Complete Afsana
Rumaisa Shakeel Ahmed
Afsana: Tere ashk bare be mayini hain
Writer: Rumaisa Shakeel Ahmed
status: complete
Instagram: @rumi_books2006
افسانہ
“تیرے اشک بڑے بےمعنی ہیں”
رومیصہ شکیل احمد
رات کا دوسرا پہر تھا تیز ہواؤں کی وجہ سے درختوں پر پتے جھول رہے تھے ایک گلہری سکون سے کسی شے کو اپنے دانتوں کی مدد سے کھلنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی آخر کار وہ کامیاب ہوگئی تھی وہ شے آخروٹ تھی اور وہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا ،
ٹھیک اس درخت کے ساتھ کسی گھر کا گارڈن لگتا تھا ہم اس گارڈن سے اندر کو آتے ہیں تو ایک عورت اپنے دو بچوں کو گود میں لیے بیٹھی ہوئی تھی بچے غالبًا سو چکے تھے انکی عمر لگھ بگھ نو ماہ کی لگتی تھی دونوں بچے دودھیا رنگت کے حامل تھے دونوں نے ایک جیسا لباس پہنا ہوا تھا عورت جسکا نام رافعہ تھا کسی کو آہستہ سے پکارتی رہی تھی،
“ نرمین!!”
“ تیرہ سالہ نرمین دوڑتے ہوئے آتی ہے،
“یہ بھائی کو لو”
رافعہ ایک بچے کو نرمین کے ہاتھ میں دیتی ہے اور دوسرے کو سنبھالتے ہوئے آہستہ سے اٹھتی ہے،
“کمرے میں چلو”
نرمین بڑے پیار اور اپنائیت سے بچے کو تھامے آگے بڑھ رہی تھی اس کے چہرے پر دنیا بھر کی محبت اُمڈ آئی تھی ،کمرے میں آتے ہی اَس نے اسے بستر پر لٹا دیاتھا اور ساتھ رافعہ بھی دوسرے بچے کو لٹا رہی تھی، رافعہ اور نرمین دونوں بچوں کے ساتھ ہی بیٹھ گئیں تھی نرمین بچوں کو غور سے دیکھ رہی تھی وہ انھیں دیکھتے دیکھتے ہی اپنی ماں سے گویا ہوئی تھی،
“اماں یہ واقعی اتنے پیارے ہیں یا یہ صرف مجھے پیارے لگ رہے ہیں؟”
نرمین کے سوال پر رافعہ نے مسکرا کر جواب دیا،
“پتہ نہیں کیونکہ یہ مجھے بھی اتنے ہی پیارے لگتے ہیں جتنے تمھیں!”
دونوں نے مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھا اس کمرے میں ایک کھڑکی تھی جس سے سیدھی روشنی دونوں بچوں کے چہروں پر پڑ رہی تھیں۔اس کھڑکی سے ہم صاف اس گلہری کو دیکھ سکتے ہیں جو تھوڑی دیر پہلے ہی ایک آخروٹ سے جنگ لڑرہی تھی اور اب وہ گلہری ایک اور آخروٹ اپنے چھوٹے چھوٹے دونوں ہاتھوں سے پکڑے دانتوں کی مدد سے علیحدہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور وہ اس بار بھی کامیاب ہوگئی تھی پر وہ اور اس کھڑکی سے اندر آنے والی روشنی میں دیکھنے والے چہرے اور ان کے پاس بیٹھے دو نفوس اس بات سے انجان تھے کے اگلے لمحے کیا ہونے کو تھا، گلہری اُس آخروٹ کو منہ کے قریب کیے اب کھانے کو ہی تھی،
رافعہ کو بیڈ کے نیچے فیڈر گرا ہوا دِکھتا تھا وہ اسے اُٹھانے کو نیچے بیٹھی تھی کے ایک زور دار دھماکے کی آواز ان سب کی سماعت سے ٹکرائی تھی پھر ایک کے بعد ایک دھماکا سنائی دیا تھا ہر طرف سے دلخراش آوازیں آرہیں تھی وہ سب جو کچھ لمحے پہلے بہت خوشگوار تھا اب بارود کی بدبو کی نظر ہوگیا تھا!،
رافعہ کی پیٹھ پر کچھ بھاری سا گرا ہوا تھا وہ اس ملبے سے بہت مشکل سے نکلتی ہیں اور اپنےتینوں بچوں کو ٹٹولنے لگی تھی دونوں بچے شدید طرح ملبے میں دبے ہوئے تھے انکے اوپر سے وہ جلدی جلدی ملبا ہٹانے لگی تھی ، انکے وجود پر کوئی نم سی چیز اسکے ہاتھوں کو چھوئی تھی جب اس نے اپنا ہاتھ انکھوں کے سامنے کیا تو اسکے ہاتھ پر خون تھا،وہ دیوانوں کی طرح رونے لگی تھی اپنے بچوں کو سینے سے لگائے وہ بلکل پاگل جیسی ہوتی جارہی تھی کہ پھر کسی خیال کے تحت وہ ہڑبڑا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی تھی وہ اسے پکارنے لگی تھی،
“نرمین!!! نرمین میرا بچہ کہاں ہو” وہ حلق کے بل چلائی تھی،
نرمین کا وجود بیڈ کے دوسری سائیڈ بے سود سا پڑا ہوا تھا،
وہ بھی جاچکی تھی،
کھڑکی کے اس پار جو گلہری درخت پر بیٹھی آخروٹ کھانے کو تھی وہ اب زمین پر پڑی ہوئی تھی اس کے بے جان وجود سے تھوڑی دور پر آخروٹ کے ٹکرا پڑا ہوا تھا۔
رافعہ کی چیخ بلند ہوتے ہوتے ٹوٹ گئی اس کا گلا بند ہوگیا تھا وہ بے آواز رو رہی تھی اس سے اسکا ہر رشتہ چھن گیا تھا وہ جس بچی کو اپنے گلے سے لگائے ہر جنگ میں بچاتی پھرتی تھی آج اس سے وہ بھی چھن گئی تھی نرمین جو اس کی بیٹی نہیں تھی پر اس کی بیٹی سے بڑھ کر تھی جان سے عزیز کیونکہ دس سال پہلی اسنے نرمین کو ایسے ہی ایک ملبے سے نکالا تھا اور وہ جو پچھلے دس سال سے بچتی بچاتی آرہی تھی آج نہ بچ پائی تھی۔۔۔
رافعہ کے آنسو بہہ رہے تھے وہ ہر دو سال تین سال بعد ایسے ہی بہا کرتے تھے اور سچ تو یہ تھا کہ اب یہ بے معانی ہوگئے تھے کیا پتہ اگلے سال وہ خود بھی نہ رہتی شاید۔
ختم شدہ