Complete Article
Maleeha Jabee’n
Article: Ismael haniyeh Rahimah hullah by Maleeha Jabee’n
Genre: Personality writing, Palestine based
Description:
(شخصیت نگاری اس مردِ مجاہد کی جو جاتے جاتے بھی قوم کی خدمت میں پیش پیش رہا، جس کا جانا کمر ٹوٹنے کا سبب تو تھا ہی لیکن انہی دکھوں کو جب جمع کرکے وار کریں گے تو مخالف کا سانس لینا دوبھر ہو جائے گا۔ اس جواں مرد کا تعارف جس نے جی کر بتایا کہ جیو تو ایسے جیو۔)
Instagram: @taalib_e_mushaf
status: complete
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی
عرب اسرائیل جنگ کے بعد جب اسرائیل نے غزہ کو محصور کررکھا تھا 1962 کے اس دورِ کسمپرسی میں مصر کے مقبوضہ غزہ کی پٹی کے الشاطی پناہ گزین کیمپ میں حالات کے بے رحم تھپیڑوں کا صنفِ آہن کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی عظیم عورت نے ایک خوب صورت بہادر بچے کو جنم دیا اور کون جانتا تھا کہ یہ ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہونے والا بچہ آنے والے کل میں صیہونیوں کی سانسیں ناہموار کرنے کا باعث بنے گا۔ والدین نے اپنے لختِ جگر کا نام اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ رکھا۔جس نے اسماعیل علیہ السلام کے نقشِ قدم پر چلتے، قربانیاں دے کر فلسطین کے پودوں کو سینچنا تھا۔غزہ شہر کے ساحل پر واقع تنگ پناہ گزین کیمپ میں پناہ لئے اس جری باپ اور کشادہ دل ماں کی آنکھیں خوابوں سے لبریز تھیں، فلسطین کو صیہونیوں کے سالوں سے جاری ظلم و جبر سے آزاد دیکھنے کا خواب، اپنی قوم کو خوش حال دیکھنے کا خواب…
بیٹے کی پیدائش پر باپ خوشی سے پھولے نہ سما رہا تھا کہ اللّٰہ کی ذات نے ان کی فوج میں ایک اور صلاح الدین پیدا کردیا، ایک اور سپہ سالار نے آنکھ کھولی ہے جو باطل کی سرکش موجوں سے ٹکرا کر ان کا رخ موڑے گا۔
اسماعیل ہنیہ رحمہ اللّٰہ نے اقوامِ متحدہ کے ادارے اونرا کے زیرِ انتظام سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ان سکولوں کا مقصد غزہ پٹی پر پناہ گزین بچوں کو تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ اسماعیل ہنیہ نے دشوار حالات میں بنیادی سہولیات کی غیر موجودگی کے عبث پسماندہ سکول میں تعلیم حاصل کرکے اپنی ذہانت اور غیر معمولی صلاحیتوں سے تعارف کرایا اور سلسۂ نوِشت خواند کو جاری رکھنے کے لیے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔
دورانِ تعلیم ہی مردِ مجاہد نے اپنی آواز کو قوم کی آواز بنانے کےلیے اسلامی طلبہ تنظیم میں شمولیت اختیار کرکے مقبولیت حاصل کی۔ بعد ازاں یہ تنظیم حماس کے نام سے ظہور پذیر ہوئی۔1987 میں عربی ادب میں بیچلر کی ڈگری لی جس کے دوارن مسلسل قوم کی بے لوث خدمت کا جذبہ لئے کام کرتے رہے۔ اور انہی افکار کی بدولت 1997 میں حماس کے دفتر کے سربراہ کے طور پر ابھرے۔
اٹل ارادوں والے مجاہد کے عزم سے خوف زدہ صیہونیوں کا جب یقین ڈگمگایا اور پاؤں اکھڑنے لگے تو قوم کا درد رکھنے والے اس عظیم قدس کے بیٹے کو تین بار جیل میں رکھ کر اس کے مصمم ارادوں کو کھوکھلا کرنا چاہا لیکن انہیں منھ کی کھانی پڑی۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں اسماعیل ہنیہ نے جیل کی صعوبتیں کاٹیں لیکن اپنے ملک کی حفاظت کے لیے لگائے پودے کو نہ کاٹ سکے۔ 1992 میں اسماعیل ہنیہ کو اپنی قوم کے لیے کسی حکمتِ عملی کو جامہ پہنانے سے باز رکھنے کےلئے دیگر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ لبنان جِلا وطن کر کے گھناؤنی سازش کی گئی۔ اس بات سے بے خبر کہ فلسطین سے محبت ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے اور فاصلے اس محبت کو ختم نہیں بل کہ بڑھانے کا سبب بن جائیں گے۔
اس اولو العزم رہنما کے حوصلے کو پست کرنے کے لیے 2003 میں اسرائیل نے حملہ کیا لیکن اللہ کے فضل سے وہ اسماعیل ہنیہ کا بال بھی بیکا نہ کرسکے۔ 2006 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں اسماعیل ہنیہ فلسطین اتھارٹی کے وزیراعظم مقرر ہوئے اور 2007 سے 2014 تک غزہ پٹی پر حماس کے سیاسی بیورو کے چئیر مین بن کر حکومت کی اور اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ 2019 میں اسماعیل ہنیہ نے قطر اور ترکی کا رخ کیا اور وہاں حماس کے سیاسی سربراہ اور ترجمان کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی۔
حماس اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی کے باوجود اسماعیل ہنیہ نے 2021 میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی۔ ارضِ مقدسہ کی حفاظت اور آزادی کے لیے کام کرتی اس تنظیم (حماس) کو پھلتے پھولتے دیکھ کر صیہونیوں کی نیندیں حرام ہوگئیں۔ اپنے ناپاک عزائم کے پیشِ نظر اکتوبر 2023 میں اپنے وحشی پن اور بربریت کی انتہا کردی۔ سسکتی ہوئی قوم کی ریڑھ کی ہڈی پہ وار کرنے کےلیے اسماعیل ہنیہ کے گھر والوں کو نشانے پہ رکھ کر جذباتی طور پر ناکارہ کرنے کی ناکام جدوجہد شروع کردی۔ 2023 میں ہونے والے اس حملے میں اسماعیل ہنیہ کے بھائیوں اور بچوں سمیت 14 افراد کو شہید کردیا گیا لیکن اس قوم کے خدمت گار کو پرسکون دیکھ کر صیہونی خود بلبلا اٹھے۔ اپریل 2024 میں ہنیہ کے تین بیٹے عامر ، حازم اور محمد سمیت متعدد پوتے، پوتیوں کو شہید کردیا گیا لیکن یہ مردِ مجاہد اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کہتے، صبر کی تسبیح کے دانے گراتے بنا ماتھے پہ ہار کی شکن سجائے اسپتالوں میں زخمیوں کی خبر گیری کرتے رہے۔ جون 2024 میں اس شجاعت کے پیکر کے خاندان کے 10 افراد کو بہ شمول ان کی ہمشیرہ کے شہید کردیا گیا۔
لیکن اس وطن کے جیالے کی زبان پر یہی کلمات جاری رہے:
”ہماری روحیں، ہمارا خون، ہمارے خاندان، ہمارى اولاد اور ہمارے گھر یروشلم اور الاقصیٰ کے لیے قربان ہیں۔“
31 جولائی 2024 کو تہران میں نئے ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرنے کےلیے آئے 62 سالہ اسماعیل ہنیہ پر ہونے والے نامعلوم حملے نے غزہ کو یتیم کردیا۔ ساری زندگی فلسطین کی آزادی کے لیے جدوجہد کےلیے وقف کرتے اس عظیم رہنما نے قوم کی خدمت کرتے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ جس طرح اپنے لوگوں کے لیے سعی کرتے اس دلیر،جواں مرد نے ابدی سفر کو چنا ہے اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
”جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے“
بےشک آنکھ آنسو بہاتی ہے
اور دل غمگیں ہے
مگر ہم زباں سے وہی بات نکالیں گے
جس سے ہمارا خدا راضی ہو۔
غزہ کے بلکتے بچوں کو یتیم کرکے صیہونی پھر بھی اپنے نجس ارادوں میں کامیاب نہیں ہوسکتے، اسماعیل ہنیہ رحمہ اللّٰہ کی شہادت نے فلسطینیوں کے جوش کو للکارا ہے اس بات سے اَن جان کہ انہی پناہ گزین کیمپوں میں کوئی اور اسماعیل ہنیہ ان کو ناکوں چنے چبوانے کےلیے پیدا ہوچکا ہے۔کوئی اور اسماعیل ہنیہ، کوئی اور موسیٰ ان فرعونوں کے لیے غرق کرنے کو خدا بھیج چکا ہے۔
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆