Complete Article

Sumera Akbar 

Article:  Happiest bride of JANNAH

Writer: Sumera Akbar 

Instagram: @smillyy.20

status: complete


ٹوٹی پھوٹی عمارتوں سے دھویں کے مرغولے اٹھ رہے تھے۔ خود زخمی ہونے کے باوجود بھی لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنے میں  لگے ہوئے تھے۔ہر طرف چیخ پکار مچی ہوئی تھی ۔ہر شخص  کرب سے گزر رہا تھا۔
ایسی ہی ایک ٹوٹی عمارت کے ملبے پر ایک تئیس،چوبئیس سال کا نوجوان بکھرے بالوں اور دھول سے اٹے کپڑوں میں بیٹھا ہوا تھا،ہاتھ میں ایک سفید سکارف جو مٹی سے اٹا ہوا تھا ،اور ایک چھوٹی سی میڈیکل کٹ تھی،اس کے ہونٹ مسلسل ہل رہے تھے۔
تم جاننا چاہو گے کہ وہ کیا کہہ رہا تھا ؟
آو زرا قریب جا کر سنتے ہیں۔
ہم بہت خوش تھے، ہم تین سال سے منگنی شدہ تھے ۔ ڈیڑھ ماہ بعد ہماری شادی تھی ۔ ہم دونوں کا خاندان مل کر تیاریاں کر رہا تھا۔ وہ ڈاکٹر تھی ،وہ ہماری ڈینٹیس تھی۔ شادی کا جوڑا تیار تھا، اسے بہت شوق تھا کہ اس پر جنت کی حوروں جیسا روپ آئے۔ وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی کہ ہمیشہ الله کی رضا میں راضی رہنا اور حق کا ساتھ نہ چھوڑنا ،اور اپنے مقدس وطن اور ایمان کی خاطر قربان ہونا پڑے تو مسکراہٹ کے ساتھ یہ اعزاز قبول کرنا ، مجھے موقع ملے تو میں ضرور قربان ہونا چاہوں گی، میں اسکی بات پر مسکرا دیتا تھا اور جس ملک سے ہم تعلق رکھتے تھے، وہاں ہر بچہ بڑا ایمان کے جذبے سے بھرپور تھے
۔20 اکتوبر2023
آج جب میں نے اس کے چہرے سے سفید پردہ ہٹایا تو اس کے چہرے پر بہت پرسکون اور خوبصورت مسکراہٹ تھی،
میں بہت خوش تھا کہ اس اپنے رب کی طرف شہادت کے رتبے اور پر سکون مسکراہٹ کے ساتھ لوٹی تھی
میں رونا نہیں چاہتا پر آنسو پر اختیار نہیں ہے میں نے اس کا شادی کے جوڑے کا سکارف اور میڈیکل کٹ اسکی  آخری نشانی کے طور پر سنبھال  کر رکھ لی ہے ، وہ جنت کی خوش ترین دلہن ہو گی
میں نہیں جانتا کہ میرے پاس مزید کتنا وقت ہے اور میں اگلے کتنے  گھنٹوں تک زندہ رہوں گا، لیکن مجھے اس بات کا یقین ہے کہ ہم ملیں گے اس جہاں میں نہ سہی تو کسی اور جہاں میں ہی سہی۔
دھویں کے مرغولے ویسے ہی اٹھ رہے تھے،شور برقرار تھا ،اسکی آواز مدھم سے مدہم ہوتی جا رہی تھی اور اسکے ہونٹ مسلسل  حرکت میں تھے 

We will meet in Jannah, where no more cries, separation and pain only blessings!






Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *