Mere ek so se kya ho jana hai?




Complete Article 

Eman Shahid

Article :   Mere ek so se kya ho jana hai?

Writer:    Eman Shahid

status: complete

Instagram: @novels_crave_

آرٹیکل

“میرے ایک سو سے کیا ہو جانا ہے؟”
بقلم ایمان شاہد


“آنٹی کُل روپے کتنے ہوئے؟” سارہ نے بریانی کاڈبہ اور رائتہ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
“چار سو۔” 
“یہ لیں آنٹی۔” سارہ نے ہزار کا نوٹ بڑھایا۔
“بچے میرے پاس پانچ سو کے نوٹ ہیں۔ آپ سو کا کچھ اور لے لیں۔” آنٹی نے میز کی دراز میں جھانکتے ہوئے کہا۔
“چلیں پھر ایک کوک کی بوتل دے دیں۔” 
“سارہ تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔” علینہ جو اس کے ساتھ ہی کھڑی تھی چلا اٹھی۔
“مطلب؟” سارہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
“تم پاگل ہو۔ کوک کیوں خرید رہی ہو؟ تمہیں نہیں پتہ کہ کوکا-کولا کی کمپنی اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہے۔ جس سے ملنے والے پیسوں سے وہ لوگ ہمارے فلسطینی بہن بھائی کو شہید کرنے کے لیے گولیاں اور بارودی سامان حاصل کرتے ہیں۔” علینہ نے بلند آواز میں سارہ کے ساتھ ساتھ وہاں موجود باقی لوگوں کو بھی بتایا۔
“لگتا تمہارا دماغ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے۔ میرے ایک سو روپے کی کوک لینے سے کونسا بمب پھٹ جانا ہے۔ میں کون سا کوئی ہزار ڈالرز کی کوئی چیز خرید رہی ہوں۔ ایک سو روپے کی تو ہے۔ آنٹی دیہان مت دیں اس کی باتوں پر۔ آپ مجھے ایک کوک اور میرا پانچ سو دیں۔” سارہ نے سب کے سامنے علینہ سے بدتمیزی سے کہا۔ 
“مجھے روکنے سے کیا ہوجائے گا۔ اتنی ہی ہمدردی جاگ رہی ہے تو جاؤ، حکومت کے آگے یہ ڈھنڈورا پیٹو۔ آئی بڑی کر ایسے رہی ہے جیسے اسی کو سارا دکھ ہے ۔ ہم تو جیسے ظالم ہیں۔” اپنا سامان ہاتھ میں لیتے ہوئے وہ اونچی واز میں بڑبڑائی تھی۔
“بہت افسوس ہوا تمہاری سوچ پر۔ ڈرو اس لمحے سے جب تمہارے اس سو روپے سے شہید ہونے والا تمہارے گریبان کو آں پہنچے۔” علینہ افسوس سے کہتی وہاں سے نکل گئی تو سارہ سر جھٹکتی منظر سے غائب ہوگئی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
“یا اللہ، یا اللہ، یا اللہ۔” فضا اللہ کے ناموں سے گونج رہی تھی۔ دھماکوں، گولیوں اور عمارات گرنے کا شور اتنا تھا کہ کانوں پڑی آواز نہ سنائی دیتی۔ دھواں، گیس، دھول کے مرغولے تھے کہ بینائی پر شک ہونے لگے۔ چیخیں، پکار اور آہ و بقا تھی کہ سننے والے کا دل لرز جائے مگر ان بے حس اسرائیلوں کے دل تھے کہ پتھر۔ معصوم بچے تھے جن کی لاشیں بے یارو مددگار پڑی تھیں کیونکہ ان کے سر پرست خود اپنی سانسیں دے کر ملبے تلے دبے تھے۔ وہ سب ایمان کے معاملے میں پوری دنیا سے سبقط لے جاچکے تھے۔ ظالم کب تک اپنا ظلم دکھائے گا؟ آخری عدل اور انصاف تو پھر اللہ کے ہاتھ میں تھا۔ ایک عورت اپنے بچے کو لے کر بھاگ رہی تھی وجہ ان کے پیچھے بھاگتا وہ اسرائیلی سپاہی تھا۔ عورت کے سینے میں بھینچا وہ بچہ مسکرا رہا تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ اس نے پیچھے بھاگتے سپاہی کو جو پتھر مارا تھا اس نے اسے کافی لطف دیا تھا۔ وہ بھاگ رہی تھی جب اس کے پیر کے نیچے ایک پتھر آیا۔ وہ گری تھی۔ منہ کے بل گری تھی۔ بچہ بھی ساتھ ہی گرا تھا اس کے کچھ فاصلے پر۔ وہ سپاہی چلتا  ہوا بچے تک آیا۔ اب کے اس کے چہرے پر جلال نہیں تھا بلکہ ایک مسکراہٹ تھی، سفاک مسکراہٹ۔ اور وہ عورت جانتی تھی کہ کیا ہونے والا ہے۔ جس طرح وہ گری تھی معلوم تھا کہ اس کی زندگی کی ریاضت بھی گرنے والی ہے۔ ٹھا۔۔کان کے پردے پھاڑنے والی آواز تھی جو گونجی تھی اور  ساتھ ہی ایک معصوم سی چیخ۔ اس عورت کو لگا کہ وہ آخری آواز تھی جو اس نے سنی تھی۔ وہ سپاہی چلا گیا۔ عورت تڑپتی ہوئی اپنے آٹھ سالہ بچے تک آئی جو زمین پر پڑا مچھلی کی مانند تڑپ رہا تھا۔ 
“میرا بچہ۔” عورت نے بچے کو اپنے سینے سے لگایا جس کا وہ سپاہی چھلنی کرگیا تھا۔
“ماں تم مت رو۔ میں ابا کے پاس جا رہا ہوں۔” بچے نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا۔ اس کی آواز میں خوشی محسوس کرکے وہ عورت بلک کر روپڑی۔ 
“ماں اگر تمہیں بھی کہیں سے کچھ ملے یا پیسے ملیں جیسے ان کو ملتے ہیں اور اس سے یہ لوگ ہمیں مارنے کے لیے سامان لاتے ہیں تو میری طرح ان کو مارنا۔ یہ مر گئے تو ٹھیک ورنہ تم بھی ابا اور میرے پاس آجاؤ گی۔ ویسے بھی اللہ نے ان کو سخت سزا تو دینی ہی ہے۔” عورت اپنے بچے کو چوم رہی تھی۔ بار بار چوم رہی تھی۔ جانتی تھی یہ آواز محض کچھ ہی دیر کے لیے میسر ہے۔ 
“ماں میں اس سے سوال کروں گا جس نے مجھے مارا ہے کیونکہ میں تمہارے ساتھ بھی یہاں رہنا تھا اور تمہاری حفاظت کرنی تھی۔” مزید ایک ہچکی اور بس وہ بچہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ ایک ماں کی چیخ تھی جو عرش تلک گئی تھی اور ظالموں کے حساب میں ایک اور اضافہ کردیا گیا۔
 ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وہ لائن میں کھڑی تھی۔ اگلی باری اس کی تھی۔ حساب پرکھا جا رہا تھا۔ وہ خوفزدہ تھی۔ کھلا میدان تھا۔ بھیڑ تھی کہ حد نہیں۔ خاموشی تھی کہ سانسوں کی آواز تک سنائی دے رہی تھی۔ کوئی کسی کو نہ جانتا تھا۔ اس کے اگلے والے کو فیصلہ سنایا گیا۔ وہ گنہگار ٹھہرا تھا۔ وہ مجرم تھا خدا کا مجرم۔ اب اس کو بائیں طرف لے جایا جانے لگا۔ وہ چیخ رہا تھا حلق کے بل۔ پر اسے سننے والا کوئی نہ تھا۔ اب کہ اس کی باری تھی۔ وہ آگے آئی اور پھر یہ ہوا کہ اس کا چہرہ نمودار ہوتے ہی اسے جہنم واصل ہوجانے کی سزا سنائی گئی۔ اس کا اعمال نامہ دیکھنے کی بھی کوشش نہیں کی گئی۔ اسے لگا جیسے اس کا چہرہ بدنما ہوگیا ہے۔ اس کے پاس سے تعافن اٹھنے لگا۔ فیصلہ سنایا گیا کہ وہ انسانیت کی مجرم ہے۔ اس نے قتل کیا ہے، ایک معصوم کا۔ نسل اجڑی ہے ایک خاندان کی۔ اس کے سامنے آٹھ سالہ بچہ آیا اور کہنے لگا۔
“وہ تم تھی آپی جس کے دیے گئے پیسوں سے میرے سینے کو چھلنی کرتی وہ گولی خریدی گئی۔” اور بس اسے دہکتی آگ کے حوالے کردیا گیا۔ جو پیاسی تھی گنہگاروں کی، ظالموں کی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ






Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *