقش پہ چلنا شروع کر دیا۔ ہمیں تو ان سے مماثلت رکھنے سے بھی منع کیا گیا ہے اور ہم تو ہوبہو ان جیسا بننے لگے۔ وہ کیسے کھاتے ہیں، کیسے چلتے ہیں، کیسے پیتے ہیں، کہاں سے خریداری کرتے ہیں، کیسے کپڑے پہنتے ہیں، کیسے زندگی گزارتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔
ہم نے ان جیسا بننے کے لیے کوشش کرنی شروع کر دی۔ ہمیں لگا ہم اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔ مگر دراصل ہم ان کے غلام بنتے گئے۔ ہماری اپنی سوچ، ہمارا اپنا نظریہ، ہماری اپنی اقدار سب ختم ہو گیا۔ ہم نے اپنے دین کو پس پشت ڈال دیا۔ انہوں نے ہم پہ حکومت نہیں کی بلکہ ہم نے خود انہیں اپنے آپ پہ حکومت کرنے کی اجازت دی۔
انہوں نے ٹک ٹاک بنائی تو ہم نے اس کے ذریعے فحاشی پھیلائی۔ انہوں نے یوٹیوب بنائی تو ہم نے اس پہ گند ڈالنا شروع کر دیا۔ انہوں نے فیسبک ، انسٹا بنایا تو ہم نے اس کا غلط استعمال شروع کر دیا۔ غرض ہم نے ہر طریقے سے خود کر برباد کیا۔
ہم نے۔۔۔ ہم مسلمانوں نے خود ، خود کو تباہ کیا۔
اور جو لوگ حد سے تجاوز کرنے لگتے ہیں وہ ہمیشہ مغلوب ہی رہتے ہیں۔
بالآخر ہم ان کے غلام بن گئے۔ جب ہم نے قرآن پڑھنے پڑھانے کی بجائے گانے سنے اور گنگنائے تو ہمارے دل مردہ ہوتے گئے۔ دل مردہ ہی تو ہو چکے ہیں اسی لیے تو اہل غزہ کا درد محسوس نہیں ہو رہا۔ خون کی روانی میں احساسات گمشدہ ہو چکے ہیں اسی لیے تو ان کی تکلیف پہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہم نے بے حیائی پھیلائی۔ ہم نے بچوں کو صرف دنیاوی علم سکھایا۔ ہم نے رجحانات کی تقلید کرنے میں زندگی گزاری تو اس کا کیا نتیجہ ہوا؟
ہم بے حس اور خود غرض بن گئے۔ ہمیں بس اپنی زندگی کی پرواہ رہ گئی۔ ہم مہاجرین و انصار کی اخوت بھول گئے۔ ہم صحابہ کا جذبہ ایمانی بھول گئے۔ ہم صحابہ کے نام تک بھول گئے۔ ہم اپنا قرآن بھول گئے۔ اب ہماری اندر خود غرضی اور مطلب پرستی رہ گئی۔ ہم ہر بھائی چارہ بھول گئے۔
بھولے ہیں کہ نہیں؟ اہل غزہ کئی روز سے تڑپ رہے ہیں اور ہم سکون سے بیٹھے ہیں۔ وہ بھوکے ہیں اور ہم کھانا کھا رہے ہیں۔ وہ شہید ہو رہے اور ہم اپنی مستیوں میں گم ہیں۔
آخر کیوں کھانا کھاتے ہوئے نوالہ حلق میں نہیں اٹک رہا؟
آخر کیوں مسکراتے ہوئے اچانک خاموش نہیں ہو رہے؟
آخر کیوں یہ نسل کشی دیکھنے کے بعد بھی اپنی ہی دنیا میں مگن ہیں؟
آخر کیوں ابھی تک دین سے دور ہیں؟
آخر کیوں اللہ کی طرف رجوع نہیں کر رہے؟
آخر کیوں اس کو اپنی آزمائش نہیں سمجھ رہے؟
اپنی زندگی پہ غور کریں۔ کیا کچھ بدلاو آیا؟
بائیکاٹ کی بات کی جائے تو ہم نے چند مشہور برینڈز کا بائیکاٹ کرنا شروع کر دیا ہے جو کہ نہایت اچھا قدم ہے۔ مگر کیا یہ صرف نسل کشی کے دوران کریں گے؟ کیا اس کے بعد بھول جائیں گے کہ کیا ہوا تھا؟ کیا ان معصوم بچوں کے بے حس و حرکت وجود آپ کو تڑپائیں گے نہیں؟ کیا یہ ملبے اور ان کے نیچے دبے وجود فراموش کر کے واپس اپنی زندگی میں مگن ہو جائیں گے؟ کیا ان اجڑے گھروں کی ویرانی آپ کے دل کو ویران نہیں کرے گی؟ کیا واپسی اتنی آسان ہوتی ہے؟ سوچئے۔ خدارا سوچئے۔
آج، ابھی اور اسی وقت یہ تہیہ کریں کہ اب کبھی واپس ان کفار کے نقش پہ نہیں چلیں گے ان شاء اللہ۔
جہاں ہم نے بائیکاٹ کی بات کہ وہاں اگر ہم فائیور کی بات نہ کریں تو زیادتی ہو گی۔
فائیور دنیا کا ایک مشہور پلیٹ فارم۔۔۔ آن لائن کام کرنے والوں کے لیے جنت
اس پہ کام سیکھنے اور کرنے کی تعلیم باقاعدہ یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں دی جاتی ہے۔ نوجوان نسل کو ان کا غلام بنانے کے پیچھے خود ہمارے اپنے تعلیمی ادارے سرفہرست ہیں۔
ان آن لائن کام کرنے والوں میں کثیر تعداد مسلمانوں کی بھی ہے۔ جن کو گھر بیٹھے پیسہ کمانے سے مطلب ہے۔ ان کو اس چیز سے غرض نہیں کہ جس پلیٹ فارم پہ کام کر کے وہ پیسہ کما رہے ہیں وہ پلیٹ فارم اسرائیل کا ہے۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ وہ اس بات سے لاعلم تھا کہ یہ اسرائیل کا پلیٹ فارم ہے تو اس کے لیے میرے پاس سچ میں الفاظ نہیں ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم پیسے کے پیچھے اتنے اندھے ہو چکے ہیں کہ ہمیں اس چیز سے کوئی غرض ہی نہیں ہے کہ جو پیسہ ہم کما رہے ہیں اس کا منافع کدھر جا رہا ہے۔ ہر وہ شخص جو اس پلیٹ فارم پہ کام کر کے کما رہا ہے وہ اس پلیٹ فارم سے ملنے والے منافع میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ اس کا منافع اسرائیل کی کمپنی کو جا رہا ہے اور پھر اسرائیل کی معیشت مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے۔ اور اسی مضبوط معیشت کے ساتھ وہ دنیا میں ابھرتا جا رہا ہے۔ ہر وہ مسلمان قصوروار ہے جو ان کو منافع دینے کا باعث بن رہا ہے۔
ہم ان برینڈز کا بائیکاٹ کر رہے ہیں جو اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں اور ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ کرنا ہمارا فرض بھی ہے۔ یہ کوئی مرضی کی شے نہیں ہے کہ دل چاہا تو بائیکاٹ کر دو دل نہیں کر رہا تو چھوڑ دو۔ یہ لازم و ملزوم ہے۔
ہم مسلمانوں کا ان لوگوں پہ انحصار اس حد تک ہو چکا ہے کہ ہم ہر چیز میں ان کے ہی پلیٹ فارمز کو استعمال کر رہے ہیں۔ غرض ہم ہر طرح ان کو فائدہ پہنچانے میں مصروف ہیں۔
چاہے وہ پیسے کمانے کے لیے ہو یا تفریح کے لیے، چاہے کاروبار ہو یا سہولت
ہم ہر شے میں ان کے محتاج ہو چکے ہیں۔
لیکن کیوں؟ آخر کیوں ہم ان یہودیوں کو گھر بیٹھے مضبوط کر رہے ہیں؟
اس وقت اس تحریر کو پڑھنے والوں میں مختلف شعبوں سے منسلک لوگ ہوں گے۔ تو ںظر دوڑائیے کہ آپ اپنے شعبے میں کیا کیا کر سکتے ہیں اسلام کے لیے؟ اور کیا کیا کر رہے ہیں اپنے دین کے لیے؟
ہم نے ڈھیروں ایپس بنائیں ۔ لیکن کبھی یہ کیوں نہیں سوچا کہ اپنے ملک کے لیے آنلائن سسٹم میں الگ ایپس بنائیں۔
چین نے اپنی علیحدہ ایپیس بنائیں وہاں واٹس ایپ استعمال نہیں ہوتا۔ ہم کیوں پیغام رسانی کے لیے اپنی ایک مقامی ایپ نہ بنا سکے؟
ہم نے کیوں نہیں اپنا کوئی بندوبست کیا؟
اس وقت ہم محض اپنی آواز پہنچانے کے لیے بھی کئی پریشانیوں کا شکار ہیں کیونکہ یہ ان کے پلیٹ فارمز ہیں۔ وہ ہماری آواز پہ پابندیاں لگا رہے ہیں۔ جو کوئی فلسطینیوں کے لیے آواز اٹھا رہا ہے اس کی آواز کو مختلف طریقوں سے دبایا جا رہا ہے۔
کیوں؟
کیونکہ ہم نے ان کو اپنا دوست سمجھا اور ان کے پلیٹ فارمز کو استعمال کرنا اپنا فرض۔ لیکن نہ تو وہ ہمارے دوست ہیں اور نہ ہی حمایتی۔
مختلف شعبوں سے منسلک لوگ جو اس تحریر کو پڑھ رہے ہیں میری ان سب سے گزارش ہے اس سب کا حل نکالیں۔
اور اس وقت تک ان کے پلیٹ فارمز کو ان کے ہی خلاف استعمال کریں۔
حق کی آواز اٹھائیں۔ خاموش نہ رہیں۔ اپنے فرض اور ذمہ داری کو جانیں۔
ہر فرد ہے قوم کی ملت کا ستارہ
ہم میں سے ہر کوئی اہم ہے۔ ہر ایک کا اکاؤنٹ اہم ہے۔ چاہے آپ کے پاس ایک فالوور ہو چاہے ایک ہزار لیکن آپ نے اپنے فلسطینیوں کے لیے آواز اٹھانی ہے۔
ان کی تدابیر کو ان پہ الٹنا ہے۔ اور آئندہ ان کے ہاتھوں بے وقوف نہیں بننا۔
جاگ جاو مسلمانوں کہ ابھی بھی وقت ہے
خدا کی نظر میں سرخرو ہو جاو کہ ابھی بھی وقت ہے
عشاء افضل
اللہ پاک مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کی مدد فرمائے۔ آمین