Complete Article
Adeeba Azhar
Article: Laila Ailaam
Writer: Adeeba Azhar
status: complete
Instagram:
آرٹیکل
از قلم ادیبہ اظہر
رات کا وقت تھا،چودھویں کے چاند کی پورے آسمان پر اجارہ داری تھی۔ بادلوں کے بیچ میں آدھا چھپا چاند ستاروں کے سامنے اپنی خوبصورتی پر اترا رہا تھا،فخر بنتا بھی تھا آخر آدھی دنیا کو اپنے حسن کے جال میں پھانسے ہوئے تھا۔چاند اور ستاروں کو اپنی جگہ پر چھوڑ کر زمین پر آئیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ پورے علاقے کو اندھیرے نے اپنی مٹھی میں جکڑا ہوا ہے۔ ہر ذی روح رات کے اس پہر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا ہے اس بات سے بے نیاز کے اگلی صبح کیا پیغام لائے گی ۔ایسے میں ایک گھر کے ٹیرس پر بلب کی مدھم روشنی میں سنگِ مر مر کے شفاف فرش پر بیٹھی وہ لڑکی منہ میں قلم دبائے ہاتھوں میں ایک خوبصورت سی گلابی رنگ کی ڈائری پکڑے چاند کو دیکھنے میں محو تھی. ڈائری کے سرورق پر
“مذكرات ليلى عيلام
(لیلا عیلام کی ڈائری)
” ۔چاند کی مدھم روشنی اُس کےچہرے پر پڑ رہی تھی،جس کی چمک سے اُس کا چہرہ سنہری مائل ہو رہا تھا۔ ۔بہت دیر اسی طرح چاند کو دیکھنے کے بعد منہ میں دبا ہوا قلم نکالا اور خوبصورت ڈائری پر لکھنا شروع کر دیا۔آنکھوں میں چمک لیے جوش سے ڈائری کے صفحات بھرتی جا رہی تھی۔خوشی اُس کی آنکھوں سے پھوٹ رہی تھی جیسے اُس کی منزل بس بہت قریب ہے
ایک رات کے فاصلے پر۔اُس کی اس بے اعتنائی کو دیکھ کر چاند نے ناراضگی کا رنگ اوڑھ لیا اور بادلوں میں جا چھپا۔
__________________________
7-اکتوبر 2023:
صبح کا سورج بڑی آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوا ۔ وہ آج معمول سے پہلے اُٹھ گئی۔ آج پورے دل سے تیار ہو رہی تھی وہ ۔اور کیوں نہ ہوتی آج اُس کی زندگی کا سب سے بہترین دن تھا ۔آج اُس کا خواب پورا ہو رہا تھا۔ آج اُس کی کنویکیشن تھی، آج سے وہ فزیوتھراپیسٹ کہلائے گی۔ یہ سوچ کر ہی اس کو بہت خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ جلدی جلدی تیار ہو کر نیچے آئی تو ہمیشہ کی طرح خالی ڈائننگ ٹیبل اس کا منہ چڑھا رہی تھی اور ناشتہ ڈھک کر رکھا تھا۔ لبوں نے دمکتی مسکراہٹ سے پھیکی مسکراہٹ کا سفر لمحے بھر میں کیا۔ ہے دلّی سے ناشتے پر ڈھکی پلیٹ اٹھائی تو اپنے پسندیدہ چیز آملیٹ کے اوپر ایک اسٹکی نوٹ دیکھ کر ٹھٹھکی۔
یہ کیا؟ بے اختیار خود سے ہمکلام ہوئی ۔
نوٹ کھول کر دیکھا تو چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں نمی ایک ساتھ در آئی ۔
لیلا عیلام، عیلام یاسر کا فخر!
لنچ اکھٹے کریں گی…انشاء اللہ
زیرِ لب انشاء اللہ بول کر اس نے پاس ہی پڑا قلم اٹھایا اور جواب لکھ کر احتیاط سے ٹیبل پر رکھ دیا اور جلدی جلدی ناشتہ کر کے یونیورسٹی کے لیے نکل گئی۔
جامعة الإسراء
ایک سفید نیلے رنگ کے امتزاج سے بنی اور ہریالی سے گھری ہوئی خوبصورت سی بلڈنگ کی پیشانی پر جامعة الإسراء نامی یونیورسٹی بہت شان سے کھڑی ہوئی تھی۔ آج معمول سے زیادہ گہما گہمی تھی یا شاید اسے لگ رہی تھی۔
“آہ! تو یہ سفر یہاں تمام ہوا، پھر کالے گاؤن میں ملبوس خود کو دیکھا اور پر جوش مسکراہٹ لیے خود سے ہم کلام ہوئی بلکل نہیں یہ تو آغاز ہے ۔
کوئی اس کو اس طرح خود سے ہم کلام ہوتے دیکھتا تو پاگل ہی سمجھتا مگر یہاں کسی کو ہوش کہاں تھی کِسی دوسرے کو دیکھنے کی ۔ سب اپنے آپ میں مگن تھے کوئی اپنی دوستوں کی ٹولی کے ساتھ مصروف تھا تو کہیں اپنے بچوں کی کنوکیشن میں شرکت میں آئے ہوئے والدین اُن کی بلائیں لیتے نہیں تھک رہے تھے ۔
ایسے ہی ایک منظر کو دیکھ کر اُس کی آنکھوں کی نمی در آئی۔ اور نہ چاہتے ہوئے بھی شکوہ در آیا
“کیا تھا اگر بابا اج میرے ساتھ آجاتے۔”
اُس کی ماں کو بچپن میں ہی اسرائیلی فوجیوں نے شہید کر دیا تھا۔
لیلٰی کے بابا نے اس کو اکیلے ہی پروان چڑھایا تھا۔ مگر کام کے اضافی بوجھ کی وجہ سے وہ اکثر مصروف رہتے تھے اور لیلٰی کو وقت نہیں دے پاتے تھے۔اسی وجہ سے آج بھی اس کو اکیلے ہی آنا پڑا۔
لیلٰی!!
بے اختیار آ کر کِسی نے زور سے اس کا شانہ جھنجھوڑا تو وہ حال میں لوٹی۔
کدھر گم تھی لیلیٰ کب سے آوازیں دے رہی ہوں؟
لیلٰی کی اکلوتی بہترین دوست بولی۔
ہاں۔۔ وہ کہیں نہیں تم بولو کب آئی تم؟ لیلٰی غائب دماغی سے بولی۔
بس ابھی ابھی آؤ اندر چلیں شروع ہونے والی ہے تقریب۔
ہاں ہاں چلو۔
تقریب شروع ہو گئی تھی۔ لیلٰی عیلام کو بھی اس کی ڈگری مل چکی تھی۔ آج اس کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کے جلدی سے گھر جائے اور اپنے بابا سے ملے۔
ابھی وہ یونیورسٹی کے دوستوں کو مل کر رخصت ہی ہو رہی تھی کے ایک دم سے فضا دھماکوں سے گونج اٹھی گرد کے پہاڑ اٹھے اور کچھ دیر کے لیے آنکھوں کو چندھیا گئے۔ اس سب کے دوران اس کو کوئی خیال آیا بھی تو بس اپنے بابا کہ تھا۔
گرد میں اٹی ہوئی جب وہ اپنے محلے میں پہنچی تو وہاں کی حالت دیکھ کر اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔
اونچے مکان جہاں سے کبھی لوگوں کی ہنسنے کی آوازیں آتی تھی آج وہی مکان ملبے کا ڈھیر بنے ہوئے تھے اور اُن سے آہ و زاری بلند ہو رہی تھی۔ وہ گلیاں جہاں چھوٹے بچے کھیلتے تھے آج اُنہی چھوٹے بچوں کی لاشیں کِسی کاغذ کی طرح بِکھری ہوئی تھی۔
یہ سب اس کے لیے نیا نہ تھا بلکہ فلسطین میں رہنے والے کِسی بھی بچے کے لیے نیا نہ تھا بس اُن کی قسمت میں انتظار تھا وہ پھر اپنی زندگی میں فلسطین کو آزاد دیکھنے کا خواب ہو یا پھر روز ہوتے ان حملوں سے خود کی موت کا انتظار۔
وہ شاکی آنکھوں سے ارد گرد کو دیکھتے ہوئے جب اپنے گھر کے سامنے پہنچی تو وہاں کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا ۔ اس کا گھر اب بس ایک ملبے کے ڈھیر کے علاوہ کچھ نہیں تھا ۔
وہ اٹھی اور پاگلوں کی طرح اپنے بابا کو ڈھونڈھنے کی کوشش کی ۔ آنکھوں میں اُمڈ آنے والے آنسو بار بار بصارت میں رکاوٹ کا سبب بن رہے تھے۔
بالآخر جب لوگوں کی مدد سے ملبہ ہٹایا گیا تو ایک سیاہ اور سفید دھاری دار شرٹ پہنے بوڑھا مسخ شدہ وجود ملا۔
بابا! وہ بے اختیار گھٹنوں کے بل بیٹھتی گئی۔
اس کے بابا کے ہاتھ کی مٹھی ابھی تک زور سے بند تھی اور اس میں رنگین کاغذ دبا ہوا تھا۔
لیلٰی نے وہ کاغذ کھول کر دیکھا تو وہ صبح والا ہی اسٹكي نوٹ تھا جس پر اُس کے بابا اس کے لیے آخری پیغام چھوڑ کر گئے تھے
لیلا عیلام، عیلام یاسر کا فخر!
لنچ اکھٹے کریں گی…انشاء اللہ
جس کی جواب میں اس نے لکھا تھا
لیلٰی عیلام انتظار کرے گی۔۔۔
اور قدرت کا کرشمہ ایسا ہوا کہ پھر یہ انتظار اب اسے رہتی دنیا تک کرنا تھا۔
وہ اپنے حواسوں میں اتنی گم تھی کے اسے ایک روتے بلکتے بچے کی آواز سنائی دی۔
اس نے سر اٹھا کر ادھر ادھر نظر دوڑائی لیکن کافی لوگوں میں سے اسے کوئی بھی روتا ہوا بچہ نظر نہ آیا۔ اس نے اپنے وجود کو مشکلوں سے اٹھایا اور اپنے باپ کی لاش سے کچھ قدم دور آئی۔
اس نے دیکھا کے ایک عورت اور کئی مرد ایک ملبے کے سامنے کھڑے تھے اور وہ ایک دیوار اٹھا رہے تھے۔
اس بچے کی آواز اسی ملبے تلے سے آ رہی تھی۔
وہ فورآ بھاگ کر اس جانب آئی تھی اور ان لوگوں کو پیچھے کرتے وہ اس بچے کی جانب آئی تھی اسے کافی چوٹیں آئیں تھیں مانو پورا کا پورا جسم خون خون تھا۔
اس نے دور پڑے اپنے عزیز از جان باپ کی لاش کی طرف دیکھا۔ ایک آنسوں اس کی آنکھ سے جھلکا تھا
اس کا دل اندر سے خون کے آنسو روئے جا رہا تھا۔
اس نے اپنی نظروں کا رخ واپس اس بچے کی جانب کیا جو ابھی تک رو رہا تھا۔
اس نے ایک لمحے میں ایک جان کو بچانے کا فیصلہ کر دیا تھا۔
اگر وہ یتیم ہو گئی ہے تو کیا ہوا؟ وہ باقی کسی کی جان نہیں جانے دے سکتی۔
بجائے رونے کے اس نے ایک انسان کی مدد کرنے کی ٹھانی تھی۔
اس نے خود سے عہد لیا تھا
کہ کیا ہوا جو وہ زندہ رہ گئی ہے؟ اگر اسے زندگی مل ہی گئی ہے تو وہ اس کو دوسروں کی مدد کے لیے گزارے گی۔