Complete Afsana

Taj Mehmood

palestine

Afsana:   Falasteen 

Writer:    Taj Mehmood

status: complete

Instagram: @taj_mehmood.1

افسانہ

 فلسطین “
از تاج محمود 



یہ ایک ہوٹل کا منظر تھا۔ جہاں سے سامنے حد نگاہ تک ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آ رہا  تھا۔  سردیوں کے باعث اکا دکا لوگ وہاں بیٹھے سورج  کےطلوع ہوتےہوئے منظر کا  مشاہدہ کر رہے تھے۔ 
سمندر کی لہروں  سے سامنے ہوٹل کی جانب دیکھو تو وہاں دو نوجوان گیلری سے باہر سمندر کی جانب جھانک رہے تھے۔ ایک کے بال چھوٹے کٹے ہوئے تھے دوسرا اپنے بڑے بالوں کو سنبھالنے   کی کوشش کر رہا تھا جو ہوا کی وجہ سے لہلہا رہے تھے۔
“یہ سب کب ختم ہوا۔” چھوٹے بالوں والے نوجوان نے گہری سانس لے کر کہا۔ جیسے وہ اکتا چکا تھا اس سب سے۔
“جب فلسطین مسلمانوں کے ذیر تسلط آجائے گا۔” دوسرے نے جواب دیا۔ غالباً ان کی سابقہ گفتگو فلسطین میں ہونے والے ظلم کے متعلق تھی۔
“لیکن مجھے نہیں لگتا۔ اسرائیل   طاقت میں زور ہے فی الحال۔ اور فلسطینی ٹھہرے بے یارومددگار!” افسوس سے سر کو خم دیتے وہ دور سورج کی نارنجی کرنوں کو دیکھ رہا تھا۔
“تمہاری بات درست ہے۔ لیکن مکمل درست نہیں!”
٭٭٭
یہ ایک ایسے شہر کا منظر  تھا جس میں کئی   دھماکے ہونے کی وجہ سے وہ خستہ حال ہو چکا تھا۔ مردہ اور زندہ لوگوں کو ملبے تلے سے نکالا جا رہا  تھا۔ انسانوں کی جانیں ایسی حالت میں تھیں کہ دیکھ کر دل پھٹنے لگے۔ لوگ اپنے پیاروں کے لئے رو رہے تھے۔  وہ جو شہید ہو چکے تھے اب۔
 اگر غور سے دیکھو تو وہاں ایک مضبوط جسامت کا مالک  جوان ہاتھ میں کیمرہ لئے پوری دنیا کو اس شہر کی حالت سے با خبر کر رہا تھا۔  
ایک دم ایک کم سن لڑکا روتے ہوئے فریاد کرنے لگا تو سب نے گردنیں اس کی جانب موڑ دیں۔  وہ جوان ہاتھ میں کیمرہ لئے  بھاگتے ہوئے اس جانب لپکا۔ جیسے جیسے وہ قریب جاتا، الفاظ واضح ہونے لگتے تھے۔
” کہاں ہیں دنیا والے، کہاں ہیں مسلمان؟ ہماری مدد کو کیوں نہیں آرے یہ لوگ؟” اس کی فریاد دل سوز تھی۔ کیمرے میں یہ سب محفوط کرتے وہ جوان افسوس سے اس کی جانب دیکھتا رہا۔ ایک دم شورش زدہ ماحول میں دکھ و بے بسی کی لہر دوڑ گئی۔

“تمہاری بات درست ہے لیکن مکمل درست نہیں۔
 یہ سچ ہے کہ شروع دن سے اسرائیل کا مقصد ایک ہی ہے۔اسرائیل کی عظیم ریاست قائم کرنا۔”

یہ ایک آسمان تلے کھلی  جگہ تھی، جہاں بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ مختلف ٹی وی  چینلز کے نیوز ریپوٹرز  ایک مشہور شخصیت کو گھیرے ہوئے جارحانہ انداز میں سوالات کر رہے تھے۔ وہ شخص ان کو نظر انداز کیئے گزرنے کی کوشش کرتا ہوا اپنی گاڑی کی جانب بڑھ رہا تھا کہ ایک سوال پہ اس کے قدم زنجیر ہو گئے۔
” سر کیا یہ درست ہے کہ آپ اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں؟ آپ  نے اس ظلم کے خلاف ابھی تک ایک لفظ نہیں کہا۔” 
اس شخص نے گردن موڑ کر ایک نظر اس سوال کرنے والی  ریپوٹر لڑکی کو دیکھا۔ اس کے چہرے پہ ایک دم حزن در آیا۔ پھر تھوک نگلتے ہوئے ، بغیر کچھ کہے واپس مڑ گیا۔

” اسرائیل کی جن سرزمینون پر نظر ہے ان میں کعبہ بھی شامل ہے۔”

یہ  ایک قہوہ خانے کا منظر  تھا، کچھ نوجوان ایک میز کےگرد کرسیوں پہ بیٹھے تھے۔ میز پر ان سب کے آگے کپ میں چائے پڑی تھی اور وہ سب ایک موضوع پہ محو بحث تھے۔
” ریلز شیئر کرنے سے آزادی نہیں ملتی۔ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ پوری دنیا   کے حکمران جانتے ہیں کہ کون ظالم ہے اور کون مظلوم ہے۔ اس کا ایک ہی  حل ہے، فقط۔ جہاد! کیونکہ حق چھینا جاتا ہے مانگا نہیں جاتا، جوان!” ان میں ایک خوبرو نوجوان جوش میں ہاتھ ہلاتے ہوئے بات کر رہا تھا۔ اور سارے ساکن پلکوں سے اسے سن رہے تھے۔ تجسس و  جوش  اس  ارد گرد میں اپنے پنجے گاڑھ رہے تھے۔

“اسرائلی بڑے چالاک ہیں۔ یہ آہستہ آستہ کام کرتے ہیں۔ 
 انہوں نے پہلے مسلمانوں کے ایمان کو جانچا۔”

یہ ایک نفاست سے ترتیب دیئے کمرے کا منظر تھا، جہاں ایک کم سن لڑکی موبائل اسکرول کرتے کرتے اچانک رک کر غور سے ایک پوسٹ پڑھنے لگی۔ پوسٹ میں کچھ یوں درج تھا کہ 
‘ یہ خاموش رہنے کا وقت نہیں ہے۔ اپنی آواز بلند کریں! جب فلسطینی کہہ رہے ہیں کہ ان کو ہماری آواز اٹھانے سے فائدہ ہو رہا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں اس کی نفی کرنے والے۔ بولیں، خدارا بولیں، قیامت کے دن کیا جواب دیں گے ہم؟ پوری دنیا کو بتا دیں کہ فلسطین والوں پہ کیسی قیامت گزر رہی ہے۔ہم تلوار سے جہاد  نہیں کر سکتے تو کیا ہوا قلم سے تو کر سکتے ہیں ناں۔ اتحاد، ہمیں ایک ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دنیا میں ایسا کہرام برپا کرنے کی ضرورت ہے کہ لگے دنیا میں بھونچال آگیا ہے۔ خدارا خاموش نہ رہیں!”
جب سارے سلائڈز مکمل ہو گئیں تو اس لڑکی نے شیئر والے آپشن پہ کلک کیا اور اس پوسٹ کو اپنی سٹوری پر لگا دیا ۔ ساتھ میں ہیش ٹیک فری پیلس ٹائن بھی لکھ دیا۔

 ” پہلے انہوں نےمسلمانوں کے خلاف  زبانی مہم چلائی۔ مسلمان خاموش رہے۔
 پھر فلسطین میں زمین ہتھیالی ۔ مسلمان خاموش رہے۔
پھرفلسطین میں عام مسجدوں کو شہید کیا۔ مسلمان خاموش رہے۔
پھرخاص طور پر رمضان میں نمازیوں کو تکلیف دی۔ مسلمان خاموش رہے۔”

یہ ایک عام سے گھر کا منظر تھا۔ جہاں دو عورتیں رشتے داروں کے گناہوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں جہنم کی بشارت سے نواز رہے تھے۔
ساتھ ہی نوجوان لڑکی کانوں میں ہنڈس فری ڈالے ڈرامے کے اہم کردرا کی موت پہ غم زدہ ہوکر منہ بسورے بیٹھی تھی۔
دوسری جانب نظر اٹھا کر دیکھو تو ایک نوجوان لڑکا اپنے  پسندیدہ کرکیٹر کے آوٹ ہونے پر میز پہ مکے مار رہا تھا۔

جب کسی نے کچھ نہیں کیا تو وہ سمجھ گئے 
وہ دور گیا جب مسلم امہ میں عمر بن خطاب اور صلاح الدین ایوبی جیسے مومن بندے ہوا کرتے تھے۔

یہ ایک آفس کا منظر تھا۔ ایک مشہور سیاستدان اس کمرے میں اکیلا  بیٹھا تھا۔ سامنے سکرین میں نیوز چل رہی تھی۔ ایک ریپورٹر سے لوگ اپنی رائے کا اظہار کرر ہے تھے۔
” ہمارے حکمران کیا کر رہے ہیں؟ مجھے تعجب ہے کہ ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہے۔ یار ڈرنا کیا جب شہادت  ہمارے لئے کامیابی ہے۔ عجیب۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے۔ خون سفید ہوگیا ہے واللہ ہمارے حکمرانوں کا۔” ایک نوجوان جوش و دبے دبے میں غصے میں اپنی رائے دے رہا تھا۔
” ہمارے کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حکمت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟” رپوٹر نے  اہم سوال کی جانب توجہ دلائی۔
“جب سب کچھ واضح ہے تو حکمت کس بات کی؟ کیا ہمارے اپنے بچے بھی اس طرح مر رہے ہوں گے تب بھی یہ حکمت کی بات کریں گے؟ بھاڑ میں جائے ملک کی سلامتی یار جب ہمارے مسلمان بھائی روز مر رہے ہیں۔اللہ کی قسم! قیامت کے دن، اللہ ان سے سخت حساب لے گا۔ یہ کر سکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں کیا۔”
سیاستدان  ساکن پلکیں سکرین پہ جمائے ہوئے تھا۔ ایک سنسنی خیز لہر ہڈی میں ابھر کر معدوم ہوئی۔ اس نے نظر پھیر کر سامنے دیوار پہ لگی کیلی گرافی کو دیکھا ۔ وہاں اللہ اکبر لکھا ہوا تھا۔ لیکن اس کی سوچ نے کسی اور کو ہی اکبر بنا رکھا تھا۔
‘وہ ہمارا رزق بند کردیں گے۔ دنیا میں ان کا قانون چلتا ہے اب۔  ہمارا عیش ختم     ہوجائے گا۔’

جب وہ مکمل یقین میں آگئے  تو انہوں نے اپنے اصل مشن پر کام شروع کردیا ہے۔ اور یہ بہت آگے کا سوچے ہوئے ہیں ۔ اور یہ بہت پرعزم بھی ہیں
لیکن
 یہودی کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ذلت ان کی مقدر بنے گی۔

یہ ایک  نیوز چینل کے آفس کا منظر  تھا۔ جہاں پہ ایک ٹاک شو ریکارڈ کیا جا رہا تھا۔ وہاں بیٹھے لوگ دکھنے میں انگریز تھے۔  ایک سنہرے بالوں والی پتلی عورت وہاں بیٹھے ایک مرد سے محو گفتگو تھی۔
“حماس  کے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا؟” سنہرے بالوں والی پتلی عورت نے سوال کیا۔
” حماس کی دہشت گردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ انہوں نے اسرائیلی لوگوں کو  قتل کا نشانہ بنایا۔ اس چیز کو آپ جسٹی فائی نہیں کر سکتے۔ جنگ شروع کرنے والا ہی مورود الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ ” وہ مرد تھری پیس میں تیار اعتماد سے بیٹھا تھا۔
“بالکل آپ کی بات درست ہے قتل کو بالکل جسٹی فائے نہیں کیا جا سکتا۔ جب نشانہ پہ عام شہری ہوں تو پھر بالکل نہیں۔” طنز یہ انداز میں جملہ ادا کرکے وہ عورت مسکرائی۔ پھر  جلدی سے گویا ہوئی۔ ” خیر۔۔۔   شفا خانے پہ حملے کو آپ کس طرح جسٹی فائے کریں گے؟ “

“ایک وقت آئے گا۔ اور عنقریب آئے گا۔ جب مسلمان پھر سے غالب ہوں گے۔”

یہ ایک  روڈ کا منظر تھا۔ جہاں کچھ بزرگ کھڑے تھے۔ جن کی دھاڑیاں بڑی اور سر پہ ٹوپی اتنی چھوٹی تھیں کہ سر کا درمیانی حصی ہی ڈھکا ہوا تھا۔۔ 
” ضروری نہیں کہ ہر یہودی صیہونی بھی ہو۔ میں صیہونت کو نہیں مانتا۔ جب ہمارامسیح آئے تو یہ سارے علاقے ویسے بھی ہمارے ہو جانے ہیں۔ تو اس سے پہلے ہم کیوں خون بہا کر خداوند اور لوگوں کو بدگمان کریں؟”

“تب فلسطین مسلمانوں کے ذیر تسلط رہے گی۔
اور یہی اس کہانی کا انجام ہوگا۔”

یہ ایک گھر کے لاؤنج کا منظر تھا۔ ایک کم سن لڑکی اپنے بھائی کے سامنے بیٹھے اس کی بات سن رہی تھی۔
“اسرائیل  جب تک زمینی جنگ کی شروعات نہ کرے وہ کبھی حماس کو شکست نہیں دے سکتا۔ ”  
بھائی کی بات سن کر  لڑکی تھوڑی الجھن کا شکار ہوئی اور پیشانی پہ تفکر کی لیکریں لیے سوال کیا۔ “تو وہ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟ کریں ناں زمینی جنگ تاکہ ایک ہی بار میں ان سے جون چھوٹے۔”
“اسرائیلی فوج اس سب کی اب متحمل نہیں ہو سکتی۔ انہیں کافی طاقت  چاہیے۔” پھر ایک دم وہ کسی سوچ میں پڑ گیا۔ جیسے وہ کوئی بات کہنا چاہ رہا ہو لیکن اعتراف کرنے سے ڈرتا ہو۔ چھوٹی بہن نے اس کی یہ حالت دیکھ کر سوالیہ انداز میں ابرو اوپر اٹھائے۔ اس جوان نے گہری سانس لی۔ اور پھر جھجھک کر گویا ہوا۔
” تمر،جانے کیوں…..جانے کیوں  یہ مسلمان چاہے کم بھی ہوں ناں تب بھی ایسے لگتا ہے جیسے کوئی ماوراء شے ان کی مدد کر رہی ہے۔  پتا نہیں کیوں۔ ان کی ہمت جیسی ہمت ہمارے سپایہوں میں نہیں پائی جاتی ، تمر۔”

“یہودی کبھی دنیا میں عزت نہیں  پائیں گے۔ یہ وہی ہیں جن کے آباءاجداد نے  پیغمبروں کا قتل کیا۔ پیغمبروں کو جھٹلایا۔”

وقت تیزی سے ماضی کی جانب مڑ گیا۔ اور تاریخ کے پردوں پہ ایک قدیم گھر کا منظر ظاہر ہوا۔
زمین پر ایک سیاہ فام باندھی بیٹھی تھی، جس کے بال  چباریک جوڑوں میں بندھے ہوئے تھے۔ اس کے سامنے بستر پر  ایک  گندمی رنگت  کی مالک عورت بیٹھی تھی جس کے لباس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کوئی اعلی نسب سے  تعلق رکھتی ہے۔
” کیا  آپ نے سنا؟ ایک ہی رات میں مکہ سے اقصی اور اور پھر پورے آسمانوں کی سیر۔ یہ کیسے ممکن ہے بھلا ؟ ابو عشیر سچ کہتا ہے، یہ شخص تو واقعی ساحر ہے۔” زمین پہ بیٹھی سیاہ فام عورت تیز تیز بول رہی تھی۔ 
اس کی بات سن کر بستر پر بیٹھے گندمی رنگت والی عورت کے چہرے پہ کوئی نیا تاثر نہیں آیا۔ جیسے اس کو یہ خبر پہلے ہی مل چکی تھی۔ لیکن اس کی چہرے پر تفکر کی لکیریرں کافی  پہلے سے پھیلی ہوئیں تھی۔  آنکھوں میں کوئی سوال لیے وہ عام سے  کھوئے ہوئے انداز میں گویا ہوئی۔”ہاں سنا ہے۔ لیکن سحر ایسا نہیں ہوتا۔اس کے ساتھی اس کو سحر نہیں کہتے۔ معجزہ کہتے ہیں۔ رب کی طرف سے۔  لیکن مجھے ایک بات  سمجھ نہیں آئی خنساء! اقصی ہی یوں؟ ایسا کیا ہے اقصی میں؟” وہ الجھی ہوئی تھی۔
٭٭٭
“یہودی کبھی دنیا میں عزت نہیں  پائیں گے۔ یہ وہی ہیں جن کے آباءاجداد نے  پیغمبروں کا قتل کیا۔ پیغمبروں  کو جھٹلایا۔ان کے بارے میں عجیب و غریب کہانی خود سے گھڑ کر تحریفات کی۔ یہ کبھی  دائمی عزت و فلاح  نہیں پائیں گے!” اس کے لمبے بال بار بار اس کے چہرے تک آتے تھے۔ بات مکمل کر کے وہ دونوں خاموشی سے سامنے سمندر کو دیکھتے رہے۔ سورج تقریبا ڈوپ چکا تھا۔ آسمان میں اڑتے پرندے کی نظر سے سے دیکھو تو وہ ہوٹل بہت چھوٹا نظر آتا تھا۔  اور باقی سارے حصے میں پھیلا ہوا سمندر تھا جو کافی گہرا تھا۔ اس میں خوف بھی تھا۔ پراسراریت بھی تھی۔

ختم شد۔






Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *