Complete Afsana

Warda Batool

palestine

Afsana: Zindagi

Writer:   Warda Batool

status: complete

Instagram: @s.h.i.n.i.n.g.s.t.a.r.2.1

افسانہ

“زندگی”
از قلم وردہ بتول



یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ دنیا کے ایک ملک پاکستان کے پنجاب نامی صوبہ کے شہر لاہور کے کسی بازار سے نکلتی گلی کے کسی گھر کا منظر تھا جس کے ایک کمرے میں دو لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ فاطمہ اشرف اور عالیہ اشرف۔ غالباً دونوں بہنیں تھیں۔ اچانک دروازہ کھلا اور اُن کے بابا اندر داخل ہوتے نظر آئے۔ 
“بابا آگئے ہیں عالیہ فون کو چھوڑ دو۔” فاطمہ نے اپنی چھوٹی بہن سے کہا اور ساتھ ہی بابا کو سلام کر کے کھانا لگانے لگی کیونکہ اُن کے بابا سارے دِن کے بعد تھکے ہوئے گھر آئے تھے۔
“عالیہ بیٹا اُٹھ کر ٹی وی لگاؤ۔” اُس کے باپ نے کہا تو وہ اٹھی ورنہ وہ کسی کام کے لیے نہیں اٹھتی تھی۔ جب اُن کی ماں زندہ تھی تو تو وہ پھر بھی کچھ کام کر لیتی تھی لیکن جب وہ ایک دہشت گرد حملے میں ماری گئیں اور سارا گھر فاطمہ نے سنبھال لیا تو اُس نے سارے کام کرنا چھوڑ دیے۔ اب وہ صرف فون میں گم پائی جاتی تھی۔ صبح کالج جاتی، دوپہر کو واپس آتی اور پھر دوپہر سے لے کر رات تک اُس کے ہاتھ میں فون ہی رہتا۔ فاطمہ جس نے ماں کے مرنے کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی اب سارا گھر سنبھالتی تھی۔ اشرف صاحب کی بازار میں کپڑے کی معمولی سے دکان تھی۔ سارا دن کے تھکے ہوئے گھر آتے اور پھر اپنی بیٹیوں کو دیکھ کر اُن کی ساری تھکن دور ہو جاتی۔
“بابا کھانا کھا لیں۔” فاطمہ نے مسکرا کر اپنے خبریں سنتے ہوئے باپ سے کہا۔
“اللہ ان اسرائیلیوں کو پوچھے!” فاطمہ نے خبر سنتے ہوئے کہا جب کہ عالیہ نے خبریں لگتے ہی اپنے کان بند کر لیے تھے کیونکہ اُسے فلسطین کی خبریں سننے میں بلکل دلچسپی نہ تھی۔
“بیٹا وہ دن جلد ہی آئے گا جب اسرائیل کا خاتمہ ہو جائے گا اور فلسطین آزاد ہو گا۔” اُس کے باپ نے اُسے تسلّی دینے کے لیے کہا۔
“انشاء اللہ بابا۔” فاطمہ نے ٹی وی پر آتے نہتے فلسطینیوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ 
کھانا کھانے کے بعد اُس کے بابا اور عالیہ سونے چلے گئے جب کہ وہ فون کھول کر فلسطینیوں کے بارے میں اپڈیٹس لینے لگی اور پھر سب گروپس میں ایک میسج کیا۔
“براہِ مہربانی فلسطینیوں کہ لیے ایک مرتبہ آیت کریمہ پڑھیں ”لا إِلٰهَ إِلاَّ أنتَ سُبحانَک إني کنتُ مِنَ الظَّالمِین“۔ ہم اپنے میں ہوتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم یہ تو کر سکتے ہیں اور دعا سے بڑھ کر کچھ نہیں۔” اُس نے میسج سب گروپس میں فارورڈ کر دیا اور پھر خود بھی آیت کریمہ پڑھتے پڑھتے سوگئی۔
—***—
اگلے دن عالیہ کالج سے گھر آئی تو اُس نے اُسے بھی آیت کریمہ والا میسج اپنے سب گروپس میں فوروارڈ کرنے کا کہا لیکن اُس نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ “مجھے کیا اسرائیل فلسطین کے ساتھ جو بھی کرے۔ میں نے اُسے تھوڑی کہا ہے ۔” اور اس نے یہ بات پہلی دفع نہیں کی تھی۔ وہ ہر دفعہ یہی کہتی جب فاطمہ اُسے فلسطین کے بارے میں کچھ کرنے کو کہتی تھی۔ اُس نے اپنا دھیان ہٹانے کے لیے انسٹاگرام کھول لیا لیکن وہاں پر بھی یہی کچھ تھا۔ وہ سو سے زیادہ لوگوں کو فالو کر رہی تھی اور اُس نے کبھی بھی سب کی سٹوریز نہیں دیکھی تھیں۔ کبھی کسی کی دیکھ لیتی تو کبھی کسی کی۔ اُس نے کچھ لوگوں کی سٹوریز دیکھی تو وہ فلسطین کے حق میں تھیں۔اُس نے آج پہلی بار سب کی سٹوریز دیکھ  ڈالی لیکن اُسے سب کی سٹوریز پر بس فلسطین کے حق میں ہی مواد ملا۔ اُس نے تنگ آ کر انسٹاگرام ہی بند کر دی ۔
“فلسطین نہ ہو گیا کیا ہو گیا سارے ہی اُسے لے کر بیٹھ گئے ہیں۔” عالیہ بڑبڑائی لیکن بڑبڑاہٹ اتنی  اونچی تھی کہ فاطمہ نے با آسانی سن لی۔ فاطمہ نے ایک نظر اُسے دیکھا اور بولنا شروع ہوئی۔
“فلسطین۔۔” اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، عالیہ نے کہا۔
“پلیز فاطمہ۔ میں تھک گئی ہوں فلسطین پر لیکچر سنتے سنتے۔ پہلے کالج میں برداشت کرو پھر گھر آ کر موڈ اچھا کرنے کے لیے انسٹاگرام کھولو اور وہاں پر بھی یہی کچھ پاؤ۔بس تم سے لیکچر لینے کی کمی رہ گئی ہے۔” عالیہ غصّے سے کہتی وہاں سے چلی گئی۔
کمرے میں آ کر اُس نے پھر سے انسٹاگرام کھولا، میسجز دیکھے تو کسی کا میسج آیا ہوا تھا کہ “آپ فلسطین کے بارے میں سٹوریز کیوں نہیں لگاتیں؟” اس نے غصّے سے اکاؤنٹ بلاک کر دیا۔
—***—
فاطمہ کمرے میں بیٹھی فلسطین کے بارے میں ہی پڑھ رہی تھی کہ اچانک اُس کی نظروں سے یہ خبر  گزری “بچوں کے سامنے اُن کی ماں کو بیدردی سے قتل کر دیا گیا۔”
بہت سے منظر آنکھوں کے سامنے آ گئے۔ بہت سی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ بہت سی یادیں ٹوٹ کر بکھر گئیں۔
آج اُس کے fsc کا رزلٹ تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔ اس نے پورے لاہور بورڈ میں ٹاپ کیا تھا۔ یہ اُس کی زندگی کا سب سے بڑا دن تھا ۔ اُس کے کالج میں تقریب منعقد کی گئی تھی۔ اُسے گولڈ میڈل سے نوازا گیا تھا۔
وہ کالج  سے باہر رکشے کی تلاش میں نکلے تھے۔ کیوں کہ وہ عام گھرانوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔ گاڑی لینا اُن کے بس کی بات نہیں تھی۔
وہ سڑک پر بنے بس سٹاپ تک پیدل جا رہے تھے  کیوںکہ رکشے بھی وہیں کھڑے تھے ۔ اچانک دھماکے کی آواز آئی ۔ گولیاں چلنے کی آواز اُس کے کانوں میں  گونجی ۔ لاتعداد چیخیں بلند ہوئیں۔ اُسے کچھ سمجھ نہ آیا لیکن جب کچھ سمجھ آیا تو  تب دیر ہو چکی تھی۔ اُس کی ماں زمین پر پڑی تھیں۔  پیٹ میں لگنے والی گولی سے درد سے کراہ رہی تھیں۔
“امی!”  وہ اُن کی طرف لپکی ۔ اُس کے بابا پہلے ہی اُس کی ماں کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے تھے۔
“امی! اٹھیں آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔” رونے اور خوف کے باعث اُس کی آواز لڑکھڑا گئی۔
“سب کا خیال رکھنا فاطمہ!” اُنھوں نے کہا اور پھر گردن ایک طرف ڈھلک گئ۔ بہت سی امیدیں دم توڑ گئیں۔ آوازیں ہمیشہ کے لیے اپنی یادیں چھوڑ گئیں۔
“امّی!” وہ چلّائی۔ آخر کون اپنی امیدیں ٹوٹتی ہوئی دیکھ سکتا ہے؟ کون اپنی زندگی ختم ہوتے دیکھ سکتا ہے؟
“فاطمہ!” عالیہ کی آواز اُسے حال میں واپس لائی۔ بے ساختہ اُس کی نظر اپنے میڈل پر گئی جس پر آج بھی خون کے چھینٹے نظر آ رہے تھے۔
“بولو۔”
“کیا سوچ رہی ہو؟” عالیہ نے فاطمہ سے پوچھا۔
“کچھ نہیں بس امی کی یاد آ رہی تھی۔” فاطمہ نے سچ بولا۔
“تمہارے کالج میں فلسطین کےحوالے سے کیا ہو رہا ہی؟”  فاطمہ نے اُس کے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی کہا۔
“آئی ہیٹ دس ٹاپک! میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتی۔ اور تم کیوں فلسطین  اتنی حمایت کر رہی ہو؟” عالیہ نے سختی سے پوچھا۔
” کیوں کہ میں اس دکھ اُس تکلیف سے گزری ہوں۔ جس سے وہ لوگ گزر رہے ہیں۔ امی کو میری آنکھوں کے سامنے مار دیا  گیا۔ میں وہ منظر  کبھی نہیں بھول سکتی۔ فلسطینیوں پر کیا گزار رہی ہے یہ میں محسوس کر سکتی ہوں۔” فاطمہ نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔ عالیہ منہ میں کچھ بڑبڑائ اور وہاں سے چلی گئی۔
—***—
وہ کالج سے گھر واپس آ رہی تھی لیکن گھر کے سامنے آتے ہی اُسے دھماکے  آواز آئی۔ اُس کے کے گھر میں آگ لگ گئی تھی۔
“فاطمہ!” عالیہ گھر کی طرف جانا چاہتی تھی مگر اُس سے چلا نہیں جا رہا تھا۔ اُسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اُس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
“نہیں!”  وہ ایک دم سے اٹھی۔ وہ پسینے سے تر تھی۔ اُس نے  اپنی دائیں طرف دیکھا تو فاطمہ سکون سے سو رہی تھی۔ اُس نے سکون  کا سانس لیا۔ اُسے فاطمہ کی بات یاد آ گئی۔ “فلسطینیوں پر کیا گزار رہی ہے یہ میں محسوس کر سکتی ہوں۔”  اپنوں کے چھن  جانے کا خوف، امیدیں ٹوٹنے کا خوف اُس نے محسوس کیا تھا اور آج، ابھی، اسی وقت عالیہ کو لگا کہ فلسطین میں اُن معصوم لوگوں پر نہیں اُس پر ظلم ہو تھا ہے اور اسی پل  فلسطینیوں کے لیے اُس کی سوچ بدل گئی۔ اب یہ وہ عالیہ نہیں رہی تھی جو فلسطینیوں سے نفرت کرتی تھی۔ اب یہ وہ عالیہ تھی جس کی  آنکھوں میں فلسطینیوں کے لیے محبت تھی۔ محض ایک خواب نے  اُسے بدل دیا تھا۔ (بے شک اللہ جسے چاہے، جب چاہے بدل دیتا ہے)۔
اُسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ اُس نے موبائل اون کر لیا۔ اُس کی دوست کا میسج آیا ہوا تھا ۔
صبح کے فنکشن کا کیا کرنا ہے؟””
اُن کے کالج میں روزانه فلسطین کے بارے میں چھوٹے چھوٹے فنکشن منعقد ہو رہے تھے۔ ہر کلاس روزآنہ باری باری فلسطین کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتی تھی۔ صبح اُن کی کلاس کی  باری تھی۔
—***—
اگلے دن وہ اپنے کالج گئی تو تھوڑا خوش تھی اور تھوڑا نروس لیکن اُس نے شیطان کو خود پر حاوی نہ ہونے دیا۔
“السلام علیکم! میرا نام عالیہ اشرف ہے۔” اُس نے تقریر کا آغاز کیا۔
“سب سے پہلے میں آپ سب سے پوچھنا چاہوں گی کہ فلسطین کیا ہے؟ کوئی ہے جو اس کا جواب دے گا؟” پورے ہال میں خاموشی چھائی رہی۔
“فلسطین وہ ملک ہے جہاں بیت المقدس مسجد اقصٰی ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اوّل۔ وہ مسجد جس كا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔لیکن آج کل کے مسلمانوں لیے مسجد اقصیٰ ایسی ہی ہے جیسے کوئی عام مسجد۔ افسوس! کئی صدیوں پہلے جب حضرت عمر نے فلسطین فتح کیا تھا لیکن بعد میں  یہودیوں نے دوبارہ قبضہ کر لیا۔ مگر مسلمان ثابت قدم رہے اور فلسطین دوبارہ آزاد ہوا۔ پھر کچھ ہماری کوتاہیوں اور کچھ یہودیوں کی سازشوں سے یہودی پھر قابض ہو گئے۔ آج کل کے مسلمانوں کے لیے فلسطین کچھ بھی نہیں ہے سوائے ایک عام سے ملک کے۔ لیکن پتہ ہے اگر وہ عام سا ملک ہوتا ناں تو وہاں مسجد اقصیٰ نہ ہوتی۔ وہاں قبلہ اول نہ ہوتا۔ اسرائیلی اُن پر اتنا ظلم نہ کررہے ہوتے۔ دنیا میں مسلمان تو ہر جگہ پائے جاتے ہیں پر صرف فلسطینیوں پر ہی اتنا ظلم کیوں؟ اگر مسلم  ممالک چاہیں  ناں تو اسرائیل ایک دن تو کیا ایک گھنٹہ بھی نہیں ٹک سکتا لیکن کوئی بھی اُن کی مدد نہیں کر رہا کیونکہ پھر IMF سے اور امریکہ سے امداد کیسے ملے گی انہیں؟ اسرائیل کی آبادی لاہور سے بھی کم ہے۔ یقین نہیں آ رہا تو گوگل کر لیں۔ اتنے سے ملک نے ساری دنیا کو قبضے میں لے رکھا ہے۔ ملک بھی وہ جو کافروں کا ہے۔یہ مسلم ممالک کی کمزوری ہے انہیں اس پر غور کرنا چاہیے۔ ” وہ سانس لینے کو رکی۔
“اس وقت فلسطین میں جو ہو رہا ہے وہ ہم سب جانتے ہیں۔ اب سوال آتا ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہم اسرائیل اور اُس کے حمایتی ممالک کی پروڈکٹس کا بائکاٹ کر سکتے ہیں۔ یہ مت سوچیے کہ ہمارے بائکاٹ کرنے سے کیا ہو گا۔ ہو گا ضرور ہو گا۔ ہر ملک میں جو اسرائیلی یا حمایتی ممالک کی کمپنیز ہیں وہ مالکان کو شیئر دیتے ہیں  یعنی وہ رقم اُس ملک میں جاتی ہے جس سے اُن کی معشیت اسٹرونگ ہوتی ہے اور جب اُن کی معشیت اسٹرونگ ہوتی ہے اُن کے ملک میں پیسہ آتا ہے تو وہ اُس سے ہتھیار  خریدتے ہیں کو جنگ میں استعمال ہو رہے ہیں۔ سوچیں آپ کے ایک قدم سے کیا نہیں رک سکتا۔ جب ہماری قوم کا ہر فرد بائکاٹ کرے گا تو کمپنیز تک پیسہ ہی نہیں پہنچے گا۔ نتیجتاً اُن کی معشیت کمزور ہو گی اور وہ ہتھیار خریدنے کے قابل ہی نہ رہیں گے۔ تو وہ جنگ کیسے کریں گے۔” پورے ہال میں خاموشی چھائی رہی۔ سب اُسے سن رہے تھے۔
“مزید یہ کہ ہم ڈونیٹ کریں جتنا ہو سکے کریں۔ ہو سکتا ہے آپ کا دیا ہوا ایک روپیہ کسی کی بھوک مٹانے میں کام آ جائے۔ آخر میں میں بس ایک بات کہوں گی کہ آپ سب دعا کریں اُن کے لیے۔ دعا سے بہتر کچھ نہیں۔ اللہ فلسطینیوں کی مدد فرمائے۔ آمین!” پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ وہ اسٹیج سے اُتری تو اُسے فاطمہ سامنے کھڑی نظر آئی۔
“فاطمہ؟” سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔
“مجھے تمہاری فرینڈ نے کال کر کے بتایا تو میں فوراً آ گئی۔” فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“کچھ کہو گی نہیں؟” عالیہ نے پھر سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔
“آئی ایم پراؤڈ آف مائی سسٹر!”
(تمت بالخیر)






Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *