Complete Article
Tasmiya Iqbal
Article: Ham Kya Kar Sakte Hain
Writer: Tasmiya Iqbal
Instagram: @tasmiyaiqbal9086
Status: complete
status: complete
آرٹیکل
“ہم کیا کر سکتے ہیں “
آج کل کے حالات سے ہم بہت اچھے سے واقف ہیں ۔بحثیتِ مُسلمان ہم کیا کر رہے ہیں؟اگر بات ہمارے حکمرانوں کی کریں تو انہوں نے کوئی اعلان نہیں کیا ابھی تک نہ ہی فوج نے کچھ کہا۔ ہمارے پاس اگر نبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے کپڑے کا ایک ٹکڑا ہو تو ہم اس کو چوم کرعقیدت سے سجا کر رکھتے ہیں خود پر رشک کرتے ہیں کہ اتنی مقدس چیز ہمارے پاس ہے۔ تو وہ زمین وہ جگہ جہاں ان کی موجوگی کی دلیل ہے ۔جہاں ہمارا قبلہ اول ہے۔ جس کی حفاظت فلسطینی کر رہے ہیں ہم ان کے لیے کیوں نہیں کچھ کر پا رہے ؟ وہ ہماری مدد کے محتاج نہیں ہیں ان کی مدد کا وعدہ اللّٰه نے کیا ہے۔ لیکن کیا ہم اس قابل بھی نہیں کہ ان کے لیے کچھ کر سکیں؟ وہ لوگ اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں ۔ وہاں روز ہر کوئئ اپنے ماں ،باپ، بیٹا، بیٹی، بھن، بھایئ، بیوی، بچے کچھ نہ کچھ کھو رہا ہے مگر پھر بھی ثابت قدم ہے ۔ان کا ایمان ابھی بھی مظبوط ہے ۔اور ہم ۔۔۔۔ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہم اتنے بے بس بن کرکیوں بیٹھے ہیں ؟ہم کیوں خود سے جھوٹ بول رہے ہیں؟ ہم کیوں کچھ نہیں کر رہے اپنے مسلمان بھایئوں کے لیئے ؟ کیا بس یہ ان کا مسئلہ ہے ؟ہمارا مسئلہ نہیں ہے ؟کیا وہ بچےدیکھے ہیں آپ نے جو جہاز کی آوازسے خوف زدہ ہو کر چھپ جاتے ہیں۔ ماں باپ بچوں کو فائرنگ اور بلاسٹس کی آوازوں پر ہسنا سکھا رہے ہیں تا کہ وہ ڈریں نہ۔ کیا آپ نے وہ چھوٹے چھوٹے بچے دیکھے ہیں جو ابھی خود سے اٹھ کر بیٹھ بھی نہیں سکتے اور ان کی مایئں نہی ہیں ان کے پاس ۔ جب وہ بچہ روئے گا تو اس کو چپ کروانے کے لئے اس کی ماں نہیں ہو گی۔ اس کو بھوک لگے گی تب بھی نھیں۔ وہ بچے جو خوف سے کانپ رہے ہیں اور نظریں ماں باپ کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ اب وہ کس کے پاس جائیں۔ صرف پانچ یا سات سال کا بچہ اپنی ماں کی لاش پر کھڑا ہے کوئی ساتھی نہیں بچا۔ایک باپ اپنی بیٹی کی لاش ملبے سے نکال رہا ہے۔ ایک باپ بچوں کے جلے ہوئے کھلونے ہاتھ میں پکڑے کھڑا ہے۔ عورتیں با حجاب سوتی ہیں تا کہ ان کی لاشیں با حجاب ملیں۔ کیا وہ اس سب کے اہل ہیں۔ ہم اب بھی چپ رہنے کا حوصلہ ہے۔ کیا ہم ان ظالموں کو ظلم کرنے دیں۔ کیا ان کو ان کے مقصدمیں کامیاب ھونےدیں۔ کیا ہم اپنا قبلہ اول اپنے ہاتھوں سے جانے دیں۔کیا یہ اتنی چھوٹی بات ہے ۔ نہیں یہ چھوٹی بات نہیں ہے۔یہ جنگ ہے۔ یہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے یہ امتِ مسلمہ کا مسٔلہ ہے ۔ یہ صرف ان کی جنگ نہیں ہے ۔ یہ پورے عالمِ اسلام کی جنگ ہے ۔اور ہم مسلمان ہیں۔ کیا اب بھی آپ یہی کہیں گے کہ میں کیا کر سکتا ہوں ہم کونسا وہاں جا سکتے ہیں۔ جب حکومت کچھ نہیں کر رہی تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے کوئی اعلان کرتے ہیں حکمران تو سوچوں گا۔ میرے بائیکاٹ سے کیا ہو گا ۔ دُعا کرنے سے کیا ہو گا ایک دن سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔
یہ بات فلسطینی بھی جانتے ہیں مگر پھر بھی وہ پیچھے نہی ہٹتے ۔ لڑتے ہیں اپنی جانیں قربان کرتے ہیں آج سے نہیں بلکہ کئی سالوں سے ۔کیوں ؟ کیوں کے ان کو روزِ قیامت جواب دہ ہونا ہے ۔ کیا ہمیں نہی ہونا؟ ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے جب ہمارے مسلمان مشکل میں تھےتوہم نے ان کے لیےکیا کیا ،جب وہ نا حق مارے جا رہے تھے تو ہم نے ظالم کا ہاتھ کیوں نہ روکا،جب وہ بے گھر کیے جا رہے تھے تو ان کو پناہ کیوں نہ دی ؟ ہم کہاں تھے؟ کیا ہم دعا کر کے سرخرو نہیں ہو سکتے۔ ہم کرسکتے ہیں کیوں کہ یہ ہمیں ہی کرنا ہے ۔ ہم کیوں کسی دوسرے کا انتظار کریں کہ کوئی شروع کرے تو ہم بھی شامل ہو جائیں گے۔وہ شروع کرنے والا ہم خود کیوں نہیں ہو سکتے ؟ ہو سکتے ہیں نا تو دیر کس بات کی ۔آپ بہت کچھ نہ کریں صرف چند چیزیں کر لیں ۔وہ بھی نہیں تودو چیزیں اگر یہ بھی نہیں تو صرف ایک چیز ۔ اور وہ ہے دُعا ۔ دن میں پانچ بار نماز پڑھتے ہیں اور دعا بھی کرتے ہیں تو ایک سطر فلسطین کے لیے بھی شامل کر لیں۔آپ اویئرنیس پھیلائیں دوستوں میں ،گھر والوں میں ۔ان سے ڈسکس کریں ۔اگر آپ ایک ٹیچر ہیں تو آپ اپنےلیکچرکا تھوڑا ساوقت سٹوڈینٹس کو اس کا پسِ منظر بتائیں ۔ اس سب کے بارے میں معلومات دیں ۔ کیوں کہ ہمارے ہاں اکثریت ہے بچوں کی جن کو علم ہی نہیں اس سب کا ۔ان کو اپنے دین کی تاریخ کا پتہ ہونا چاہئے۔ اس سے ان میں جہاد کا جزبہ پیدا ہو گا سوشل میڈیا پر اس کے خلاف آوازاٹھائیں ۔اپنے الفاظ سے،تصاویر،ویڈیوز،ہیشٹیگز سے ۔ اسرائیلیوں اور ان کا ساتھ دینے والے ہر ملک کی پروڈکٹس سے بائیکاٹ کر دیں تا کہ آپ کا ایک پیسہ بھی کسی فلسطینی کو تکلیف دینے کا باعث نہ بنے۔ اپنی اپنی ہمت ،طاقت اور حصے کا کام کریں تا کہ قیامت کے دن آپ کو شرمندہ نہ ہونا پڑے۔
“اللهُمَّ إِنَّهُمْ مَغْلُوبُونَ فَانْتَصِرْ لَهُمْ”