Complete Article

Khadija Noorulain

Article: Red sigh(Surkh Aah)

Writer:   Khadija Noorulain

Instagram: @khadijawrites4

status: complete

آرٹیکل

” سرخ آہ”

از قلم خدیجہ نورالعین

اک سرخ   سیال  ہے  رواں   جدھرسانس لینا بھی ہو جائے محال جدھراگلی سانس کی ضمانت نا  ملے جدھرمگر خود کو ذبیحہ سمجھنا ہے  فرض ادھرواقعہ ہونے والی سے قبل ہی جہاںہزاروں ٹکڑوں میں تقسیم  ہےہر شےحشرسے پہلےہےاک حشر کا  ساسماںآگ برساتا  آسماں،لہو چھلکاتی زمیںکیا رخ کرنا چاہو  گے تم کبھی ادھر؟وحشت زدہ کر دیتا ہے نا سوچنا بسوھن رچ بس گیا ہے رگوں میں ادھرمر رہے  ہیں سب،  مگر  تم  کو  کیا فکر!                                                               ــــــــ______________فلسطین کیا ہے؟۔۔۔ذرا ایک لمحے کو سوچئیے!یہاں صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ کے الفاظ لکھ رہی ہوں جب ان سے کسی نے ان کی حددرجہ سنجیدگی کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب میں کہا:” بیت المقدس!مسلمانوں کا قبلہ اول غیر کے قبضے میں ہے۔میں کس طرح مسکرا سکتا ہوں؟”اب خود سے سوال کیجئیے کہ آپ کے لئے فلسطین کیا ہے؟بلکہ سب سے پہلا سوال آپ خود کون ہیں؟جواب ملے تو مزید آگے پڑھیے وگرنہ  پہلے خود کو اک پہچان دیجئیے۔فلسطین مسلمانوں کا قبلہ اول ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔لیکن آج کے مسلمان کا قبلہ تو معذرت کے ساتھ خانہ کعبہ بھی نہیں رہا۔الفاظ سخت ہیں،تلخ ہیں یا نہیں مگر ایک حقیقت مجسم ہیں!آج کے مسلمان کا قبلہ زن،زر اور زمین بن چکا ہے۔وہ دنیا سے محبت کرتا ہے اور موت سے نفرت! جبکہ مجھے یہ سب دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔جی چاہتا ہے کہ ان کو جھنجھوڑ کر جگاؤں!کہ اٹھو بیداری کی آنکھ  سے دیکھو!یہ دنیا پلک جھپکنے میں فنا ہو جانے والی ہے۔تم فانی چیز کی محبت میں غرق ہو! یہ تمہیں اپنے ساتھ ہی غرق کر دے گی۔جبکہ موت جو اٹل حقیقت ہے وہ آ کر ہی رہنی ہے۔اس سے تم کنارہ کشی کرتے ہو! حالانکہ ایسا ممکن نہیں۔موت سے کس کو رستگاری ہےآج  وہ  کل  ہماری   باری   ہےاگر کوئی موت سے نہیں ڈر رہا اس وقت میں تو وقت کا بہت بڑا ولی ہے۔کیونکہ وہ اس دنیا کی حقیقت سے واقف ہے۔یہ تو چلو بعد کی باتیں ہیں،ابھی فی الوقت جو دنیا میں ہو رہا ہے اس پر نظر دوڑا لیں!کبھی سوچا ہے ہر طرف سرخ سیال پھیلا ہو تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔پل پل زمین کے ہلنے کا خدشہ ہو،آسمان سے آگ برسانےکوبےتاب ہتھیار ہوں۔جہاں اگلی سانس کی بھی مہلت نا ہو؟۔۔۔نہیں نا۔بلکہ تم سب کہو گے کہ کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟تو میرا جواب ہے ہاں!ایسا بھی ہوتا ہے۔اور بڑا کربناک ہوتا ہے۔پل پل مرتے،دم توڑتے لوگ۔خون میں نہائے،سفید مادے سے جھلسے جسم۔شیرخواروں کے دو حصوں میں بٹے ہوئے سر!جوانوں کے کٹے پھٹے جسم کے اعضاء!گر ایک نظر تم دیکھو تو زندگی سے نفرت کرو۔اپنی ہوس پرستی کی عادت پہ نادم و پشیمان ہو۔لیکن تم ایک نظر دیکھو تب نا۔تمہاری نظروں میں معتبر چمکتی دمکتی چیزوں کو بنا دیا گیا ہے۔تم دولت کے پیچھے بھاگتے ہو،موت سے خوف کھاتے ہو ۔کمال کرتے ہو۔موت تو برحق ہے۔حساب بھی برحق ہے۔لیکن تم سب کچھ بھلائے بیٹھے ہو۔اپنی اسلاف،میراث سب کچھ گنوائے بیٹھے ہو۔فلسطین عربوں کا مسئلہ نہیں ہے،فلسطین فوج کا مسئلہ ,نہیں ،فلسطین سو کالڈ مسلم حکمرانوں کا مسئلہ نہیں۔یہ تمام امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔کیوں کہ فلسطین میں مسلمانوں کا قبلہ اول موجود ہے ۔تو اس جگہ کو ہم یونہی گنوا دیں۔آج کا مسلمان بچہ کسی اداکار کی نقل کرے تو واہ واہ کا مستحق ٹھہرایا جاتا ہے۔لیکن اگر وہی بچہ اگر عمر بن خطاب رضی االلّٰہ عنہا یا صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللّٰہ علیہ کی نقل کرے تو اس کے ماتھے پر دقیانوس کاکتبہ کنندہ کر دیا جا تا ہے۔اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرنے والے،خود کو جنت کے حق دار سے زیادہ مالک سمجھنے والے کیا حقیقت میں جنت کے حقدار ہیں ؟کیا انہوں نے کبھی اس کے متعلق سوچا ہے کہ کل اس بڑے دن کس منہ سے ملیں گے اپنے رب کو۔اس کے مدد کی فریاد کرتے بندوں کو۔کیا جواب دیں گے ۔نہیں نا کیوں کہ آپ ان کی جگہ پہ موجود ہی نہیں۔آپ اپنے گھر میں پرسکون بیٹھے ہیں،آپ کی بلا سے آگ لگے دنیا میں آپ تو محفوظ ہیں!آپ کا خاندان محفوظ ہے،زندگی کی ہر آسائش آپ کے قدموں میں سر جھکائے ہوئے ہے۔لیکن کیا یہ آسائشات ہمیشہ رہ جا نے والی ہیں۔کیا یہ لافانی ہیں۔خود سے سوال کریں۔آخر کیا چیز آپ کو غفلت میں ڈالے ہوئے ہے۔آپ کا رب تو آپ کو نہیں بھولا لیکن آپ رب کو بھولے بیٹھے ہیں ۔آپ کو فکر ہے مال و دولت کی،آسائش و آرام کی لیکن سوچیں سب کچھ ہونے کے باجود اگر ایک لمحے میں فنا ہو جائے۔آپ کی بلند و بالا کھڑی کی گئی عمارت لمحوں میں نظروں کے سامنے زمین بوس ہو جائے۔پھر آپ کا کیا ردعمل ہو گا۔اس عمارت میں موجود لوگ ناحق قتل کر دئیے جائیں۔کوئی بچہ اپنی ماں کے مسخ شدہ لاشے سے لپٹا ہو،تو کوئی سرخ رنگ میں نہائی بچی سے اس کی ماں لپٹی ہو۔کوئی شیرخوار اپنے سر سمیت دو حصوں میں بٹا ہو!جل کر راکھ ہوا وجود ہو۔سرمئی و سرخ رنگ کا راج ہو؟ اور خود تمہارا وجود کئی ٹکڑوں میں بٹا ہو،تکلیف حد سے سوا ہو اور زبان سے ایک لفظ ادا نا ہو!کیسا لگے گا تمہیں پھر ؟اپنا لٹا ہوا مال و اسباب گھر بار دیکھ کر!جس کوکمانے میں سال سرف کئے مگر تباہ ہونے میں اک لمحہ نا لگا ۔سنہری سورج کی کرنیں سیاہ بادلوں میں دب جائیں،فضائیں جب زہر آلود ہو جائیں۔بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلے صبح و شام تم پہ برسائے جائیں۔نہیں سوچتے ہم سب۔قطعی طور پہ نہیں سوچتے ہیں ہم سب۔ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ہمارا مسلمان بھائی یا بہن مر رہا ہے یا جی رہا ہے۔ایک دس سالہ بچی سب کچھ چھن جانے کے بعد بھی راہ ڈھونڈ رہی ہے کہ میں اپنے لوگوں کی مدد کیسے کروں۔سامنے بوسیدہ و کھنڈر عمارتیں تمسخرانہ نظریں اس پہ جمائے ہوئے ہیں۔اور سرمئی ریت افسردہ۔جن کی پائیداری ہی نہیں ان چیزوں کی بنیاد پر انسان اترا رہا ہے۔روتے ہوئے،بلکتے ہوئے بوڑھے،بچے،عورتیں کیا ان کا یہ حق نہیں کہ وہ خوشحال زندگی گزاریں۔ایک شادی شدہ جوڑا کیا ان کا حق نہیں کے وہ پرسکون طریقے سے رہیں۔نوجوان لڑکے لڑکیاں کیا ان کا زندگی پہ کوئی حق نہیں؟سب کچھ بھلائے بیٹھے ہیں۔یہودی تو ہیں ہی عہد شکن!تو کیا ان عہد شکنوں کو تم لوگ سچا مان لو گے؟ان کی جھوٹی مکاریوں کو حقیقت سمجھ لو گے؟یہ سوال صرف میرا امت مسلمہ یا پاکستانیوں سے نہیں ہے بلکہ ہر اس انسان سے ہے جو خود کو انسان سمجھتا ہے۔جو کسی کو تکلیف میں دیکھ کر تکلیف محسوس کرتا ہے۔جس کا دل کسی کے مرنے پہ افسردہ ہوتا ہے۔کسی کو زخمی دیکھ کر مٹھی میں جکڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔اور کسی کی مسخ شدہ لاش دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے۔جانوروں کو بھی چوٹ لگے تو تم تڑپ اٹھتے ہو۔مگر فلسطین کیا وہ اس کرہ ارض کا حصہ نہیں ؟اس زمین کے ٹکڑے پر موجود رہنے والے انسان نہیں،اں کی رگوں میں دوڑتا خون کیا سرخ رنگت میں نہیں۔جواب پوچھو تو ہاں میں ہے۔مگر خود پہ غور کرو تمہاری رگوں میں دوڑتا خون کیا سفید نہیں ہو گیا؟کیا اس خون نے تمہیں ہوس کا پجاری نہیں بنا دیا۔اب بھی بہت سے لوگ کہہ رہے فوج کا کام ہے،حکمرانوں کا کام ہے ،وہ قصوروار ہیں اس سب کے؟تو اپنا محاسبہ کیا ہے کبھی آپ نے ؟آپ نے اس سلسلے میں کتنی کوششیں کی ہیں۔چند جملے بول دیئے،دو روز واویلا مچا لیا،ملک کو تباہ ہو جانے کی بددعا دے دی بس کام ختم!آپ کی زندگی ایک مرتبہ پھر اسی ڈگر پہ آ گئی۔بھئی اور کہا چاہیئے۔ٹرینڈز کو فالو کرنے والے مسلمان ہو!اپنی اسلاف کو بھولے ہوئے ہو تم لوگوں سے کیا کہنا۔غلام و محکوم ذہنوں کے مالک ہو!افسوس صد افسوس۔جہاں پہ حق کی خاطر آواز اٹھانی ہو وہاں پر خاموش بیٹھ جاتے ہو!ہر مسلمان پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فارمولا لاگو ہوتا ہے۔یہ صرف علماء اکرام،متقیوں اور زاہدوں کے لئے نہیں ہے۔بلکہ ہر مسلمان کے لئے ہے۔حکمران خاموش ہیں تو رہنے دو! اللہ نے تمہارے منہ میں زبان کس لئے دی ہے؟ بولنے کے لئے نا!اب بولنے کا وقت آگیا ہے۔اب جو لوگ کہتے ہیں کہ حماس کو ابتداء نہیں تھی کرنی چاہیئے تو ان کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی زبانوں پر قفل لگا لیں۔کیونکہ ان کا نا بولنا زیادہ بہتر ہے۔آخر کب تک تم سب مکی دور میں جیو گےَ؟ ہاں کب تک! آج اپنی تعداد دیکھو اور دشمن کی تعداد دیکھیں شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے ہم سب کے لئے!بدر میں تین سو تیرہ صحابہ اکرام تھے اور ان کا جذبہ لاکھوں کی تعداد پر حاوی تھا۔آج ہم کروڑوں کی تعداد میں ہو کر بھی خاموش ہیں۔وائے ہو ہم پر!ظلم کے خلاف خاموش رہنے والا بھی ظالم ہی ہوتا ہے۔اور اگر آپ لوگ یہ خیال ذہن میں رکھ کر فلسطینیوں کے لئے آواز اٹھائیں گے کہ کل کو  ہم پہ بھی یہ وقت آ سکتا ہے تو یہ سب سے  گھٹیا سوچ ہے۔کیونکہ آپ کسی کے حق میں آواز کچھ لو ،کچھ دو کہ تحت اٹھائیں گے۔یہ مت سوچیں کہ آپ پر مصیبت نہیں آئے گی!جو لوگ بھی ایمان لائے ہیں ان پر مصیبتیں روزاول سے آئی ہیں اور آتی رہیں گی،مگر پختہ ایمان والے کون ہیں؟ جو صبر سے کام لیتے ہیں۔صبر کی مثال دیکھنی ہو تو ایوب علیہ السلام کا صبر دیکھئیے،اولاد کی دوری کا دکھ کیا ہوتا ہے اس کے لئے یعقوب علیہ السلام کو دیکھئیے،راہ حق پر چلنا انگاروں پر چلنے کہ مترادف ہے!اس کے لئے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھئیے،دین کی سر بلندی جنہیں عزیز ہو سر کٹا کر بھی اس کے لئے حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کو دیکھئیے۔اور دور حاضر میں اس سب کی مثال دیکھنی ہو تو مقبوضہ فلسطین کو دیکھئے۔ہر ہر واقعہ کا عکس دکھائی دے گا آپ کو غزہ کی سرزمیں پر۔اور وہاں پر موجود کون ہیں؟ آپ کے مسلمان بہن بھائی!اور مسلمان تو جسد واحد کی مانند ہے پھر آپ سب ان کی تکلیف پر خاموش کیسے بیٹھ سکتے ہیں؟کیا آپ کا ضمیر آپ کو ملامت نہیں کرتا؟کیا دل میں کبھی تکلیف محسوس نہیں کرتے آپ ان سب لوگوں کو دیکھ کر؟جو سر سے پاؤں تک لہو میں ڈوبے ہوئے ہیں۔جن کو بنا گنے ذبح کیا جا رہا ہے! ان کا خون بےدریغ بہایا جا رہا ہے۔اور آپ آنکھ منہ کان لپیٹے بیٹھے ہوئے ہیں۔یہ وقت ہے کچھ کرنے کا۔اپنی آواز کو اٹھانے کا۔خاموش رہ کر گنہگار نا ہوں۔خاموش نہ رہیں۔






Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *