Qalbi Falestiyini قلبي فلسطيني




Complete Novelette

Eman Nazir

Article:   Qalbi Falestiyini قلبي فلسطيني

Writer:    Eman Nazir

status: complete

Instagram:

ناولٹ

”  قلبیی فلسطینیی ” (میرا دل  فلسطینی ہے ) ، اس بات کا احساس  مجھے تب ہوا جب میری آنکھ نے پہلی مرتبہ فلسطین کے درد پر آنسو بہائے  ۔
 جب میں نے ان دوستوں کو چھوڑا جو فلسطین کو چھوڑ چکی تھی ، جب میں نے جانا کہ میرا دل ،ان کی تکلیف پر آنسو بہاتا ہے  ، جب مجھے اپنے غم چھوٹے لگنے لگے ، جب میرے  دل سے نکلی دعاؤں میں ذکرِ فلسطین ہونے لگا  ۔ 
اس بات کا احساس مجھے ہر اس لمحے ہوا جب میری آنکھوں نے  اسرائیل کی بنی اشیاء کو نفرت بھری نظروں سے دیکھا ۔
اس احساس نے مجھے یقین دلایا کہ میں چاہے پاکستانی ہوں مگر میرا دل ……میرا دل فلسطینی ہے ۔
 
ایمان   نزیر

                               

                                 پیش لفظ:
”  قلبیی فلسطینیی ” (میرا دل  فلسطینی ہے ) ، اس بات کا احساس  مجھے تب ہوا جب میری آنکھ نے پہلی مرتبہ فلسطین کے درد پر آنسو بہائے  ۔
 جب میں نے ان دوستوں کو چھوڑا جو فلسطین کو چھوڑ چکی تھی ، جب میں نے جانا کہ میرا دل ،ان کی تکلیف پر آنسو بہاتا ہے  ، جب مجھے اپنے غم چھوٹے لگنے لگے ، جب میرے  دل سے نکلی دعاؤں میں ذکرِ فلسطین ہونے لگا  ۔ 
اس بات کا احساس مجھے ہر اس لمحے ہوا جب میری آنکھوں نے  اسرائیل کی بنی اشیاء کو نفرت بھری نظروں سے دیکھا ۔
اس احساس نے مجھے یقین دلایا کہ میں چاہے پاکستانی ہوں مگر میرا دل ……میرا دل فلسطینی ہے ۔
میرا یہ ناولٹ ہر اس شخص کے نام جو اپنے دل کا ایک حصّہ فلسطین کے نام کر چکا ہے  ۔
                                                                
                                                                                                      …✰✰✰…







                                    قَلبیی فلسطینیی
                                                                                            ”  میرا دل فلسطینی ہے “





                                                      (      ایمان   نزیر    کے   قلم   سے  )
باب نمبر : ۱    

“مشرق وسطی کے دل میں ، 
ایک زمین ہے اتنی پرانی،
ایک قوم کی ہے یہ کہانی ۔
فلسطین، ایک نام جو  گونجتا ہے،
ہر نظم میں ، ہر شاعری میں ۔

زیتون کے باغات اور قدیم دیواروں کے درمیان ،
آزادی کی  جدوجہد میں ،
 تنازع کے سایہ میں ، 
ایک قوم کھڑی ہے؛
اپنے وطن میں ،مضبوط اور  استقامتی۔

 غزہ کے کناروں سے ویسٹ بینک کے پہاڑوں تک،
جہاں غم اور امید  آپس میں ملتے ہیں۔
بچے خاک و چٹان میں کھیلتے ہیں،
ایک پرامن، روشن زندگی کا خواب دیکھتے ہیں۔
القدس ، ایک قدیم خوابوں کا شہر ،
جہاں تاریخی صفحات ، تنازع سے  بھرے ہوئے ہیں۔
لیکن اس کے گلیوں میں، امن کی کہانیاں بھی ہیں ،
ایک امید ہے کہ نفرت سے  رک نہیں سکتی ۔

ریفیوجی کیمپس میں، جہاں یادیں رکھی گئی ہیں ،
اپنے گھر کی تلاش میں ، جہاں آنسو بہائے گئے ہیں ،
اپنے  وطن کے لئے ۔

چلو مل کر دعا کریں ؛ امن کے لئے ، 
فلسطین کے لوگوں کے لئے ،
  ان کی آوازیں بھی سنی جائیں ،
انصاف اور ہمدردی اپنا راستہ بنائیں ،
ایک روشن، امن اور ہم آہنگ دنوں کے لئے ۔

فلسطین کی کہانی میں بھی، ایک باب ہونا چاہیئے ،
امید کا ، ہم آہنگی  کا ، اور ایک پرسکون زندگی کا ۔      
                                                                 (از قلم : ایمان نزیر )
                                                                                                               …☆☆☆…
ہسپتال میں داخل ہوتے ہی خون اور دوائیوں کی ملی جلی بو اس کے نتھوں سے ٹکرائی تو اس نے اپنا ماسک اوپر کر لیا اور وارڈ  کا دروازہ کھول کر اندر بڑھ گیا ۔
دروازہ کھلا تو سب نے اندر قدم رکھتے اس عربی حُسن رکھنے والے شہزادے کو دیکھا ، جو بلیو سکربز کے اُوپر وائٹ کوٹ پہنے اندر آ رہا تھا ۔ سفید مومی رنگت پر کھڑے نقوش اور چہرے کے جمال میں اضافہ کرتی براؤن  بیرڈ ، ہلکے گھنگریالے بال اور زیتون سی سبز آنکھوں پر فریم لس گلاسز لگائے وہ آگے بڑھا تو یوینفارم پر لگا اسکا  نیم   بیج واضع  ہوا ؛ ” ارتضیٰ حاشر علی “
وہ آ چکا تھا ، اپنے خون سے کیا عہدِوفا   نبھانے ؛ ارتضیٰ حاشر علی  غزہ آ چکا تھا ۔
” هل أنت فلسطيني ؟” ( کیا آپ فلسطینی ہیں؟)  ، پاس کھڑی ڈاکٹر جاثیہ  اسکے یونیفارم پر لگے فلسطینی جھنڈے کے ساتھ  پاکستانی  جھنڈے کے   بیج   کو دیکھ کر بلآخر پوچھ بیٹھی ۔
مریض کی پٹی کرتے ارتضیٰ کے ہاتھ ایک پل کو  تھمے ۔
  ” قلبیی فلسطینیی “
(میرا دل فلسطینی ہے ۔) ، مسکرا کر کہتا وہ پھر سے اپنے کام میں مشغول ہو گیا ۔
کیا تھا وہ ؟ اپنا پرسکون ملک چھوڑ کر ایسی جگہ آگیا تھا جہاں ہر وقت موت سر پر منڈلاتی رہتی ہے ؛ صرف اس لیے کہ اسکا دل فلسطینی ہے؟
” ڈاکٹر جاثیہ جلدی آئیں……. اس بچے کے سر پر بہت گہری چوٹ آئی ہے ۔” ، اس آواز پر جاثیہ کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تو وہ  دوڑ کراس بچے کی جانب گئی جسے ابھی بلڈنگ سے رسکیو کیا گیا تھا؛ اس بلڈنگ سے زندہ نکلنے والا وہ واحد بچہ تھا ، باقی سب ان کے پہنچنے تک اپنی جان کا نزرانہ پیش کر چکے تھے ۔  
                                                                                            …☆☆☆…
(راولپنڈی —پاکستان )
آذان کی آواز پر حسبِ معمول  اس کی آنکھ کھل چکی تھی  ، خود کو گرم بستر سے آزاد کرتی وہ واشروم کی جانب بڑھی ۔ دو منٹ بعد دروازہ کُھلا تو وضو کے پانی سے تر وہ  پُرنور  چہرا  باہر  آیا ۔ حجاب کے سٹائل میں دوپٹے کو اوڑٰھتے اس نے جائنماز بچھائی اور فجر کی نماز ادا کرنے لگی ۔
دعا کے لئے ابھی ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ آنکھیں اشکِ بے تاب سے لبریز ہو گئیں ،ان آنسوؤں  پر قابو  نا پاتے وہ سجدے میں گِر گئی اور ہکچیوں کی زد میں اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے لئے  دعا کرنے لگی ، جو کافروں کے ظلم کا نشانہ بنے ہوئے تھے ۔وہ اس سے لاکھوں میل دور سہی مگر دل کے  نہایت  قریب   تھے ؛ اور اصل رشتہ تو دل کا رشتہ ہی ہوتا ہے ۔
نماز سے فارغ ہوتے ہی نیلم کمرے سے باہر آئی تو  حاشر صاحب کو اخبار کا مطالعہ کرتے پایا ۔ انہیں سلام کرتی وہ بلکونی کی جانب بڑھ گئی ۔
بلکونی میں قدم رکھتے ہی ٹھنڈی  ہوا کے  جھونکے کے  ساتھ ایک خوبصورت آواز اس کی  سماعت سے  ٹکرائی ؛ ارتضیٰ اپنی خوبصورت آواز میں سورۂ  البقرہ کی تلاوت کر رہا تھا۔ سورج کی ابھرتی پہلی کرنوں میں ارتضیٰ کی تلاوت کے ساتھ چڑیوں کی چہچہاہٹ ماحول میں رس گھول رہی تھی ۔
خَتَمَ اللّٰهُ عَلَىٰ قُلُوۡبِهِمۡ وَعَلٰى سَمۡعِهِمۡ​ؕ وَعَلٰىٓ اَبۡصَارِهِمۡ غِشَاوَةٌ  وَّلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ‏ 
“اللہ نے ان کے دلوں اور ان کی سماعتوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ وہ سخت عذاب کے مستحق ہیں۔” ، یہ آیت پرھتے ہی ماحول میں خاموشی چھا گئی ، یوں جیسے سا ری کائنات ایک پل کو رک گئی ہو ۔ نیلم کا طلسم ٹوٹا تو اس نے  گردن موڑ کر اپنے بھائی کو دیکھا تو وہ شل رہ گئی ؛ وہ رو رہا تھا ؛ یا خدایا وہ رو رہا تھا !
“بھائی !….کیا ہوا ؟” ، کہتے ہوئے اس نے پاس بیٹھےارتضیٰ کے شانے پر ہاتھ رکھا ۔
” مجھے یہ آیت ڈراتی ہے نیلم ، اس وقت سے ڈراتی ہے جب ہماری  قوم کے  لوگ آگ میں دھکیلے جائیں گے ۔”
“کیوں بھائی ایسا کیوں ہو گا ؟ کیا ہم ان لوگوں کو سمجھا نہیں سکتے ؟”
“وہ ہمارے سمجھانے سے نہیں سمجھتے نیلم۔ ” ، بے بسی سے کہتا وہ قرآن بند کر چکا تھا ۔
“کیوں بھائی ؟”
“کیونکہ ……”
                                                                                          …☆☆☆…
” میں نے غزہ میں جانے کے لئے سائن اپ کر لیا ہے۔ ” ،ناشتہ کرتے سب کے ہاتھ رک گئے ۔
“الخدمت فا ؤنڈیشن  سے کچھ ڈاکٹرز کی ایڈجا رہی ہے غزہ میں تو ، ……میں نے بھی سائن اپ کر لیا ہے ”  ناشتے کے ٹیبل پر موجود خاموشی کوپھر سے ارتضیٰ نےہی  توڑا ۔
” یہ تو بہت اچھی بات ہے برخوردار ،….آخر کو…. اسی دن کے لئے تو تمہیں ڈاکٹر بنایا تھا ہم نے”، خود کو نارمل ظاہر کرتے حاشر صاحب نے جوس پی کر اپنا حلق تر کیا ۔
“امی !….” ، مریم کو خاموش سر جھکائے  بیٹھا دیکھ کر ارتضیٰ نے  پکارا تو مریم اٹھ کھڑی ہوئی اور چلتی ہوئی اپنے بیٹے کی پاس آگئی ۔
اپنی ماں کو اپنی طرف قدم لیتا دیکھ کر ارتضیٰ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
” تم نہیں جانتے ارتضیٰ  تم نے  یہ بات کہہ کر میرا برسوں سے جھکا سر آج فخر سے بلند کر دیا ہے ” کہتے ہوئے مریم نے اسکی  پیشانی  چوم لی۔ 
“مجھے اس بات پر فخر ہے ارتضیٰ کہ تم میرے بیٹے ہو ۔” ، ہاتھوں کے پیالے میں اسکا چہرہ بھر کر کہا تو ارتضیٰ نے اپنی ماں کے چہرے پر ہاتھ رکھ کر انگوتھے سے ان کے  آنسو صاف کئے اور ہاں میں سر ہلا دیا۔
فلسطین سے جڑی وہ اپنے ماں باپ کی محبّت کو تو جانتا تھا پھر بھی ایک ڈر تھا کہ کہیں وہ اپنی اولاد کی محبّت میں آ کر اسے روک نہ لیں ، اور آج اس کا یہ ڈر بھی ختم ہو گیا ۔
وہ جا رہا تھا ، بلآخر وہ غزہ جا رہا تھا ، اپنے خوابوں کے شہر میں ، اس شہر میں جسکی خوبصورتی کے قصّے وہ بچپن سے اپنی ماں سے سنتا آیا ہے ۔
اس کا یہ خواب پورا ہونے جا رہا تھا ؛ غزہ  دیکھنے  کا خواب ۔  
                                                                                             …☆☆☆…
(غزہ —ہمارا فلسطین )
“ماما آپ کو کھانے کے لئے کچھ ملا  یا کل سے بھوکی ہی ہیں ؟” ، ڈیوٹی پر دوسری ڈاکٹر آ چکی تھی اسی لئے وقت ملتے ہی جاثیہ فون پر اپنی زندگی میں موجود واحد رشتے اپنی ماں سے بات کر رہی تھی ۔
“جی میری بچی میں نے کھا لیا ، شکر ہے آج اتنا انتظار نہیں کرنا پڑا۔ “
“اچھا جلدی مل گئی آج بریڈ؟”
“ہاں آج بس پانچ گھنٹے انتظار کیا ہے ورنہ تمہیں  تو پتا ہے ناروزانہ سارا سارا دن کھڑا رہنا پڑتا ہے ایک بریڈ کے  پیس کے لئے ۔”
“چلیں شکر ہے مل تو گیا نا کچھ ۔”، شکر ادا کرتے اس نے بولا کیونکہ کل  سارا دن انتظار کرنے کے بعد بھی ان لوگوں کو کچھ کھانے کو نا ملا تھا۔
 ” میں نے آدھا پیس رکھا ہے تمھارے لئے کب گھر آؤ گی؟”
“ماما آپ کھائیں پورا ؛ ہوتا کتنا سا ہے ایک پیس جو آپ نے میرے لئے بھی رکھ لیا۔” ،وہ واقعتاًخفا ہوئی تھی ۔ ایک ماں ہی تو بچی تھی اس کے پاس تو وہ کیوں نہ فکر کرتی ۔
  ” کیسے نا رکھتی ….” ابھی وہ کچھ کہہ رہی تھیں کہ فون سے دھماکے کی آواز جاثیہ کے کانوں سے ٹکرائی ۔
“ماما !…ماما !” وہ حلق کے بل چلائی “الله تعالیٰ پلیز نہیں ……ماما نہیں ، الله تعالیٰ ” ، الله سے فریاد طلب کرتی وہ پھر سے اپنی ماں کو پکارنے لگی ۔
“ماما !….ماما پلیز کچھ بولیں ، ماما ” ، جاثیہ کی آواز رندھ گئی اور آنسو لڑیوں کی صورت آنکھوں سے بہنے لگے
“جاثیہ….جاثیہ ” ، اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا ، یہ اسکی ماں کی آواز تھی ۔
“ماما ….” ، مبائل پر اپنی گرفت مضبوط کرتے بولی ۔
“میں ٹھیک ہوں بیٹا ….ہمارے ساتھ والی بلڈنگ گر گئی ہے ،اسی وجہ سے ادھر بھی ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے زمین ہل رہی ہو ۔” 
“ماما نکلیں فوراً …….ماما بلڈنگ سے باہر نکلیں جلدی !” ، چلا کر کہتی وہ اندر کی جانب دوڑی کیونکہ اسے اپنی ٹیم کو لے کر وہاں جلد از جلد پہنچنا تھا تاکہ وہ  لوگ جو اس بلڈنگ تلے دب چکے تھے انہیں بچایا جا سکے ۔
                                                                                                   …☆☆☆…
(راولپنڈی —پاکستان )
نیلم کالج کے لئے تیار ہو کر باہر نکلی تو عاصم (انکا ملازم ) کی کلاس ہو رہی تھی ۔
“یہ دیکھو آئل بھی ڈالڈہ کا لے کر آئے ہو یہ اسرائیل کا ہے ، یہ …لائف بوائے بھی ان کا ہے ، یوگرٹ بھی نیسلے (nestle ) کا اٹھا لائے ہو ۔” ، کہتے ہوئے مریم ساری گروسری واپس شاپنگ بیگ میں ڈال رہی تھی اور ساتھ ساتھ عاصم کی کلاس بھی لے رہی تھی  ،جو بتانے کے باوجود اسرائیل کی بنی اشیاء اٹھا لیا تھا ۔
” ڈالڈہ  کی جگہ یہ صوفی آئل ، …ڈش واش اور صابن بھی صوفی کے ہی ، اور ……”، اب وہ ساری لسٹ دوبارہ لکھ رہی تھی ۔
“اللہ حافظ ماں جی!” ، مریم کی پیشانی پر بوسہ دیتی وہ کالج کے لئے نکل گئی ۔
“اللہ کی امان میں میری بچی ۔”
                                                                                            … ☆☆☆… 
گاڑی میں بیٹھتے ہی نیلم نے ائیرپوڈز  کانوں میں لگا کر اپنے پسندیدہ سکالر  کا پوڈکاسٹ لگا لیا جو انہوں نے فلسطین پر پوسٹ کیا تھا ۔ کانوں میں اب پوڈکاسٹ کی آواز گونج رہی اور آنکھوں میں چلتی گاڑی سے پیچھے چھوٹ جانے والے درختوں کا منظر ۔
“دھماکوں کے دھویں تلے  کی ان کی نمازیں ادا ہو رہی ہیں اور اے سی کی ٹھنڈک تلے ہماری نمازیں قضا ہو رہی ہیں ، کیا یہ ہمارا  ا یمان ہے ؟ “
اسکی زبان سے بے  ساختہ الحمدللہ نکلا کہ الله نے اس سے اپنے سامنے سجدہ ریز ہونے کی توفیق نہیں چھینی تھی ۔
“الله کے لئے یہ بس ایک کُن ہے ، اور ساری ظالم اسرائیلی طاقتیں مفلوج ہو جائیں گی ……مگر الله ہمیں آزما رہا ہے ، ہمارا ایمان آزما رہا ہے ۔ “
نیلم کی آنکھ سے ایک اشک ٹوٹ کر گال پر بکھرا ۔سفر تمام ہوا اور گاڑی نیلم کے کالج کے باہر آ رکی ۔
” نیلم بچے یاد ہے نہ آپکو کہ کوئی اسرائیل کی سنیکس نہیں لینی آپ نے ” ، اسے کالج کے سامنے ڈراپ کرتے ہوئے حاشر صاحب نے ایک بار پھر اسے یادہانی کرائی ، “جی بابا ” کہہ کر وہ اندر کی جانب بڑھ گئی 
“یہ آزمائش انکی نہیں….. یہ آزمائش ہماری  اور ہمیں اس آزمائش پر پورا اترنا ہے ” ، کانوں میں پوڈکاسٹ کی آخری لائن گونجی تو  نیلم نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا ، یہ  آزمائش اسکی تھی اور اسے اس پر پورا اترنا تھا۔ 
                                                                                                      …☆☆☆…     
                                                        (   بھائی کیا ہم انھیں سمجھا نہیں سکتے ؟)    
” شانزہ تم یہ کیسے لے  سکتی ہو تم جانتی ہو یہ چیزیں اسرائیل کی بنی ہوئی ہیں۔ ” ، اپنی دوست کو منع کرنے کے باوجود لیز (lays )لیتے دیکھ کر نیلم غصّے سے پھٹ پڑی ۔
” ہاں تو ہم کیا کریں ؟ہر اچھی چیز انکی ہے تو ہم وہ کھانا ہی چھوڑ دیں ۔ کھانے سے لے کر ٹوٹ پیسٹ تک ان کا برانڈڈ ہے ۔ “
                                     (نہیں نیلم وہ ہمارے سمجھانے سے نہیں سمجھتے۔ )
“ہر چیز کا متبادل موجود ہے یہاں اگر تم استعمال کرنا چاہو تو ” ، نیلم نے پھر سے اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔
” اوہ  پلیز نیلم ….. میں وہ لوکل پراڈکٹس نہیں یوز کر سکتی ۔ ” ، کہتے ہوئے اس نے کوک کی بوتل منہ سے لگا لی ۔
                 (کیونکہ الله نے انکے دلوں پر مہر لگا دی ہے ، وہ محسوس کرنے کی قوت سے   مفلوج ہو چکے ہیں۔ ) 
“یہ جن پیسوں سے تم ان کی چیزیں خریدتی ہو انہی پیسوں سے وہ ہمارے مسلمان بہن بھائیوں پر بمب گراتے ہیں ۔ کیا تمہارا دل انکی تکلیف پر آنسو نہیں بہاتا ؟ ” ، نیلم کے دل میں ایک ٹھیس اٹھی تھی کوئی اس قدر سفاک کیسے ہو سکتا ہے ؟
” تو اب ہم فلسطینیوں کی وجہ سے اپنی لائف تو ڈسٹرب نہیں کر سکتے نا اور ویسے بھی اسرائیل ان پر ظلم کر رہا ہے ہم پر تو نہیں ” ، کوئی اتنا بےحس کیسے ہو سکتا ہے ؟ 
 ” ظلم وہ نہیں ظلم ہم کرتے ہیں ، انکی چیزیں خرید کر بمب باری کے لئے پیسے ہم فراہم کرتے ہیں ، خود کو ان کے سپرد کر کے ہمت ہم دیتے ہیں ، ان کو خود پر حاوی کر کے طاقت ہم بخشتے ہیں ، ہماری سپورٹ کے بغیر وہ کیا ہیں ؟”
” کیا تمہیں انکی تکلیف ، انکا درد نظر نہیں آتا شانزے  ؟ “، وہ اپنی دوست کی سوچ پر دکھی ہوئی تھی ۔
(انہیں فلسطینیوں کی تکلیف اس لئے نظر نہیں آتی کیونکہ الله نے انکی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے ۔ الله انہیں اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ وہ اسکے نیک بندوں کی تکلیف دیکھیں ۔) 
” اوہ گاڈ نیلم …. فلسطینی پہلے نہ حملہ کرتے تو اسرائیل بھی نہ کہتا کچھ انھیں ، جب پتا تھا انہیں کہ نہیں مقابلہ کر سکتے وہ اسرائیل کے ساتھ تو کیوں جنگ چھیڑی ان لوگوں نے …..اب بھگتیں ..”
” سٹاپ اٹ شانزے !تمہارا کیا مطلب ہے کہ وہ انکا ظلم سہتے رہتے ؟ ” ،غصّے سے نیلم نے کہا تو شانزے نے اکتاہٹ سے سر جھٹکا ،”ہو نہہ”                              
“اتنے سالوں سے اسرائیل جو کرتا آیا ہے وہ نظر نہیں آیا تمہیں ، اور فلسطین ….اگر فلسطین نے ایک بار اپنے حق کے لئے کوئی قدم اٹھایا ہے تو وہ تم اندھوں کو بھی نظر آ گیا “، غصّے سے لال چہرہ لئے نیلم کی آواز حد درجہ اونچی ہو چکی تھی جس کی وجہ سے کنٹین میں موجود سب سٹوڈنٹ ان کی طرف متوجہ تھے ۔
” اوہ پلیز نیلم اپنا یہ فلسطین نامہ بند کرو تنگ آ گئی ہوں میں تمہاری اس روز روز کی بکواس سے ، نہیں سن سکتی یہ سب اور میں ۔”   
“اور برائے مہربانی اب اپنے اس سو کالڈ  فلسطین کی باتیں  لے کر میرے پاس مت آنا نہیں سن سکتی میں ۔”
(انکی سماعتوں پر مہر لگ چکی ہے نیلم ، ہم چاہے جتنا انہیں سمجھا لیں لیکن حق کی آواز ان تک نہیں پہنچتی ، وہ سننا ہی نہیں چاہتے ۔)
نیلم نے بے یقینی سے شانزے کو دیکھا تو اسے وہ آیت یاد آئی جو اسکے بھائی نے اسے سنائی تھی ۔ اس وقت تو نیلم کو یقین نہ آیا تھا کہ کوئی اتنا بے حس کیسے ہو سکتا ہے مگر آج … آج شانزے کے منہ سے یہ سب سن کر اسے ارتضیٰ کی باتیں یاد آئی ۔
ایک ہزار چار سو گیارہ سال پہلے الله نے قرآن میں  ان لوگوں کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا بس نیلم کو ہی دیر لگی ان لوگوں کو پہچاننے میں ۔
( تم دیکھنا نیلم قیامت کے دن الله بھی انہیں نہیں دیکھے گا ، انہیں عذاب میں ڈال کر اس طرح بھول جائے گا جس طرح یہ لوگ ہماری تکلیف دیکھ کر بھول گئے تھے ،ان کی درد بھری آہیں سن کر الله بھی اسے طرح ان سنی کر دے گا جس طرح ان لوگوں نے فلسطین کی درد بھری آواز پر کان بند کر دیے۔  )
” نہیں آؤں گی میں سن لیا …کبھی نہیں آؤں گی میں تمہارے پاس ۔”، کہتے ہوئے نیلم وہاں سے چلی گئی ، اسکی دوستی کا میعار اتنا گھٹیا نہیں تھا کہ وہ اب بھی اس کے ساتھ دوستی رکھتی ۔ جس کو فلسطین کے ساتھ ہمدردی نہیں تھی بھلا وہ اسکے ساتھ ہمدردی کیوں رکھتی ؟
سب نے ان کی سالوں پر مبنی اس بے مثالی دوستی کو ٹوٹتے دیکھا ۔ دوستی میں رشتہ ہمیشہ برابری کا ہوتا ہے اور اب وہ دونوں برابر نہیں رہی تھیں ، نیلم معتبر ہو چکی تھی ۔
                                                                                                    …☆☆☆…
باب نمبر : ٠٢               
پہلے ماں سے کچھ پوچھا ہے ، 
پاؤں میں  باپ کا جوتا ہے ۔
کیا چال میں خوب روانی ہے ،
کاندھے پہ نئی جوانی ہے ۔

جس کام چلے ہیں چہرے سے ،
وہ کام ضروری لگتا ہے ۔
آنکھوں میں دیکھا جب اس نے ،
پیغام ضروری لگتا ہے ۔
کتنا پیارا ہوگا وہ ،
جس کے لئے سارا کرتا ہے ۔
تیرا ہی سہارا ہے اس کو
 باقی کو سہارا کرتا ہے ۔
باز پروں سے کب اڑتا ہے ؟
باز کا دل ہے جو اڑتا ہے ۔
تیز ہوا سے ڈرنا کیسا ؟
دل ہے ایسے کب مڑتاہے ۔ 
                                                                                                  …☆☆☆…
ہسپتال میں داخل ہوتے ہی خون اور دوائیوں کی ملی جلی بو اس کے نتھوں سے ٹکرائی تو اس نے اپنا ماسک اوپر کر لیا اور وارڈ  کا دروازہ کھول کر اندر بڑھ گیا ۔
دروازہ کھلا تو سب نے اندر قدم رکھتے اس عربی حُسن رکھنے والے شہزادے کو دیکھا ، جو بلیو سکربز کے اُوپر وائٹ کوٹ پہنے اندر آ رہا تھا ۔ سفید مومی رنگت پر کھڑے نقوش اور چہرے کے جمال میں اضافہ کرتی براؤن  بیرڈ ، ہلکے گھنگریالے بال اور زیتون سی سبز آنکھوں پر فریم لس گلاسز لگائے وہ آگے بڑھا تو یوینفارم پر لگا اسکا  نیم   بیج واضع  ہوا ؛ ” ارتضیٰ حاشر علی “
وہ آ چکا تھا ، اپنے خون سے کیا عہدِوفا   نبھانے ؛ ارتضیٰ حاشر علی  غزہ آ چکا تھا ۔
” هل أنت فلسطيني ؟” ( کیا آپ فلسطینی ہیں؟)  ، پاس کھڑی ڈاکٹر جاثیہ  اسکے یونیفارم پر لگے فلسطینی جھنڈے کے ساتھ  پاکستانی  جھنڈے کے   بیج   کو دیکھ کر بلآخر پوچھ بیٹھی ۔
مریض کی پٹی کرتے ارتضیٰ کے ہاتھ ایک پل کو  تھمے ۔
  ” قلبیی فلسطینیی “
(میرا دل فلسطینی ہے ۔) ، مسکرا کر کہتا وہ پھر سے اپنے کام میں مشغول ہو گیا ۔
کیا تھا وہ ؟ اپنا پرسکون ملک چھوڑ کر ایسی جگہ آگیا تھا جہاں ہر وقت موت سر پر منڈلاتی رہتی ہے ؛ صرف اس لیے کہ اسکا دل فلسطینی ہے؟
” ڈاکٹر جاثیہ جلدی آئیں……. اس بچے کے سر پر بہت گہری چوٹ آئی ہے ۔” ، اس آواز پر جاثیہ کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تو وہ  دوڑ کراس بچے کی جانب گئی جسے ابھی بلڈنگ سے رسکیو کیا گیا تھا؛ اس بلڈنگ سے زندہ نکلنے والا وہ واحد بچہ تھا ، باقی سب ان کے پہنچنے تک اپنی جان کا نزرانہ پیش کر چکے تھے ۔  
ارتضیٰ اس مریض کی پٹی کر چکا تھا اسی لئے مدد کی غرض سے جاثیہ کی جانب بڑھا لیکن اسے دیکھتے ہی اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی ۔ وہ کمال مہارت سے ایک ساتھ تین تین پیشنٹس کو ہینڈل کر رہی تھی ۔
ایک پیشنٹ کو انجکشن لگا کر اب وہ بچے کا چہرہ صاف کر رہی تھی ساتھ ہی اسکی ہارٹ بیٹ چیک کر رہی تھی ۔
اسکے بھورےگھنگھریالے  بالوں کی کچھ لٹیں رف سے بنے جوڑے سے نکل کر اسکی سفید مومی گردن کو چھو رہی تھیں وائٹ کوٹ پر لگا بیج اسکی شناخت کی عکاسی کر رہا تھا، ” جاثیہ حنیف “                                                                                                                                     
بھوری شہد رنگ آنکھیں ، کھڑی ناک پر دمکتی باریک سفیدہیرے کی  لونگ ۔ ارتضیٰ اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ بچے کی کسی بات پر اسکے پنکھڑی جیسے لب مسکرائے تو گال میں امڈتے گھڑے میں ارتضیٰ کو اپنا آپ ڈوبتا ہوا محسوس ہوا ۔
ہارٹ بیٹ چیک کرتے جاثیہ کی آنکھیں ایک دم تحیر سے  پھیلی ، ” ڈاکٹر ارتضیٰ جلدی چیک کریں اسے اسکی ہارٹ بیٹ …..سلو ہو گئی ہے بہت ۔ “
ارتضیٰ کی محویت ٹوٹی تو ایک منٹ کی دیر کئے بغیر آگے بڑھا ، گلے سے ستھیتھوسکوپ  اتار کر کان میں لگائے اور اسکی ہارٹ بیٹ چیک کرنے لگا ، وہ واقعی سلو تھی ۔
اس نے بچے کو فوراً سی پی آر  دینا شروع کر دیا مگر بے سُد کیونکہ اسکی روح جسم سے پرواز کر چکی تھی ۔
زیتون سی سبز آنکھوں کا تصادم بھوری آنکھوں سے ہوا ، ارتضیٰ نے نفی میں سر ہلایا تو جاثیہ کی آنکھیں پل بھر میں نم ہوئیں ۔ پنکھڑی سے گلابی لب ہونٹوں کی دسترس میں آ چکے تھے ، شائد وہ خود کو رونے سے روک رہی تھی  ۔   
                                                                                                    …☆☆☆…
ارتضیٰ اور جاثیہ کے درمیان کافی حد تک دوستی ہو چکی تھی، وجہ ان دونوں کا نرم مزاج تھا۔ اس وقت بھی وہ دونوں   باہر کوریڈور میں بیٹھے تھے جب وہاں موجود خاموشی کو جاثیہ نے توڑا ۔
“تم چاہ کر ہماری تکلیف اس طرح محسوس نہیں کر سکتے ارتضیٰ جس طرح ہم کرتے ہیں “، ارتضیٰ نے گردن موڑ کر جاثیہ کو دیکھا ، کتنا درد تھا اس کے لہجے میں ۔
” تمہیں زخمی لوگوں کو دیکھ کر تکلیف محسوس ہوتی ہے ، ہمدردی محسوس ہوتی ہے مگر خوف … خوف محسوس نہیں ہوتا ، تم اس خوف سے آزاد ہو ارتضیٰ کہ ایک دن سٹریچر پر پڑا وجود تمہارے کسی اپنے کا ہوگا…… تمہارے کپڑوں  پر لگا خون تمہارےکسی عزیز کا ہوگا ۔ ” ، ارتضیٰ نے گردن جھکا لی کیونکہ وہ واقعی اس خوف سے آزاد تھا ۔
“مجھے ڈر لگتا ہے ….اس وقت سے جب میں سٹریچرپر پڑے وجود کو دیکھوں گی اور وہ چہرہ میری ماں کا ہوگا۔ “، آنسو اسکے رخسار کو سلامی پیش کرتے زمیں بوس ہو گئے ۔
گھٹنوں کے گرد بازو حائل کرتی وہ سر جھکا گئی ۔ پاس بیٹھے ارتضیٰ کے کانوں میں اسکی سسکیوں کی آواز گونجی تو اس نے آگے بڑھ کر  نرمی سے اس کی پشت  سہلائی ، یہی تو وہ کر سکتا تھا ، اسکی حوصلہ افزائی ۔
                                                                                             …☆☆☆…
(راولپنڈی —پاکستان )
“نیلم تمہارا کوئی رابطہ ہوا ارتضیٰ سے ؟”، مریم کی مضطرب آواز   ہال میں گونجی تو نیلم نے سر اٹھا کر اپنی ماں کو دیکھا جن کی آنکھوں سے آنسو گرنے کو بے تاب تھے ۔
“نہیں ماما ….پرسوں بس میسج ملا تھا کہ وہ ٹھیک ہیں ، پھر غزہ کا انٹرنیٹ کٹ اوف کر دیا گیا ہے ابھی تک سگنلز نہیں آ رہے ۔” ، افسردگی سے کہتی وہ مریم ے پاس بیٹھ گئی اور انکی گود میں سر رکھ دیا ۔
“نجانے میرے بچے کو کچھ ملا ہوگا کھانے کو یا نہیں ….کس حال میں ہوگا وہ ” ، کہتے ہوئے وہ نیلم کے سر میں انگلیاں چلانے لگی ۔
لاؤنج میں داخل ہوتے حاشر صاحب کے قدم مریم کی بات  پر پل بھر کو تھمے اور ارتضیٰ کا ہنستا مسکراتا چہرہ یادوں کے پردے میں لہرایا ،آگے بڑھ کر انہوں نے مریم کے گرد بازوں حمائل کئے اور انکے پاس ہی بیٹھ گئے ۔
“میں بزدل تھی حاشر جو اپنی زمین کو  چھوڑ آئی مگر میرے خون میں بے وفائی نہیں تھی ؛……دیکھو میرے دل کا ٹکڑا وہاں میری زمین سے کیا عہدِ وفا نبھا رہا ہے ۔”،کہتے ہوئے ان کی آواز رندھ گئی اور ماضی کی یادوں نے انہیں اپنے حصار میں لے لیا ۔
ماضی :       
“حاشر تم اسے لے کر پاکستان چلے جاؤ ۔” ،کھانستے ہوئے مریم کی ماں اسے یہاں سے جانے کا کہہ رہی تھی ۔
“امی نہیں …..میں کہیں نہیں جاؤں گی  یہیں رہوں گی آپ کے پاس ، اپنے غزہ میں۔ “،مسلسل نفی میں سر ہلا کر مریم نے اپنی ماں کا ہاتھ تھام لیا ۔
“نہیں مریم ….”، کھانستے ہوئے وہ دوبارہ بولی ، “تمہیں یہاں سے جانا ہوگا مریم ، تمہیں زندہ رہنا ہوگا ، اپنے لئے ، میرے لئے ، ہمارے غزہ کے لئے …….تمہیں زندہ رہنا ہوگا مریم ۔” کہتے ہوئے انہوں نے مریم کا تھاما ہاتھ حاشر کو تھما دیا ۔
“میری بچی تمہارے حوالے حاشر ، اسے لے کر پاکستان لوٹ جاؤ …” ،  انکی زبان سے نکلنے والے یہ آخری الفاظ تھے ،اور ان کی روح نے اس مٹی کے پتلے سے نجات حاصل کر لی ۔
مریم کی ماں کینسر کے آخری سٹیج پر تھی تبھی اپنی بیٹی کو ایک مضبوط سہارے کے سپرد کرتے  اس دنیا سے کوچ کر گئیں ، اور حاشر ان سے کیا اپنا آخری وعدہ نبھاتے مریم کو لے کر پاکستان آ گیا ۔
مریم اور حاشر کی پہلی ملاقات” کدی عیاد”  یونیورسٹی  موروکو (morocco ) میں ہوئی ۔ تعلیم مکمل کرنے  کے بعد دونوں کے راستے جدا ہو گئے کیونکہ حاشر کا پاکستان سے اور مریم کا تعلق غزہ سے تھا، دونوں ہی اپنے وطن واپس لوٹ گئے مگر قسمت نے انہیں ملوانا تھا اسی لئے دو سال بعد وہ دونوں فلسطین  کے شہر قدس میں ملے اور پھر گھر والوں کی باہم رضامندی کے ساتھ مسجد اقصیٰ کی با برکت جگہ پر وہ نکاح جیسے پاک بندھن میں بندھ گئے ۔
                                                                                                …✰✰✰… 
باب نمبر : ٠٣
ہل جاتی ہے ہر دستک پر ،
 ماں کو لگتا ہے میں آیا ۔
کوئی  پیارا ہے مجھے آپ سے بھی ، 
میں بابا سے یہ کہہ آیا ۔
گھر بار ہے میرا بھی پیچھے ،
پر آگے بھی گھر میرا ہے ۔

اس گھر کی ساری خوشیوں کو ،
اک بار نہ گھبرانے دیں گے ۔
اک سوچ بری بھی سرحد سے ،
اس پار نہیں آنے دیں گے ۔

کیا ڈر ،کیا وہم ، کیا خوف اسے ،
جس پشت پہ لاکھ دعائیں ہوں ۔
ہو جن کے لہو میں بہتی وفا ،
پھر سامنے لاکھ بلائیں ہوں ۔
 
جاتے جاتے بھی محفل سے ،
رُخ گلشن کا مہکاتے ہیں ۔
ثابت قدموں  پہ جو اپنے ،
وہ سچ  ثابت ہو جاتے ہیں ۔
                                                                                                …✰✰✰…
“ماما یہاں پر حالات بہت خراب ہو گئے ہیں ، ہمارے پاس میڈیکل سپلائیز  ہی ختم ہو چکی ہیں ….آپ یقین کریں گی کہ بچوں کو انکیوبیٹر ز  کی جگہ فوئیل (foil ) میں ریپ کر رہیں ہیں تاکہ انہیں زندہ رکھ سکیں ، بجلی نہیں ہے ، انٹرنٹ نہیں ہے …..اتنی مشکل سے ہوسپٹل چل رہا ہے …..مجھے نہیں پتا ماما کہ میں آپ کے پاس کبھی واپس آؤں گا یا نہیں ، آپ دعا کریں سب جلد ٹھیک ہو جائے ..اللہ حافظ ” ، کہتے ہوئے اس نے سینڈ کا بٹن دبا دیا ۔ 
آج ایک ہفتے بعد سگنلز آئے تھے تو موقع پاتے ہی ارتضیٰ نے ویڈیو میسج ریکارڈ کرکے مریم کو بھیج دیا تاکہ انہیں یہاں کے حالات سے آگاہ کر سکے اور یہ بتا سکے کہ انکا بیٹا زندہ ہے۔ 
میسج سینڈ کرنے کے بعد ارتضیٰ باقی  پیرا میڈیکس کے ہمراہ ایک بلڈنگ کی طرف چلا گیا جو آج اسرائیل کے بمب کا نشانہ بنی تھی ۔
کاش وہ اس وقت نہ جاتا لیکن قسمت کو یہی منظور تھا ۔                                                                                         
                                                                                      …✰✰✰…
جاثیہ ایک پیشنٹ کے بازو پر پٹی کر رہی تھی جب گولیوں کی آواز اسکے کانوں میں گونجی وہ  دوڑ کر ہسپتال کے داخلی دروازے کی جانب بڑھی جہاں سے اسرائیل کی فورسس اندر آ چکی تھیں ۔ ظالمانہ انداز میں لوگوں کو مارتے وہ جاثیہ کا دل دہلا گئے ، وہ دوڑ کر درد سے بلکتے بچے کے پاس پہنچی اور اسے اپنے حصار میں لے لیا ۔
بچے کو  سینے سے لگائے وہ  اس کے کانوں پراپنے ہاتھ رکھ کر  ان خوفناک آوازوں کو روکنے کی ناکام   کوشش کر رہی تھی  کہ اچانک جاثیہ کو ایک گرم چیز اپنے جسم کے اندر  پیوست ہوتی  محسوس ہوئی ، ایک ….دو…… اور پھر ایک جھٹکے سے حصار ٹوٹا اور وہ زمیں بوس ہوگئی ۔
زمین پر پڑے پتھر بری طرح جاثیہ کے سر سے ٹکرائے ، لرزتی پلکوں سے اس نے اس روتے ہوئے بچے کو دیکھا جس کے چہرے پر اس کے خون کے چھینٹے پر چکے تھے ۔
آنکھیں بند ہوئی تو منظر میں سبز آنکھیں ابھری ، ہنستی مسکراتی سبز آنکھیں ، ہاں وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ جب وہ ہنستا ہے تو اسکی آنکھیں بھی مسکراتی ہیں مگر زندگی نے اسے یہ بتانے کی مہلت نہیں دی ۔
                                                                                                      …✰✰✰…
ڈاکٹرز کی ٹیم واپس آئی تو ہسپتال کی یہ حالت دیکھ کر وہیں ڈھہہ گئے ، کتنی مشکل سے وہ اپنے لوگوں کو بچا بچا کر ہسپتال لاتے اور ان ظالموں نے ہسپتال ہی تباہ کر دیا ۔
 “ڈاکٹر جاثیہ !”، جاثیہ کا خیال آتے ہی ارتضیٰ دیوانہ وار آگے بڑھا ۔
(” تمہیں زخمی لوگوں کو دیکھ کر تکلیف محسوس ہوتی ہے ، ہمدردی محسوس ہوتی ہے مگر خوف …  ……خوف محسوس نہیں ہوتا ۔”)
“جاثیہ !……جاثیہ !”،چلا کر اسے پکارتا وہ ہسپتال کا کونا کونا چھان رہا تھا، شہید ہو جانے والے ڈاکٹرز اور بچوں کو سٹریچر پر ڈال کر باہر نکالا جا رہا تھا ۔
(” تم اس خوف سے آزاد ہو ارتضیٰ کہ ایک دن سٹریچر پر پڑا وجود تمہارے کسی اپنے کا ہوگا۔”)
خوف سے وہ سٹریچر پر لے جانے والے ہر وجود کو دیکھ رہا ،آج جاثیہ نے اسے اس خوف بھی آشنا کروا دیا ۔
وہ الله سے اسکی زندگی کی مہلت مانگ رہا تھا وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ اسے بھی خوف آتا ہے کہ وہ سٹریچر پر  پڑے وجود کو دیکھے  گا اور وہ چہرہ ….وہ چہرہ اسکی جاثیہ کا ہوگا ۔
” ڈاکٹر ارتضیٰ آپ کال کر کے دیکھیں ڈاکٹر جاثیہ کو …….ہم انہیں نہیں ڈونڈھ پا رہے “، پاس آتے ایک ریسکیو آ فیسر نے اسکی حالت کے پیش نذر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا جس پر وہ سر کو ہاں میں جنبش دیتا اپنا موبائل نکالنے لگا ،ہاتھوں کی لرزش اس قدر بڑھ گئی تھی کہ اسے موبائل تھامنے میں بھی مشکل  پیش آرہی تھی ۔
پہلی دفعہ  ارتضیٰ کو معلوم ہوا تھا کہ کسی کو کھو دینے کا خوف کیسا ہوتا ہے ،کوئی اگر ارتضیٰ سے اس وقت پوچھتا کہ یہ خوف کیسا ہوتا ہے تو بلا دریغ کہہ دیتا کہ یہ احساس کانٹوں پر رکھتے مخمل کے کپڑے کی طرح ہوتا ہے جسے بے دردی سے کھینچ لیا جائے  ۔
بلآخر ارتضیٰ نے اسکے نمبر پر رنگ کیا ،مگر  کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا ۔وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گرتا بچوں کی طرح سسک کر رونے لگا ۔ پاس کھڑے آدمیوں نے اسکی حوصلہ افزائی کے لئے کندھے پر ہاتھ رکھا جو بری طرح کانپ رہا تھا ۔
” اس طرف ……اس طرف سے آواز آ رہی ہے رنگ کی ۔” ، یہ سنتے ہی ارتضیٰ آواز کی سمت میں بھاگا، چال میں اب بھی لڑ کھڑ اہٹ تھی جس کی وجہ سے وہ دو مرتبہ گرتے گرتے بچا۔
کچھ ہی پل میں اس نے جاثیہ کوتو نہیں مگر اس کے جسم کو  ڈونڈھ لیا تھا ، اپنی بازوؤں میں اسکے بے جان جسم کو بھرتے وہ باہر کی جانب بڑھا اور سٹریچر پر اسے ڈال کر سی پی آر  دینے لگا ، وہ دیوانہ یہ بھول گیا تھا اس کی موت پہلے سے ہی ہو چکی  ہے ، سی پی آر دینے سے وہ واپس نہیں آجائے گی ۔
پاس کھڑے سینئر ڈاکٹر نے ہمدردی سے ارتضیٰ کے ہاتھوں کو تھام کر اسے سی پی آر دینے سے روکا۔
                            (“………تمہارے کپڑوں  پر لگا خون تمہارےکسی عزیز کا ہوگا ۔ “)
سب نے ہمدردی سے ارتضیٰ کو دیکھا ؛ جس کی سبز آنکھیں سرخی میں ڈوب چکی تھی ، بال بکھر کر ماتھے پر  آرہے تھے اور کپڑے …….کپڑے جاثیہ کے خون سے رنگ چکے تھے ۔
                                                                                                        …✰✰✰…
(راولپنڈی —پاکستان )
“ناظرین  ہم آپکو بتاتے چلیں کہ کل رات اسرائیل کی فورسس غزہ کے ہسپتال الشفاء میں داخل ہو گئی ، جی ہاں کل رات الشفاء ہسپتال میں موجود بچے ، نوجوان اور ڈاکٹر ز اسرائیل کے اس حملے سے  شہید ہو گئے  …….اطلاع کے مطابق شہید ہونے والے ڈاکٹرز کی تعداد ……”
“نیلم! …….حاشر! ….نیلم !” ، مریم جو کام سے فارغ ہوتے ہی اب نیوز دیکھ رہی تھی ، نیوز دیکھتے ہی چلا اٹھی کیونکہ انکا لخت جگر الشفاء ہوسپٹل ہی تو گیا تھا ۔
“کیا ہوا ماما ؟……سب ٹھیک ….”، نیوز چینل پر چلتی نیوز کو دیکھ کر نیلم کے باقی کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے  کیونکہ کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ بکھرتی سانسوں کے ساتھ وہ کمرے کی جانب بڑھی اور موبائل لے کر واپس ٹی وی لاؤنج میں آ گئی ۔ اب وہ کانپتے ہاتھوں سے بار بار ارتضیٰ کو کال کر رہی تھی مگر آگے سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا ۔
“میرا دل پھٹ جائے گا حاشر ……کال کریں میرے ارتضیٰ کو ، اسے کچھ نہیں ہوا ……میرا دل مانتا ہے کہ اسے کچھ نہیں ہوا …….کچھ نہیں ہوا میرے بچے کو …” ، سسک کر کہتی وہ حاشر کے سینے پر  سر رکھ گئی۔ اسے تھامتے حاشر صاحب بھی مریم کی پیٹھ سہلانے لگے ۔
“ماما …ماما کال اٹینڈ کر لی ہے بھائی نے ۔” ، چہچہا کر کہتی نیلم کی آواز پر مریم کو لگا کسی نے ان  کے جسم میں روح پھونک دی ہوں ۔ فوراً   آگے بڑھ کر موبائل ہاتھ میں لیتی وہ ویڈیو کال پر موجود  ارتضیٰ کا چہرہ دیکھنے لگی ؛ سبز آنکھیں سرخی میں ڈوبی ہوئی تھی جو اسکے رونے کی چغلی کر رہی تھی ، ہلکے بھورے بال بکھر کر ماتھے پر گرے تھے ۔وہ اس وقت بلیو سکربز پہنے ہوئے تھا جس پر جگہ جگہ خون کے دھبے لگے ہوئے تھے وہی خون اسکے گال پر بھی لگا  ہوا تھا ،شائد اس نے رات سے منہ بھی نہیں دھویا تھا ۔
“امی!……” ، ماں کو پکارتا وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا ، اپنے بیٹے کو زندہ دیکھ کر مریم کی آنکھیں بھی اشک بار ہو گئیں ۔
” امی میں تھک گیا ہوں …….ہار گیا ہوں میں ۔” ، بچوں کی طرح رو کر کہتا وہ مریم کا دل چیر گیا ، یہ اسکا ارتضیٰ تو نہ تھا ، وہ اتنی جلدی ہار ماننے والوں میں سے تو نہ تھا ۔
” نہیں میری جان ،ہم نہیں ہارتے ….ہم نہیں ہاریں گے ، ارتضیٰ  ہم نہیں ہاریں گے ۔”
“میں ٹوٹ گیا ہوں امی ……بکھر گیا ہوں …کرچی کرچی ہو گیا ہوں ، یہ دیکھیں ان ….ان ہاتھوں سے “، وہ اپنے ہاتھوں کو سامنے کرتا بول رہا تھا اور مریم مسلسل روتے ہوئے نفی میں سر ہلاتی رہی  ۔
“ان ہاتھوں سے اسکے بےجان وجود کو اٹھایا ہے میں نے ….وہ کہتی تھی کہ میں یہاں کسی کو کھو دینے کے خوف سے آزاد ہوں …امی اسے بتائیں کہ مجھے بھی ڈر لگا تھا جب میں سٹریچر پر پڑےاسکے  وجود کو دیکھا  تھا ۔” ، سسک کر کہتا وہ نیلم کو بھی رُلا چکا تھا وہ بت بنی بس اپنے بھائی کے اس دیوانے پن کو  دیکھ رہی تھی ۔     
“یہ خون نظر آ رہا ہے آپکو امی ؟…..” ، ہاتھوں سے اپنی خون آلود شرٹ کو آگے کرتا کسی ڈرے سہمے بچے کی طرح پوچھ رہا تھا ۔
” یہ خون میری جاثیہ کا ہے ……..ابھی…..ابھی  تو میں نے خواب دیکھنا شروع ہی نہیں کیا تھا ،میرا خواب دیکھنے سے پہلے ہی کیوں ٹوٹ گیا امی کیوں ؟ “،حاشر صاحب نے نم آنکھوں سے اپنے جوان بیٹے کو دیکھا جو بلکل کسی ننھے بچے کی طرح ڈرا سہما سا اپنے خوف کی روداد سنا رہا تھا ۔
“فلسطین کے  بچوں کے خواب نہیں ہوتے ارتضیٰ ،  اگر ہوتے ہیں تو بکھیر دیے جاتے ہیں ۔”، مریم نے ایک مرئ نقطے کو دیکھتے ہوئے کہا کیونکہ ارتضیٰ کی یہ حالت دیکھنے کی ہمت وہ کھو چکی تھیں ۔
” مجھے فخر ہے اپنی محبّت پر امی …..آپکے بیٹے کو اپنی محبت پر فخر ہے ۔”، آنسو صاف کرتا ایک عزم سے بولا کیونکہ اب وہ خود کو سنمبھال چکا ، دل کا غبار اپنی ماں کے سامنے اتار چکا تھا ۔ اب قلبِ ارتضیٰ ہر قسم کے بوجھ سے آزاد ہو چکا تھا ۔
                                                                                                          …✰✰✰…
باب نمبر : ٠٤
واپس ماں کی آغوش میں ہے ،
الحمد کہا اور رو دی ماں ۔
ماں کے اک شکر کے آنسو سے ،
صدیوں تک غم نہ ہونگے یہاں ۔

دل جن کے بڑے ہوں ہستی سے ،
یہ بیٹے ہیں ان ماؤں کے ۔
خود دھوپ گزار کہ چھوڑ گئے ،
یہ رستے سارے چھاؤں کے ۔

اک زرہ بھی اے پاک زمیں !
تیرا نہ اٹھانے ہم دیں گے ۔
یہ  ظلمت کے بادل  سن لے ،
خالی واپس مڑ جائیں گے ۔
                                                                                                               …✰✰✰…
ایک عجیب سی بے چینی کے تحت ،صبح نمازِ فجر کے بعد مریم ،ارتضیٰ کے کمرے میں چلی گئی ، دروازہ  کھولتے ہی ارتضیٰ کی  مخصوص کلون کی خوشبو مریم کے نتھوں سےٹکرائی  تو اس نے سانس کے ساتھ اس خوشبو کو اپنے اندر اتارا ، ایک سکون سا  مریم کے رگ و روپ میں اتر گیا ۔
(ارتضیٰ نےدو دن بعد  دروازہ کھول کر کمرے میں قدم رکھا جو اسے غزہ میں الاٹ کیا گیا تھا ۔)
 مریم نے  آگے بڑھ کر  اسکی وارڈروب کھولی اور  اسکے کپڑوں کو چھوا ، ان میں اپنے ارتضیٰ کو محسوس کیا۔
( وہ اب اپنے ہینڈ کیری سے کپڑے نکال کر تبدیل کر  رہا تھا ۔)
چلتی ہوئی وہ اب اس کے بیڈ پر آ گئی تھی . بیڈ پر ہاتھ پھیر کر مریم نے ارتضیٰ کے لمس کو محسوس کرنا چاہا جو آج بھی وہیں تھا ۔
(کپڑے تبدیل کرتے ارتضیٰ اب وہاں بچھے بستر پر لیٹ گیا جو اسکے بیڈ کی طرح آرام دہ تو نہ تھا مگر پر سکون تھا کیونکہ وہ اسکے الله نے اسکے لئے چنا تھا ۔)
بیڈ سے اٹھتی مریم اب کھڑکی  کے پردے ہٹا رہی تھی ۔ کھڑکی کے  کھلتے ہی ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا ۔
(ایک زور دار آواز کے ساتھ ہی ارتضیٰ کو کمرے کا چھٹ خود پر گرتا ہوا محسوس ہوا ۔)
اس تیز ہوا سے سائیڈ ٹیبل پر پڑی ارتضیٰ کی تصویر گر گئی ۔
(آنکھوں کے آگے اندھیرا   چھا چکا تھا ،منظر بدل چکا تھا، اب وہ اپنی ہنستی مسکراتی بہن کو دیکھ رہا تھا ، نیلم کی شرارت پر اسے ڈانٹتی مریم کو اور ان سب سے محظوظ ہوتے حاشر صاحب کو دیکھ رہا تھا ،کتنا مکمل منظر تھا جو  بند ہوتی  اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا ۔ ) 
مریم نے آگے بڑھ کر تصویر کو دیکھا جس کا فریم بُری طرح ٹوٹ چکا اور مریم کو لگا کسی نے اسکے دل کی چلتی دھڑکنوں کو روک دیا ہے ۔
( بند آنکھوں کے پیچھے بھوری  آنکھوں کا منظر لہرایا ، اسکے ہوا سے جھولتے گھنگھریالے بال ،گال میں امڈتا گھڑا اور اس منظر میں  ارتضیٰ نے خود کوآخری مرتبہ  کلمہ پڑھتے پایا۔)
ارتضیٰ کی صرف  تصویر ہی نہیں اسکی سانسوں کی ڈور ٹوٹ چکی تھی ،اور  مریم کی کچھ پل کی تھمی دھڑکنوں کے ساتھ ارتضیٰ کی دھڑکنیں ہمیشہ کے لئے تھم گئیں ۔
                                                                                                   …✰✰✰…
چھ سال بعد :
“فلسطین میرا کب ہوگا بھائی ؟” ، نو سالہ نیلم چہرے پر دنیا جہاں کی معصومیت سجائے اپنے بھائی سے سوال کر رہی تھی ۔
” جس دن  تمہاری آنکھ نے فلسطین کے نام کا اشک بہایا ؛ تو سمجھ جانا کہ تم اپنے دل کا ایک حصّہ فلسطین کے نام کر چکی ہو۔ “،  پیار سے نیلم کے سر پر ہاتھ رکھتے ارتضیٰ نے اسے بتایا ، اسے اچھا لگا تھا نیلم کا یہ سوال کرنا وہ اسے فلسطین سے جڑی اپنی محبت اور اس مقدس جگہ کی اہمیت بتا رہا تھا جس کی بدولت نیلم نے یہ سوال کیاتھا  ۔
(“فلسطین ہمارا ہے نیلم ، الاقصیٰ ہماری ہے ، یہ وہ زمین ہے جسے الله نے پاک قرار دیا ہے ، یہ وہ مبارک جگہ ہے جہاں آپ ﷺنے اپنے مبارک قدم رکھے …….وہاں ہمارا قبلہ اول ہے  نیلم ۔”)
اس نے غزہ کی سرزمین پر قدم رکھا تو ہوا کے جھونکے سے اس کے کندھے تک آتے سلکی بال لہرائے، اپنی براؤن  آنکھوں پر گلاسس  درست کرتے اس نے قدم آگے کی جانب بڑھا دیے ۔
   (ہماری رگوں میں دوڑتا خون اس پاک سر زمین کا ہے ….. اس خون سے بےوفائی نہ کرنا۔ ) 
وہ آگے بڑھی تو اسکا یونیفارم پر لگا سفید کوٹ لہرایا جس پر لگے نیم  بیج پر سنہری حروف میں “نیلم علی ” لکھا ہوا تھا ۔
                                       (خود مر جانا مگر …..اپنے ایمان کو نہ مرنے دینا !”)
“میں نے اپنے ایمان کو نہیں مرنے دیا بھائی …..آپکی نیلم نے اپنے ایمان کی حفاظت کی ہے ۔”
اسکے خون کی کشش اسے اس زمین تک کھینچ لائی تھی ۔
” هل أنت فلسطيني ؟” ( کیا آپ فلسطینی ہیں؟) وہ مریض کی پٹی کر رہی تھی جب   اسکے یونیفارم پر لگے فلسطینی جھنڈے کے ساتھ  پاکستانی  جھنڈے کے   بیج   کو دیکھ کر اس لڑکی نے پوچھا  ۔
مریض کی پٹی کرتے نیلم کے ہاتھ ایک پل کو  تھمے ۔
  ” قلبیی فلسطینیی “
(میرا دل فلسطینی ہے ۔) ، مسکرا کر کہتی  وہ پھر سے اپنے کام میں مشغول گئی  ۔
اس بات کا احساس  مجھے تب ہوا جب میری آنکھ نے پہلی مرتبہ فلسطین کے درد پر آنسو بہائے ۔
 جب میں نے ان دوستوں کو چھوڑا جو فلسطین کو چھوڑ چکی تھی ، جب میں نے جانا کہ میرا دل ،ان کی تکلیف پر آنسو بہاتا ہے  ، جب مجھے اپنے غم چھوٹے لگنے لگے ، جب میرے  دل سے نکلی دعاؤں میں ذکرِ فلسطین ہونے لگا  ۔
 اس بات کا احساس مجھے ہر اس لمحے ہوا جب میری آنکھوں نے  اسرائیل کی بنی اشیاء کو نفرت بھری نظروں سے دیکھا ۔
اس احساس نے مجھے یقین دلایا کہ میں چاہے پاکستانی ہوں مگر میرا دل ……میرا دل فلسطینی ہے ۔
                                                                                              
                                                                                          …✰تمت بلخیر✰…
                                                                                                                                                            






Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *