Complete Afsana
Fatima Rasool
Article: Tum se Mera Khuda Puchega
Writer: Fatima Rasool
Instagram: @fatimarasool_5828
status: complete
افسانہ
“تم سے میرا خدا پوچھے گا۔”
فاطمہ رسول
ہوا میں سیاہ دھواں تحلیل ہوتا جا رہا تھا، اس دھوئیں سے ڈرتی سیاہ آنکھیں آنسوؤں سے تر ہونے لگیں۔”میری گڑیا ڈر رہی ہے؟” نرم آواز سماعتوں سے ٹکرائی تو لڑکی نے سر اٹھا کر دیکھا۔آنسو ضبط کی باڑ توڑ کر بہنے لگے۔سیاہ آنکھوں والا مرد گھٹنوں کے بل جھکا۔”میں نے اپنی گڑیا کو ڈرنا تو نہیں سکھایا نا؟ یہ تو آزمائش ہے۔۔” وہ نو سالہ بچی کو مسکرا کر سمجھانے لگے۔”بابا، امی اور موسی کہاں گئے؟” اس نے نم آنکھوں سے پوچھا تو باپ کا دل دکھا۔”اللہ کے پاس، وہ ان خوبصورت باغات میں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔۔” یہ کہتے ہوئے اس مرد نے بچی کو اپنی گود میں اٹھا لیا۔”باغ تو یہاں بھی تھے، بابا۔۔ دیکھیں اب تو صرف کھنڈرات ہیں۔۔ ان لوگوں نے اس جگہ کو خراب کر دیا، بابا۔۔” وہ باپ کے کندھے پر سر ٹکائے، ایک بار پھر رو دی۔”یہ لوگ اچھے مہمان نہیں تھے، بیٹے۔۔ مگر اللہ بہت اچھا میزبان ہے۔” انہوں نے اس کے بال سہلائے۔”بابا، اللہ اچھا ہے تو ان برے لوگوں کو کیوں بھیجا یہاں پہ؟”” تاکہ جب آخر پہ یہ برے لوگ ان باغوں کا مطالبہ کریں تو اللہ انہیں یاد دلائیں کہ یہ ان باغات کے قابل نہیں ہیں۔۔ دنیا تو ختم ہو جائے گی، گڑیا۔۔ آخرت رہے گی اور تب دیکھنا میرا خدا ان سے پوچھے گا۔۔” وہ اچانک کھوئے ہوئے انداز میں بولے، اور اپنی بیٹی کو متاعِ کل کی طرح اٹھا کر آگے بڑھنے لگے۔”بابا، ہم مسلمان ہیں نا۔۔ تو ہمارے باقی مسلم بہن بھائی ہماری مدد کیوں نہیں کرتے؟”” خاموش گواہوں کا بھی حساب ہوتا ہے، بیٹے۔۔ جو ظلم کے خلاف نہیں بولتا اس سے بھی اللہ پوچھے گا۔ ہم یہ ظلم بھول بھی جائیں تب بھی اللہ نہیں بھولے گا۔۔” وہ اس کے بال سہلاتے رہے۔۔ ہاں، امیدیں تو ان کی بھی ٹوٹی تھیں۔” بابا، آپ تو مجھے چھوڑ کر نہیں جائیں گے ناں؟” اب اس نے ان کے سینے پہ سر رکھا ہوا تھا۔”میں اپنی گڑیا کو کیوں چھوڑوں گا؟ لیکن بیٹا، سب فانی ہے، اگر میں کبھی تمہارے پاس نہ رہوں، تو انتظار کرنا اس وقت کا جب ہم ملیں گے۔۔ تب یاد رکھنا کہ تمہارے پاس اللہ ہے، اللہ کبھی نہیں چھوڑتا۔۔””ہم کہاں ملیں گے، بابا؟” اس نے سر اٹھایا، آنسو پھر آنکھوں میں جمع ہونے لگے تھے۔اسے اس کے علاوہ کوئی بات سنائی ہی نہیں دی تھی، شاید۔”انشاءاللہ انہیں باغات میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔۔ جہاں ڈھیر سارا کھانا ہے۔۔ جہاں کوئی کسی سے نہیں بچھڑے گا۔۔” ان کی آواز رندھ گئی۔”بابا، ہم کہاں جا رہے ہیں؟ ہمارا گھر تو ٹوٹ گیا تھا نا؟” بچے اور ان کے معصوم سوال۔” جی میری جان، پر خدا کی زمین تو بہت وسیع ہے نا۔ ہمیں کہیں نہ کہیں جگہ مل ہی جائے گی۔”” بابا، ہم اسی ہسپتال میں امی کو لائے تھے نا؟” وہ سامنے والے ہسپتال کی طرف اشارہ کر کے بولی تھی۔۔”جی۔۔””بابا، یہ لوگ۔۔۔” اس کی بات مکمل نہیں ہو پائی۔ٹھاہ!خاموشی کو توڑتی آواز، اور تاریکی کو چیڑتی تیز روشنی۔اندھیرا، ابدی اندھیرا۔تکلیف؟ نہیں تو۔۔ اللہ اپنے مہمانوں کو تکلیف نہیں دیتا۔کچھ دیر بعد اس نے بوجھل ہوتی پلکوں کو اٹھایا۔”با۔۔بابا۔۔” اسے بولتے ہوئے تکلیف کا سامنا ہوا۔آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔وہ اپنے ہی خون میں بھیگتی جا رہی تھی۔اور پھر سے اندھیرا چھا گیا۔اگلی بار وہ ہوش کی دنیا میں آئی تو اس نے اپنے سامنے ایک ڈاکٹر کو پایا۔”میرے بابا؟” وہ سوال کر رہی تھی جب کہ جواب تو وہ خود بھی جانتی تھی۔ڈاکٹر نے کچھ نہیں کہا، ایک عورت آئی تھی جو اسے بہلانے کی کوشش کرنے لگی۔”بابا نے کہا تھا وہ مجھے چھور کر نہیں جائیں گے۔۔” آنسو بہتے گئے۔” میرے بابا کہاں ہیں؟” وہ مسلسل ایک ہی سوال دہرا رہی تھی۔”بیٹے وہ۔۔ آپ کے بابا۔۔ ہمیں نہیں ملے۔۔”وہ اچانک پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔”مجھے پتا ہے وہ کہاں ہیں۔۔ وہ بھی اللہ کے پاس چلے گئے ہیں۔۔ میرے بابا اللہ کے پاس گئے ہیں۔۔ دیکھنا اب یہ لوگ نہیں بچیں گے۔۔ میرے بابا اللہ کو ان لوگوں کا بتائیں گے۔۔ ان کی شکایت کریں گے۔۔ پھر انہیں باغات میں جگہ نہیں ملے گی۔۔” اس عورت نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔” اللہ ان لوگوں سے پوچھیں گے۔۔ دیکھنا! میرے اللہ ان لوگوں سے پوچھیں گے۔۔” وہ روتے روتے نیم بےہوش ہو گئی۔لیکن اس حالت میں بھی وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی۔” میرے اللہ نہیں بھولتے، وہ ان لوگوں سے پوچھیں گے۔۔”●●●●●