Rooh e falasteen to azaad hai




Complete Article

 Zainab Qadeer

Article: Rooh e falasteen to azaad hai

Writer:    Zainab Qadeer

Instagram: @zaynabqadeer_

status: complete

آرٹیکل

“روحِ فلسطین تو آزاد ہے۔”

از قلم زینب قدیر

کہا میں نے اس سے یہ
کہ رہتا ہوں میں شارع فلسطین پر
وہ بولا شارع تو موجود ہے پر فلسطین کہاں ہے
اغیار نے اس پہ ایسا قبضہ جمایا کہ
کہ اسکا نام و نشان تک مٹا کہ چھوڑا
اس پر کہا یہ میں نے
فلسطین تو بستا ہے دل میں ہمارے
اگر اس پہ اغیار قبضہ جمائیں تو جانوں
روح فلسطین تو آزاد ہے
فلسطین کو دل میں بسانا 
صرف اتنا تو کافی نہیں ہے
محترم زندگی زندگی ہے شاعری نہیں 
اس پہ یہ میں نے کہا
تو سچ ہی تو کہتا ہے صرف اتنا ہی تو کافی نہیں 
پر فلسطین کو دل میں بسانا 
ضروری ہے کتنا
جو فرصت ملے کبھی تو سوچنا 
                                                   از قلم اوصاف احمد

اس وقت وہ لوگ اپنی یونیورسٹی کی لائبریری میں بیٹھے کتابوں میں غرق تھے جب قریب میں بیٹھی آئمہ کے فون سے کچھ آوازیں انہیں سنائی دیں۔ بم دھماکے کی آوازیں ، بچوں کے رونے کی آوازیں ، نیوز رپورٹر کی آواز، روتی تڑپتی ماؤں کی آوازیں، دہائیاں دیتے باپ کی آواز سب آپس میں گڈ مڈ ہو رہا تھا۔ 
عندلیب جو اس آئمہ کے بالکل ساتھ بیٹھی ہوئی تھی وہ ان آوازوں کو چاہ کر بھی نظر انداز نہیں کر سکی تھی۔ آنکھوں میں یک دم ہی نمی آن ٹھہری تھی۔
“آئمہ ! کین یو پلیز سلو ڈاؤن دا والیم؟”  اپنے حواسوں پر قابو پاتی وہ بمشکل بول پائی تھی۔ 
“کیوں؟ نہیں سنا جا رہا؟ ابھی تو تم نے وہ سب دیکھا ہی نہیں جو میں دیکھ رہی ہوں۔ ہاؤ فنی نا ہم کہتے ہیں ہم سے یہ سب نہیں دیکھا جاتا ، کیا وہ لوگ انسان نہیں ہیں جو اس وقت یہ سب کچھ فیس کر رہے ہیں؟ “
“ایسی بات نہیں ہے میں بس ڈسٹرب ہو رہی ہوں” آواز اب کہ تھوڑی بہتر تھی۔
“ہممم آئی سی! پتہ ہے ابھی میں دیکھ رہی تھی ایک باپ اپنے بچوں کے ٹکڑے پلاسٹک بیگز میں لے کہ جا رہا تھا” 
عندلیب نے آنکھوں میں شاک لیے اسے دیکھا۔ وہ یہ سب کچھ دیکھ چکی تھی لیکن اسے سمجھ نہیں آیا آئمہ یہ سب اسے کیوں بتا رہی ہے۔ 
“میں۔۔۔ میں دیکھ چکی ہوں۔ لیکن ہم کیا ہی کر سکتے ہیں ان سب کیلئے ” 
“اگر ہم چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں ، سب سے پہلے دعا ، پھر سوشل میڈیا پہ اوئیرنیس دے سکتے ہیں لوگوں کو ، اسرائیلی پراڈکٹس کا بایئکاٹ کر سکتے ہیں ” آئمہ اب کہ ایک جوش کے ساتھ بول رہی تھی۔ جب سے اسرائیل کا فلسطین پر یہ مظالم کا سلسلہ شروع ہوا تھا تب سے آئمہ اپنے سوشل میڈیا پہ کافی ایکٹو تھی۔وہ بس آج کل لوگوں میں یہی بات پھیلانے کی کوشش کر رہی تھی کہ فلسطین کے لوگوں کو صرف ہماری دعاؤں کی ہی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اپنے دشمن، اسلام کے دشمن کو تباہ کرنا ہے اور یہ تب ممکن ہے اگر ہم اسرائیل اور اس کے جتنے بھی ساتھی ہیں ان کا بائیکاٹ کریں۔ ہر وہ انسان جو اس وقت مظلوم کی بجائے ظالم کا ساتھ دے رہا ہے ہمیں اسکا بائیکاٹ کرنا ہے۔ ویسٹ کا خیال ہے کہ کر انسان کو آزادی رائے کا حق ہے لیکن یہ حق شاید مسلمانوں کو حاصل نہیں ہے۔ اسے کہتے ہیں منافقت۔۔۔
“یہ وہ دور ہے جب ہر جگہ اسرائیلی پراڈکٹس ہی استعمال ہوتے ہیں۔ اگر انکا بائیکاٹ کر دینگے تو ہم کیا کریں گے ؟” عندلیب کچھ الجھی ہوئی سی بولی تھی۔ 
“رئیلی ؟ مارکٹ میں جا کہ دیکھو بہت سی چیزیں تمہیں مل جائیں گی جن پر اسرائیل اور اسکے ابو امریکا کا کوئی ٹیگ نہیں ہوگا۔ ویسے میں نے دیکھا ہے تم میک ڈونلڈز بہت کھاتی ہو، تمہیں سب سے پہلے تو اسے چھوڑنا چاہیے کیونکہ وہ اسرائیل کی مدد کر رہا ہے مزید میزائل خریدنے میں اور پتہ ہے یہ میزائل استعمال ہوتے ہیں ہمارے بہن بھائیوں کو مارنے کیلئے ” آئمہ کے لہجے میں یک دم کچھ بدلا تھا کہ عندلیب سمیت مریم اور بلال نے بھی ٹھٹک کے اسے دیکھا تھا۔ وہ کچھ اور بھی کہہ رہی تھی۔ 
“جانتی ہو اسکا کیا مطلب ہوا ؟ تم بھی فلسطینیوں کے خون کی ذمہ دار ہو! اگر تمام مسلمان مل کہ ان کا بائیکاٹ کریں تو دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ زیادہ نہیں تو ہم اتنا تو کر سکتے ہیں نا اپنے مسلمان بہن بھائیوں اور ان معصوم بچوں کیلئے ؟”
“بلال تم ہر وقت کوک پی رہے ہوتے ہو۔ تم جانتے ہو وہ اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ اسکا مطلب تم بھی ذمہ دار ہو۔ مریم تم کائیلی جینر کے میک اپ پراڈکٹس یوز کرتی ہو جبکہ وہ اسرائیل کو سپورٹ کر رہی ہے۔ تم بھی فلسطینیوں کے خون کی زمہ دار ہو۔ میں خود یہ تینوں کام کرتی تھی لیکن اب نہیں کرتی جب سے مجھے پتہ چلا ہے کہ ان سب کے خون میں کہیں نہ کہیں میرا بھی حصہ ہوتا تھا” آخری الفاظ ادا کرتے ہوئے لہجے میں نمی گھل گئی تھی۔ اس وقت وہاں موجود چاروں نفوس کی آنکھوں میں ایک حزن تھا، ایک تکلیف تھی، شاید کہیں نہ کہیں گلٹ بھی تھا لیکن دل ہی دل میں وہ سب عہد کر چکے تھے کہ آئیندہ وہ لوگ ایسی کوئی بھی چیز استعمال نہیں کریں گے جو استعمال کرنے سے وہ  اپنی ہی نظروں میں گر جائیں۔ بےشک ملک مختلف ہیں لیکن ہم سب ہیں تو ایک ہی، ہم سب ہیں تو مسلمان نا۔ کوئی بھی انسان جس میں ذرا سی بھی انسانیت ہوگی وہ کبھی بھی اسرائیل تو کیا ایسے انسان کو بھی پسند نہیں کریگا جو اسرائیل کو سپورٹ کرے گا۔ چاروں بغیر کچھ کہے اپنی اپنی نشست چھوڑ کہ جا چکے تھے ، دل میں ڈھیر ساری ملامت اور تکلیف لیے۔ 
اگلے دن کا منظر بہت مختلف تھا۔ بلال اپنے دوستوں کے ساتھ تھا لیکن معمول کی طرح اس کے ہاتھ میں کوک نہیں تھی۔ عندلیب جس کا دن میک ڈونلڈز کھائے بغیر نہیں گزرتا تھا وہ آج سارا دن ُاسے نہیں کھا سکی تھی۔ مریم آج بغیر میک اپ کے آئی تھی اور مریم کو دیکھ کہ آئمہ دل سے مسکرائی تھی۔  
“میں نے کائیلی کے سارے کاسمیٹک مصنوعات پھینک دیے ہیں” وہ آئمہ کو بتا رہی تھی۔۔۔۔
“میں نے آج سارا دن کوک یا پیپسی نہیں پی” بلال بول رہا تھا۔ 
“میں نے میک ڈونلڈز سمیت کے ایف سی کا بھی بائیکاٹ کر دیا ہے کیونکہ وہ بھی اسرائیل کو سپورٹ کر رہے تھے۔ میں نے رات کو بہت ریسرچ کی ہے اور وہ تمام پراڈکٹس جو ہم نے بائیکاٹ کیے ہیں انکے متبادل ڈھونڈ لیے ہیں اور ایک مکمل لسٹ بنائی ہے۔ ہمیں اسے پوری یونیورسٹی میں شئر کرنا ہے ، اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹس پہ شئر کرنا ہے تاکہ لوگوں کو مشکل نہ ہو۔ ہم کبھی بھی اس ظلم میں فلسطین کا ساتھ نہیں دیں گے ” عندلیب کے لہجے میں ایک جذبہ تھا اور آنکھوں میں ایک پر سکون سا تاثر تھا۔ 
آئمہ ان سب کو دیکھ کہ دل سے مسکرائی تھی۔ ایک سکون سا روح میں سرایت کر گیا تھا کہ ہم آج بھی ایک ُامہ ہیں۔ آج بھی اگر کسی ایک مسلمان کا ناحق خون بہایا جاتا ہے تو اسکی تکلیف پوری امت کو محسوس ہوتی ہے اور انشاء اللہ یہ امت مل کے اپنے فلسطینی بہن بھائیوں اور بچوں کیلئے کوشش کرے گی، آواز اٹھائے گی، کیونکہ ہمیں آخرت میں اللّٰہ کو منہ دکھانا ہے۔ 
“میری دعا ہے کہ مسلم امت کے حکمران بھی یہ بات سمجھ جائیں اور اپنی آواز ان کیلئے اٹھائیں، صرف آواز ہی نہیں بلکہ ٹھیک ویسے مدد کریں جیسے اس وقت گھٹیا امریکہ اسرائیل کا باپ بن کر اس کی مدد کر رہا ہے” آئمہ ایک دکھ سے بولی تھی لیکن لوگ اگر خود بھی کوشش کریں تو سب ممکن ہے اگر ضرورت ہے تو صرف اتحاد کی۔  
“اللّٰہ حماس کا حامی و ناصر ہو اور انہیں اس جنگ میں فتح نصیب کرے۔ اللّٰہ ہمارے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی حفاظت فرمائے اور ہمارے دشمن اسرائیل کو نیست و نابود کر دے۔ آمین!” تینوں بیک وقت بولے تھے اور کلاس لینے کی تیاری کرنے لگے۔






One Comment

  1. If is very good and motivating. It would have been very good if everyone was like that, but yes we should be thankful for the awareness we tried to spread. Alhamdullilah! It is so we’ll written I am hopeful if someone read that, they will boycott the Israeli products…

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *